پیر، 13 مئی، 2019

تین دن سے پہلے قرآنِ کریم مکمل کرنے کا حکم

سوال :

امام الائمہ امام اعظم ابوحنیفہ ؒکی سیرت میں ہے کہ رمضان المبارک میں آ پ کا معمول یہ تھاکہ ایک قرآن مجید دن میں اور ایک قرآن مجید رات میں ختم کرتے تھے، اور ایک قرآن مجید نماز تراویح میں ختم کرتے تھے اس طرح پورے رمضان میں 61 مرتبہ قرآن مجید ختم کرتے تھے۔
سوال یہ ہے کہ حدیث شریف میں قرآن کریم ختم کرنے کی مدت کم سے کم تین دن بیان کی گئی ہے۔ پھر امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا رمضان المبارک میں روزانہ دن اور رات میں ایک ایک قرآن مکمل کرنا اس حدیث شریف کے تناظر میں کیسا ہے؟
(المستفتی : محمد عامر، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : قرآن مجید کتنے دنوں میں مکمل کرنا چاہیے اس بارے میں احادیث مختلف ہیں۔ چنانچہ مشہور محدث امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بعض روایتوں میں ملتا ہے کہ قرآن مجید تین دنوں میں مکمل کرنا چاہیے، بعض راویوں سے پانچ دنوں کا قول منقول ہے، اور اکثر راوی حضرات سات دن والی روایت نقل کرتے ہیں۔ (١)

امام بخاری رحمہ اللہ کے درج بالا فرمان سے معلوم ہوا کہ قرآن کریم مکمل کرنے کے لیے دنوں کی کوئی خاص حد مقرر نہیں جس میں کمی یا اضافہ نہ ہوسکتا ہو۔

سوال نامہ میں مذکور حدیث شریف میں ہے کہ قرآنِ کریم کو کم از کم تین دن میں مکمل کرنا چاہیے۔ جبکہ دوسری طرف دیکھا جائے تو صحابہ کرام اور ائمہ دین کی ایک بڑی جماعت تین دن سے کم میں قرآن کریم مکمل فرماتی تھی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان حضرات کا یہ معمول حدیث کے خلاف ہے یا حدیث کا مطلب اور مراد کچھ اور ہے؟

چنانچہ علامہ طیبی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث شریف کی شرح میں فرماتے ہیں کہ یہاں یہ مراد ہے کہ جس شخص نے تین دن یا تین رات سے کم میں قرآن ختم کیا وہ قرآن کے ظاہری معنی تو سمجھ سکتا ہے لیکن قرآن کے حقائق ومعارف اور دقائق ونکات تک اس کو رسائی نہیں ہوتی کیونکہ ان چیزوں کو سمجھنے کے لئے تین دن تو بہت دور کی چیز ہے بڑی سے بڑی عمریں بھی ناکافی ہوتی ہیں، بلکہ اس مختصر سے عرصہ میں تو کسی ایک آیت یا ایک کلمہ کے حقائق و نکات بھی سمجھ میں نہیں آ سکتے، نیز یہاں نفی سے مراد سمجھنے کی نفی ہے نہ کہ ثواب کی نفی یعنی ثواب تو ہر صورت میں ملتا ہے پھر یہ کہ لوگوں کی سمجھ میں بھی تفاوت وفرق ہے بعض لوگوں کی سمجھ زیادہ پختہ ہوتی ہے وہ کم عرصہ میں بھی قرآنی حقائق ودقائق کو سمجھ لیتے ہیں جب کہ بعض لوگوں کی سمجھ بہت ہی کم ہوتی ہے جن کے لئے طویل عرصہ بھی کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ سلف میں سے بعض لوگوں نے اس حدیث کے ظاہری مفہوم پر عمل کیا ہے چنانچہ ان لوگوں کا معمول یہ تھا کہ وہ ہمیشہ تین ہی دن میں قرآن ختم کرتے تین دن سے کم میں ختم کرنے کو مکروہ سمجھتے تھے جب کہ دوسرے لوگ اس کے برخلاف عمل کرتے تھے چنانچہ بعض لوگ تو ایک رات دن میں ایک بار اور بعض لوگ دو دو بار اور بعض لوگ تین تین بار قرآن ختم کرتے تھے بلکہ بعض لوگوں کے بارہ میں تو یہاں تک ثابت ہے کہ وہ ایک رکعت میں ایک قرآن ختم کرتے تھے۔

چنانچہ ذیل میں چند صحابہ کرام اور ائمہ عظام کے بارے میں باحوالہ یہ نقل کیا جا رہا ہے کہ وہ تین دن سے کم میں قرآن مجید مکمل کیا کرتے تھے۔

حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ م40ھ
رات بھر نماز میں پورا قرآن مجیدختم۔(طحاوی ج1 ص205 تہذیب 1/511)

حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ م73ھ
ایک رکعت میں پورا قرآن مجید ختم۔(طحاوی ج1ص205 ،قیام اللیل ص63)

حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ شہادت 94ھ
ایک رکعت میں پورا قرآن مجید ختم۔ (قیام اللیل ص64، تذکرہ ج1 ص72)

ثابت بن اسلم بنانی م123ھ
رات دن میں ایک قرآن مجید ختم۔ (قیام اللیل ص64)

امام محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ م204ھ
ہررات قرآن ختم لیکن رمضان میں ایک دن اور ایک رات کے وقت ختم۔ (خطیب بغدادی ج14 ص63)

امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ رمضان المبارک میں دن رات میں دو قرآن کریم مکمل فرمایا کرتے تھے۔ (الجواہر المضئیہ ج2 ص 524،خطیب بغدادی ج 3 ص356،357 ،354)
بلکہ خود امام بخاری رحمہ اللہ کا اپنا معمول رمضان المبارک میں روزانہ ختم قرآن کا تھا۔ (الطبقات لابن سعد ج 2 ص 9)

ماضی قریب کے عظیم محقق و محدث مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
اس حدیث کے دیگر بیان کردہ مطالب کے علاوہ ایک آسان مطلب یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد تین دن سے کم میں قرآن کریم ختم نہ کرو (امت پر شفقت اور ترحم کے سلسلہ میں ہے۔ تاکہ ان دنوں میں غور وفکر سے قرآن کریم پڑھا جائے اور اس کے معانی کو سمجھا جاسکے۔ کیونکہ ہر آدمی تو مثلاً امام شافعی رحمہ اللہ نہیں کہ مسئلہ اجماع کو سمجھنے کے لیے تین دن میں نو مرتبہ قرآن کریم ختم کرے اور منتہائے نظر یہ ہو کہ مسئلہ استنباط کرنا ہے۔ ہر ایک کو بھلا یہ مقام کہاں نصیب ہو سکتا ہے؟ (مقام ابی حنیفہ ص 243)

اب اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ اتنے کم وقت میں مکمل قرآن نہیں پڑھا جاسکتا، تو یہ ان بزرگوں اور ان کے حالات کو اپنے زمانے اور اپنی شخصیات پر قیاس کرنے کی وجہ سے ہے، جس کا کوئی جوڑ نہیں ہے۔

اور قرآن کریم کو جو جتنا زیادہ پڑھتا ہے، اس کے پڑھنے میں اتنی ہی روانی آجاتی ہے، اور دوسری بات یہ ہے کہ اگر ہمارے وقت میں برکت نہیں رہی، تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ سلف بھی اس "برکت"سے خالی تھے۔ جبکہ ہمارے زمانہ میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو رمضان المبارک میں بشاشت کے ساتھ تین دن کے اندر اندر قرآن مجید مکمل کرلیتے ہیں۔

تین دن سے کم ایک دن اور رات میں، ایک رکعت یا دو رکعتوں میں قرآن ختم کرنے والوں میں صحابہ کرام، تابعین اور خیر القرون کے لوگوں کے نام ہیں، اگر ان پر یہ اعتراض درست ہوتے، تو یہ واقعات ان اعتراضات کے بغیر نقل نہ ہوتے، ضرور ان پر یہ اعتراض لگا ہوا ہوتا۔ جبکہ ایسا نہیں ہے۔

رہی بات فہم قرآن کی، تو ہمارے جیسے تو حدیث میں بیان کردہ آخری حد چالیس دن بھی لگائیں، تو شاید ’لم یفقہ‘ یعنی قرآن مجید کو نہ سمجھنے والوں کی قطار میں ہی آئیں گے۔

خلاصہ یہ کہ بلاشبہ قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھنا چاہیے، لیکن بلا فہم بھی صرف تلاوت قرآن بھی باعث ثواب ہے، تلاوت قرآن کی مثالی مدت تین سے لیکر چالیس دن ہے، لیکن لوگوں کی طبیعت اور ذوق کے مطابق اس میں کمی بیشی کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

١) قال بعضہم فی ثلاث و فی خمس واکثرھم علیٰ سبع۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث 5052باب فی کم یقراء القرآن)
مستفاد : مشکوٰۃ مترجم، تذکرۃ الفقہاء)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
07 رمضان المبارک 1440

5 تبصرے:

  1. اجی پہلی مرتبہ سیکھ سمجھ کر پڑھنے میں تو پتہ نہیں ایک قرآن کتنی مدت کتنے دن نہیں ، کتنے سالوں لگیں، مگر اس سمجھنے کے مرحلے طے کرنے کے بعد آدمی اپنی استعداد صلاحیت تقوی کی وجہ سے وقت میں برکت کی وجہ پتہ نہیں ایک دن تین دن کم و بیش میں تلاوتًا ختم بھی کرے اور ہر ختم کے ساتھ اس کے نورِ فہم میں اضافہ ہی ہو اور اس کی ہدایت بڑھ ہی جائے۔۔۔۔ اس لئے بالکل ابتدائی تعلیم و تفہیم و تفکر و تدبر کے بارے میں تو کہا جا سکے گا کہ جلدی نہ کرے مگر اس سے اگلے مرحلہ کے جلدی ختم پر کوئی اشکال اعتراض ہرگز نہیں ہونا چاہئیے کیونکہ ہر ایک کی استعداد صلاحیت تقوی متفاوت ہونا فطری ہے

    جواب دیںحذف کریں
  2. الفاظ میں کمی بیشی کی وجہ سے مدعا و مطلب سمجھ میں نہ آیا ہو تو معذرت خواہ ہوں۔۔۔ خلاصہ یہ تھا بالکل ابتدائی تعلیم تفہیم تفکر تدبر کے ساتھ ختم قرآن میں دیر لگے گی ہی مگر بعد میں دیر کی قید اور جلدی ختم کرنے سے منع کی ضرورت نہیں البتہ اس میں الفاظ مخارج کا لحاظ لازم ہے، واللہ اعلم

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. ماشاءاللہ بہت خوب نہایت عمدہ۔اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے آمین یہ مضمون آج کی اہم ترین ضرورت ہے۔

      حذف کریں
  3. ماشاءاللہ ❤️ بہت خوب

    اللہ تعالیٰ علم و عمل میں مزید برکت عطا فرمائے

    جواب دیںحذف کریں