بدھ، 29 مئی، 2019

رمضان کے آخری جمعہ کی قضائے عمری؟

*رمضان کے آخری جمعہ کی قضائے عمری؟*

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ وائرل ہے جس میں لکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے رمضان کے آخری جمعہ کو چار رکعت نماز مخصوص طریقہ سے پڑھنے کا حکم دیا ہے اور اس کی فضیلت یہ بیان کی گئی ہے اس نماز کے پڑھ لینے سے سات سو سال تک کی قضا نمازیں معاف ہوجائیں گی۔  آپ سے درخواست ہے کہ اس پوسٹ کی حقیقت کو واضح فرمادیں اور عنداللہ ماجور ہوں ۔
(المستفتی : محمد عمیر، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں مذکور روایت جھوٹی اور من گھڑت ہے، اس جیسی کسی بھی روایت کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم یا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کی طرف ثابت نہیں ہے۔ بلکہ جان بوجھ کر اس نسبت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف کرنا اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنانا ہے۔

ملاعلی قاری رحمہ اللہ اپنی موضوعات کبیر میں لکھتے ہیں :
"جس نے رمضان کے آخری جمعہ میں ایک فرض نماز ادا کرلی اس سے اس کی ستر سال کی فوت شدہ نمازوں کا ازالہ ہوجاتا ہے '' یہ روایت یقینی طور پر باطل ہے کیونکہ یہ اس اجماع کے خلاف ہے جس میں کہا گیا ہے کہ عبادات میں سے کوئی شئے سابقہ سالوں کی فوت شدہ عبادات کے قائم مقام نہیں ہوسکتی۔

شریعتِ مطہرہ کا بالکل واضح حکم ہے کہ جس شخص کی کوئی نماز فوت ہوجائے تو اس پر ضروری ہے کہ جیسے ہی اسے یاد آئے وہ اس کی قضاء کی فکر کرے۔ جس کا ثبوت درج ذیل احادیثِ صحیحہ سے ملتا ہے۔

صحیح بخاری میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے آپ ﷺ کا یہ ارشاد مروی ہے :
جو آدمی نماز پڑھنی بھول جائے جب اسے یاد آجائے تو اسے چاہئے کہ وہ اس نماز کو پڑھ لے اس کے سوا اس کا کوئی کفارہ نہیں۔
من نسي صلاة فلیصل إذا ذکرہا لا کفارة لہا إلا ذلک۔ (کتاب المواقیت، باب/ ۳۷، رقم الحدیث/ ۵۹۷)

صحیح مسلم میں آپ ﷺ کا یہ ارشاد مروی ہے :
جو آدمی (نیند وغیرہ کی بناء پر ) نماز پڑھنی بھول جائے تو یاد آتے ہی فوراً اسے پڑھ لے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آیت ( وَاَ قِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِيْ ) 20۔طہ : 14) یعنی میرے یاد کرنے کے وقت نماز پڑھ لو۔
إذا رقد أحدکم عن الصلاة أو غفل عنہا، فلیصلّہا إذا ذکرہا فإن اللہ عز وجلّ یقول: أقم الصلاة لذکري: (آخر کتاب المساجد رقم الحدیث: ۱۵۶۹)

اور سنن نسائی میں ہے :
رسول کریم ﷺ سے دریافت فرمایا گیا ایسےشخص کے بارے میں جو کہ نماز سے سو جاتا ہے یا اس کی جانب سے وہ شخص غفلت میں پڑ جاتا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا اس کا کفارہ یہی ہے کہ جس وقت بھی اس کو یاد آئے تو وہ نماز پڑھ لے۔
سئل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن الرجل یرقد عن الصلاة أو یغفل عنہا، قال کفارتہا أن یصلیہا إذا ذکرہا (۱/۱۷)

اِن احادیث میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ اصول بیان فرمادیا ہے کہ جب کبھی انسان کوئی نماز وقت پر نہ پڑھ سکے تو اس کے ذمے لازم ہے کہ یاد آنے پر، یا تنبہ ہونے پر اس کی قضاء کرے خواہ یہ نماز کسی طرح بھی چھوٹی ہو۔ اور یہ نمازیں کم ہوں یا زیادہ، بہرحال ان کی قضا لازم ہے۔

درج بالا تفصیلات سے وضاحت کے ساتھ معلوم ہوگیا کہ سوال نامہ میں مذکور نماز اور اس کی فضیلت بالکل غلط اور بدترین بدعت ہے، اس میں مزید تشویش کی بات یہ ہے کہ اس کی وجہ سے فرض نمازوں کے ترک پر جو وعیدیں اور سخت ارشادات صحیح احادیث میں وارد ہوئے ہیں وہ بے حیثیت ہوکر رہ جائیں گے اور لوگ نماز کے چھوڑنے پر جری اور بے خوف ہوجائیں گے۔ لہٰذا ایسی بے بنیاد اور گمراہ کن باتوں سے خود بھی بچیں اور دوسروں کی بھی فکر کریں۔

حدیث '' من قضی صلوٰۃ من الفرائض فی اخر جمعۃ من رمضان کان ذلک جابرا لکلّ صلوٰۃ فاتتهُ فی عمرہ إلی سبعین سنۃ'' باطل قطعا لأنہ مناقض للإجماع علی أن شیئا من العبادات لاتقومُ مقامَ فائتۃ سنوات۔ (الاسرار الموضوعۃ فی الاخبار الموضوعہ حدیث 953 ص 242)

فالأصلُ فیہ أن کل صلوٰۃ فاتت عن الوقت بعد ثبوتِ وجوبہا فیہ فإنہ یلزم قضاؤھا۔ سواء ترکھا عمدا أو سھوا أو بسبب نومٍ ، وسواء کانت الفوائتُ قلیلۃ أو کثیرۃ۔ (بحرالرائق، ٢/١٤١)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
23 رمضان المبارک 1440

3 تبصرے: