اتوار، 5 مئی، 2019

جہیز کے سامان پر زکوٰۃ کا حکم

سوال :

مفتی صاحب بیٹی کا نکاح ہوا کچھ ماہ کے بعدطلاق ہو گیا جہیز کاسامان واپس آ کر رکھا ہے یہ سامان میکہ میں استعمال نہیں ہوا ہے جس کی قیمت نصاب تک پہنچ گئی ہے اور اس پر سال بھی مکمل ہوگیا ہے اس پر زکوٰۃ کا کیا حکم ہے؟
(المستفتی : حافظ فیصل، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفیق : اموال میں زکوٰۃ واجب ہونے کے لئے اس میں دو صفتوں میں سے ایک صفت کا پایا جانا ضروری ہے۔

١) اس مال کا مالِ نامی ہونا۔ یعنی اس میں نمو وبڑھوتری کا پایا جانا، اور شریعتِ مطھرہ نے صرف سونا، چاندی، اور نقد رقم کو مالِ نامی تسلیم کیا ہے، اس کے علاوہ اور کوئی بھی مال خواہ کتنا ہی قیمتی کیوں نہ ہو وہ مالِ نامی نہیں ہے۔

٢) اس مال کا مالِ تجارت ہونا۔ تجارت کی نیت سے خریدے گئے ہر مال پر زکوٰۃ واجب ہوگی۔

صورتِ مسئولہ میں جہیز کے سامان میں خواہ وہ غیرمستعمل کیوں نہ ہو یہ دونوں صفتیں نہیں پائی جاتی، لہٰذا اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔ البتہ اگر بچی کے پاس سونے چاندی کے زیورات ہوں اور وہ نصاب کی مقدار کو پہنچ گئے ہوں اور اس پر سال گذر گیا ہوتو ان زیورات پر زکوٰۃ واجب ہوگی۔

وینقسم کل واحد منہما إلی قسمین : خلقی وفعلی، ہٰکذا فی التبیین۔ فالخلقی الذہب والفضۃ …، والفعلی ما سواہما ویکون الاستنماء فیہ بنیۃ التجارۃ الخ۔ (بدائع الصنائع : ۲؍۹۲)

عن ابن عمر ؒؓ قال: لیس فی العروض زکاۃ ، إلا ماکان للتجارۃ ۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی، کتاب الزکاۃ، باب زکاۃ التجارۃ، رقم: ۷۶۹۸)

ولیس في دور السکنیٰ وثیاب البدن وأثاث المنازل ودواب الرکوب وعبید الخدمۃ وسلاح الاستعمال زکاۃ؛ لأنہا مشغولۃ بحاجتہ الأصلیۃ۔ (شامی : ۳؍۱۷۸)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
29 شعبان المعظم 1440

2 تبصرے: