جمعہ، 17 مئی، 2019

ایک ساتھ متعدد نماز جنازہ پڑھنے کا حکم

*ایک ساتھ متعدد نماز جنازہ پڑھنے کا حکم*

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ اگر کسی جگہ دو جنازہ ایک وقت میں جمع ہوجائے تو نماز جنازہ کے وقت میت کو کس طرح رکھا جائے ایک لائن میں یا امام کے آگے قبلہ کے جانب ترتیب وار؟ نیز دعا کی کیا ترتیب ہوگی؟ جواب عنایت فرمائیں نوازش ہوگی۔
(المستفتی : عظیم اللہ ندوی، پونے)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ایک وقت میں متعدد جنازے جمع ہوجائیں تو افضل یہ ہے کہ ہر  ایک  کی  علیحدہ علیحدہ نمازِ جنازہ پڑھی جائے، اور اگر سب  کی  ایک نماز  پڑھنا چاہیں تب بھی جائز ہے۔

ایک ساتھ نماز جنازہ پڑھنا ہوتو جنازہ رکھنے کی تین صورتیں ہیں :

پہلی صورت یہ ہے کہ اُن کی ایک صف بنائی جائے اس طور پر کہ  ایک  کا پاؤں دوسری میت کے سر سے متصل ہو۔

دوسری صورت یہ ہے کہ ایک میت کو دوسری کے پہلو میں اس طرح رکھا جائے کہ دوسری میت کا سر پہلی کے کاندھے کے برابر ہو اور تیسری کا دوسری میت کے کاندھے کے برابر وہکذا.... اس طرح زینہ کی  سی شکل بن جائے گی۔

تیسرے یہ کہ ان کو آگے پیچھے رکھے کہ سب کا سینہ امام کے مقابل رہے۔

آخر کی دو صورتوں میں ترتیب یوں ہونی چاہیے کہ امام کے قریب مرد رہے، اس کے پہلو میں نابالغ لڑکا اس کے پیچھے خنثی اس کے پیچھے بالغ عورت اس کے پیچھے نابالغ لڑکی، اور پہلی صورت میں چونکہ سب  ایک  صف میں ہوں گے اس لئے امام کو افضل کے قریب کھڑا ہونا چاہیے۔

نیز اگر میت بالغ اور نابالغ دونوں کی ہوں تو اس صورت میں بالغوں کی دعا کے بعد نابالغوں کی دعا بھی پڑھی جائے گی۔

ولو اجتمعت الجنائز، یخیر الإمام إن شاء صلی علی کل واحد علی حدۃٍ، وإن شاء صلی علی الکل دفعۃ بالنیۃ علی الجمع، کذا في معراج الدرایۃ، وہو في کیفیۃ وضعہم بالخیار إن شاء وضعہم بالطول سطرًا واحدًا ویقف عند أفضلہم وإن شاء وضعہم واحدًا وراء واحد إلی جہۃ القبلۃ، وترتیبہم بالنسبۃ إلی الإمام کترتیبہم في صلاتہم خلفہ حالۃ الحیاۃ فیقرب منہ الأفضل فالأفضل، فیصف الرجال إلی جہۃ الإمام، ثم الصبیان ثم الخناثي ثم النساء ثم المراہقات۔ (الفتاوی الہندیۃ، کتاب الصلاۃ، الفصل الخامس، في الصلاۃ علی المیت، مکتبۃ زکریا دیوبند جدید ۱/۲۲۶، قدیم ۱/۱۶۵)

إذا اجتمعت الجنائز، فالإمام بالخیار إن شاء صلی علی کل جنازۃ صلاۃ علی حدۃٍ، وإن شاء صلی علیہا صلاۃ واحدۃ وتجزي عن الکل قال في الکتاب، فإن أراد أن یصلی علیہا صلاۃ واحدۃ إن شاؤا وضعوا الجنائز صفًا طولاً، وإن شاؤا وضعوا واحدًا بعد واحد مما یلي القبلۃ، وقد روي عن أبي حنیفۃ رحمۃ اﷲ علیہ أنہ قال: إن وضعوا واحدًا بعد الآخر کان أحسن حتی یصیر الأمام قائمًا بإزاء الکل … ولکن یجعل الرجال مما یلي الإمام والصبیان بعدہ والنساء ما یلي القبلۃ … وإن شاؤا وضعوا الرجل بإزاء الإمام ورأس الصبي بحذاء منکب الرجل، والخنثی بحذاء منکب الصبي علی ہذا الترتیب۔ (الفتاوی التاتارخانیۃ، کتاب الصلاۃ، الفصل صلاۃ الجنازۃ، مکتبۃ زکریا دیوبند ۳/۴۸ - ۴۹، رقم:۳۶۹۲ - ۳۶۹۳)

ولا یستغفر لصبي ویقول في الدعاء: ’’اللّٰہم اجعلہ لنا فرطاً‘‘ بعد تمام قولہ: ’’ومن توفیتہ منا فتوفہ علی الإیمان‘‘۔ (طحطاوي علی المراقي دار الکتاب ۵۸۷)
مستفاد : امداد الفتاوی)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
11 رمضان المبارک 1440

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں