منگل، 28 مئی، 2019

نمازِ وتر تین رکعت ایک سلام سے پڑھنا واجب ہے

*نمازِ وتر تین رکعت ایک سلام سے پڑھنا واجب ہے*

سوال :

کیا فرماتے ہیں مفتیان شرع متین نماز وتر کے بارے میں کہ تین رکتیں ہیں یا ایک رکعت؟ ہمارے یہاں غیر مقلد کہتے ہیں کے ایک رکعت وتر ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہے۔ اور ہم کہتے ہیں تین رکعتیں ہیں۔
تو اس مسئلہ میں آپ ہماری رہنمائی فرمائیں اور ائمہ اربعہ کا جو اختلاف ہے اس کو بھی ذکر کریں آپ کی بہت بہت نوازش ہوگی۔
(المستفتی : محمد عاکف، مالیگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نمازِ وتر میں ایک رکعت پر اکتفا کرنا صرف غیرمقلدین کے یہاں ہے۔ جمہور امت کے نزدیک وتر کی تین رکعتین ہی ہیں، اختلاف صرف اتنا ہے کہ یہ تین رکعت ایک سلام سے پڑھی جائیں یا دو سلام سے؟ احناف کا مسلک یہ ہے کہ ایک سلام سے تین رکعت پڑھنا واجب ہے۔

متعدد صحیح روایات سے اس کا ثبوت موجود ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر تین رکعت ایک سلام سے ادا فرمائی۔ چنانچہ نسائی شریف کی یہ صحیح روایت ہے جس میں حضرت ابی بن کعب ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ وتر کی پہلی رکعت میں سورہ اعلی دوسری رکعت میں سورہ کافرون اور تیسری رکعت میں سورہ اخلاص پڑھا کرتے اور آخر میں ایک ہی مرتبہ سلام پھیرتے نیز سلام پھیرنے کے بعد تین دفعہ یہ کلمات ادا فرماتے سُبْحَانَ الْمَلِکِ الْقُدُّوسِ۔

نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر وتر کی نماز گھر ہی میں ادا کرتے تھے، لہٰذا اس عمل کو زیادہ دیکھنے والی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں وہ روایت کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ایک سلام کے ساتھ تین رکعت وتر کی نماز پڑھتے تھے۔

أخبرنا یحیی بن موسیٰ قال: أخبرنا عبدالعزیز بن خالد، قال: حدثنا سعید بن أبي عروبۃ عن قتادۃ، عن عزرۃ، عن سعید بن عبدالرحمن بن أبزي، عن أبیہ، عن أبي بن کعب -رضي اﷲ عنہ- قال: کان رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم یقرأ في الوتر بسبح اسم ربک الأعلی، وفي الرکعۃ الثانیۃ بقل یا أیہا الکافرون، وفي الثالثۃ بقل ہو اﷲ أحد، ولا یسلم إلا فی آخرہن، ویقول: یعنی بعد التسلیم: سبحان الملک القدوس ثلاثا۔ (سنن نسائي، الصلاۃ، باب کیف الوتر بثلاث؟)

عن عائشة رضي اللہ عنھا أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان لا یسلم في رکعتي الوتر رواہ النسائي وسکت․ وفي آثار السنن إسنادہ صحیح أخرجہ الحاکم في المستدرک بلفظ: قالت کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا یسلم في الرکعتین الأولین من الوتر وقال ھذا حدیث صحیح علی شرط الشیخین۔ وأقرہ علیہ الذھبي فی تلخیصہ وقال علی شرطھما اھ وعنھا قالت: کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوتر بثلث لا یسلم إلا في آخرھن أخرجہ الحاکم واستشھد بہ وقال: وھذا وتر أمیر الموٴمنین عمر بن الخطاب رضي اللہ عنہ نقلہ أہل المدینة ۔۔۔ وسکت عنہ الذھبي في تلخیصہ فھو حسن الخ۔ (إعلاء السنن : ۶ /۲۳-۲۴)

وہو ثلاث رکعاتٍ بتسلیمۃٍ کالمغرب الخ ولٰکنہ یقرأ فی کل رکعۃ منہ فاتحۃ الکتاب وسورۃً احتیاطاً الخ، ویکبر قبل رکوع ثالثتہٖرافعاً یدیہ الخ وقنت فیہ۔ (درمختار مع الشامی : ۲؍۴۴۱-۴۴۲)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
22 رمضان المبارک 1440

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں