منگل، 31 جنوری، 2023

مؤذن کی فضیلت کا حقدار کون؟

سوال :

مفتی صاحب احادیث میں مؤذن کی جو فضیلت آتی ہے وہ ایک وقت اذان دینے والے کے بارے میں ہے یا مستقل اذان دینے والے  کے بارے میں ہے؟ رہنمائی فرمائیں مہربانی ہوگی۔
(المستفتی : حافظ عارف، شری رامپور)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : درج ذیل احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص مستقل مؤذن ہو یا حدیث شریف میں مذکور مدت تک اذان دے وہی اس فضیلت کا مستحق ہوگا۔

حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : قیامت کے روز تین آدمی مشک کے ٹیلوں پر ہوں گے۔ (پہلا) وہ غلام جس نے اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کر کے اپنے آقا کے حقوق بھی ادا کئے اور (دوسرا) وہ آدمی جو لوگوں کو نماز پڑھاتا ہے اور لوگ اس سے خوش ہیں اور (تیسرا) وہ آدمی جو رات دن (یعنی ہمیشہ) پانچوں وقت کے نماز کے لئے اذان کہتا ہے۔ (ترمذی)

عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : جو شخص ثواب کی امید رکھتے ہوئے سات سال تک اذان دے تو اس کے لیے جہنم سے خلاصی لکھ دی جاتی ہے۔ (ترمذی)

البتہ ایک مرتبہ اذان دینے والا درج ذیل احادیث میں وارد فضیلت کو حاصل کرسکتا ہے۔

عبدالرحمٰن بن ابوصعصعہ (جو ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے زیر پرورش تھے) کہتے ہیں کہ مجھ سے ابوسعید رضی اللہ عنہ نے کہا : جب تم صحراء میں ہو تو اذان میں اپنی آواز بلند کرو، اس لیے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے : اذان کو جنات، انسان، درخت اور پتھر جو بھی سنیں گے وہ قیامت کے دن اس کے لیے گواہی دیں گے۔ (بخاری)

حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا : اذان دینے والے کی بخشش اس کی آواز کی انتہاء کے مطابق کی جاتی ہے۔ ہر خشک و تر چیز اور نماز میں آنے والے آدمی اس کے ایمان کے گواہ ہو جاتے ہیں۔ پچیس نمازوں کا ثواب (اس کے زائد اعمال میں) لکھا جاتا ہے اور نمازوں کے درمیان اس سے جو گناہ سرزد ہوتے ہیں معاف ہو جاتے ہیں۔ (مسند احمد بن حنبل، سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ)

عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : جہاں تک مؤذن کی اذان کی آواز پہنچتی ہے، وہاں تک کی وہ تمام چیزیں جو اس کی اذان سنتی ہیں سب اس کے لیے مغفرت کی دعائیں کرتی ہیں۔ (طبرانی)

اسی طرح اگر کسی کے دل میں مؤذن کی فضیلت حاصل کرنے کی سچی تڑپ ہو لیکن کسی وجہ سے وہ یہ کام نہیں کرسکتا ہو تو مؤذنین سے محبت رکھنے اور ان کا اکرام کرنے کی وجہ سے امید ہے کہ اس کا حشر بھی مؤذنین کے ساتھ ہوگا، اس لئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : المرأ مع من احب۔
آدمی کا حشر اسی کے ساتھ ہوگا جس سے وہ محبت کرتا تھا۔

عن ابی موسی قال المرأ مع من احب۔ (صحیح ابن حبان : ۲۷۵/۱)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
08 رجب المرجب 1444

پیر، 30 جنوری، 2023

حضرت علی کا خیبر کے قلعہ کا دروازہ اکھاڑنا

سوال :

مفتی صاحب خیبر کا جو واقعہ ہے کہ حضرت علی رضی الله عنہ نے ایک ہاتھ سےقلعہ کا دروازہ اکھاڑ پھینکا تھا۔ اس کی تحقیق مطلوب ہے تاکہ اس کی حقیقت عوام کے سامنے آجائے۔
(المستفتی : حافظ عرفات، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : متعدد روایات میں مختلف الفاظ کے ساتھ یہ مضمون وارد ہوا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے تنہا غزوہ خیبر کے موقع پر خیبر کے قلعہ کا دروازہ اکھاڑ پھینکا تھا۔ یہاں ہم مسند احمد کی روایت نقل کرتے ہیں۔

حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے (غزوہ خیبر کے موقع پر) جب علی رضی اللہ عنہ کو اپنا جھنڈا دے کر بھیجا تو ہم بھی ان کے ساتھ نکلے تھے جب وہ قلعہ کے قریب پہنچے تو قلعہ کے لوگ باہر آئے اور لڑائی شروع ہوگئی ایک یہودی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ پر حملہ کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ڈھال ان کے ہاتھ سے گر گئی تھی انہوں نے قلعہ کا دروازہ اکھیڑ کر اس سے ڈھال کا کام لیا اور دوران قتال وہ مستقل ان کے ہاتھ میں رہا حتیٰ کہ اللہ نے انہیں فتح عطا فرما دی اور جنگ سے فارغ ہو کر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اسے اپنے ہاتھ سے پھینک دیا میں نے دیکھا کہ سات آدمیوں کی ایک جماعت نے "جن کے ساتھ آٹھواں میں بھی تھا" اس دروازے کو ہلانے میں اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا لیکن ہم اسے ہلا نہیں سکے۔

مذکورہ بالا روایت سند کے اعتبار سے اگرچہ ضعیف ہے، لیکن اس حدیث کا متابع اور شاہد موجود ہونے کی وجہ سے اس حدیث کو تقویت مل جاتی ہے اور سند میں موجود ضعف کم ہوجاتا ہے، اور چونکہ اس روایت کا تعلق مناقب سے ہے اور فضائل و مناقب کے باب میں ضعیف روایت قابلِ قبول ہوتی ہے۔

مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی میاں ندوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
یہ روایت مختلف طریقوں سے مروی ہے اور یہ مشہور واقعہ ہے، اور اس کا واقع ہونا مستبعد نہیں ہے، اگر اس کی صحت ثابت ہو جائے اور اگر اس کی کوئی اصل ہے، تو یہ عقائد اہلِ سنت کے خلاف نہیں ہے، کیونکہ اہلِ سنت کے عقائد و علمِ کلام میں آتا ہے ’’اولیاء اللہ سے کرامات کا صدور حق ہے۔ (المرتضی : ٨١)

خلاصہ یہ کہ سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ کا خیبر کے قلعہ کا بھاری بھرکم دروازہ اکھاڑ پھینکنا آپ رضی اللہ عنہ کی کرامات میں سے ہے، لہٰذا اس کا بیان کرنا درست ہے۔

حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حَسَنٍ عَنْ بَعْضِ أَهْلِهِ عَنْ أَبِي رَافِعٍ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ خَرَجْنَا مَعَ عَلِيٍّ حِينَ بَعَثَهُ رَسُولُ اللَّهِ بِرَايَتِهِ فَلَمَّا دَنَا مِنْ الْحِصْنِ خَرَجَ إِلَيْهِ أَهْلُهُ فَقَاتَلَهُمْ فَضَرَبَهُ رَجُلٌ مِنْ يَهُودَ فَطَرَحَ تُرْسَهُ مِنْ يَدِهِ فَتَنَاوَلَ عَلِيٌّ بَابًا كَانَ عِنْدَ الْحِصْنِ فَتَرَّسَ بِهِ نَفْسَهُ فَلَمْ يَزَلْ فِي يَدِهِ وَهُوَ يُقَاتِلُ حَتَّى فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ ثُمَّ أَلْقَاهُ مِنْ يَدِهِ حِينَ فَرَغَ فَلَقَدْ رَأَيْتُنِي فِي نَفَرٍ مَعِي سَبْعَةٌ أَنَا ثَامِنُهُمْ نَجْهَدُ عَلَى أَنْ نَقْلِبَ ذَلِكَ الْبَابَ فَمَا نَقْلِبُهُ۔ (مسند احمد، رقم : ٢٣٨٥٨)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
06 رجب المرجب 1444

اتوار، 29 جنوری، 2023

نماز میں حضرت علی کا تیر نکالنے والے واقعہ کی تحقیق

سوال :

کل نماز جمعہ سے پہلے محلے کے جماعت کے ساتھی نے یہ واقعہ سنایا تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ایک تیر لگ گیا تھا تو انہوں دو رکعت نماز پڑھی اور ان کے ساتھیوں نے دوران نماز تیر نکال لیا اور ان کو پتہ بھی نہیں چلا کہ تیر نکل گیا۔
مفتی صاحب ایسا کوئی اور واقعہ کسی صحابی کا ملتا ہے کیا؟ کیونکہ اکثر نماز کے خشوع وخضوع کے حوالے سے ایسے واقعات سننے میں آتے رہتے ہیں۔
(المستفتی : وکیل احمد، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے واقعات میں اگرچہ احادیث جیسی سخت تحقیق کی ضرورت نہیں ہوتی، لیکن سوال نامہ میں مذکور واقعہ ہمیں کہیں بھی نہیں ملا۔ لہٰذا اس کے بیان کرنے سے احتیاط کرنا چاہیے، البتہ نماز میں خشوع خضوع سے متعلق اس کے قریب کا ایک واقعہ صحیح روایت میں ملتا ہے جس کا بیان کرنا درست ہے۔

ایک غزوہ سے واپسی پر ایک جگہ نبی کریم ﷺ نے قیام کیا تو فرمایا کون ہماری حفاظت کرے گا؟ اس پر مہاجر وانصار میں سے ایک ایک شخص نے آمادگی ظاہر کی آپ ﷺ نے فرمایا جاؤ گھاٹی کے سرے پر جا کر حفاظت کرو جب یہ دونوں حضرات گھاٹی کے سرے پر پہنچ گئے تو مہاجر صحابی آرام کی غرض سے لیٹ گئے اور انصاری کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے اتنے میں وہ مشرک شخص آپہنچا جب اس نے ان کو دیکھا تو جان گیا کہ یہ قوم کا محافظ ہے اس نے ایک تیر مارا جو ان کے آکر لگا، انہوں نے اس کو نکال ڈالا یہاں تک کہ اس نے تین تیر مارے پھر انہوں نے رکوع وسجود کر کے (نماز پوری کی) اور اپنے ساتھی کو بیدار کیا جب اس کافر شخص نے یہ دیکھ لیا کہ یہ لوگ بیدار ہوگئے ہیں تو وہ بھاگ کھڑا ہوا جب مہاجرین نے انصاری بھائی کا بہتا ہوا خون دیکھا تو کہا ارے تم نے مجھے پہلے ہی تیر پر کیوں نہ جگایا؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں (نماز میں) ایک سورت پڑھ رہا تھا مجھے اس کا درمیان میں چھوڑنا اچھا نہیں لگا۔

حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبَةَ الرَّبِيعُ بْنُ نَافِعٍ حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ حَدَّثَنِي صَدَقَةُ بْنُ يَسَارٍ عَنْ عَقِيلِ بْنِ جَابِرٍ عَنْ جَابِرٍ قَالَ خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْنِي فِي غَزْوَةِ ذَاتِ الرِّقَاعِ فَأَصَابَ رَجُلٌ امْرَأَةَ رَجُلٍ مِنْ الْمُشْرِکِينَ فَحَلَفَ أَنْ لَا أَنْتَهِيَ حَتَّی أُهَرِيقَ دَمًا فِي أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ فَخَرَجَ يَتْبَعُ أَثَرَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَزَلَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْزِلًا فَقَالَ مَنْ رَجُلٌ يَکْلَؤُنَا فَانْتَدَبَ رَجُلٌ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ وَرَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ فَقَالَ کُونَا بِفَمِ الشِّعْبِ قَالَ فَلَمَّا خَرَجَ الرَّجُلَانِ إِلَی فَمِ الشِّعْبِ اضْطَجَعَ الْمُهَاجِرِيُّ وَقَامَ الْأَنْصَارِيُّ يُصَلِّ وَأَتَی الرَّجُلُ فَلَمَّا رَأَی شَخْصَهُ عَرِفَ أَنَّهُ رَبِيئَةٌ لِلْقَوْمِ فَرَمَاهُ بِسَهْمٍ فَوَضَعَهُ فِيهِ فَنَزَعَهُ حَتَّی رَمَاهُ بِثَلَاثَةِ أَسْهُمٍ ثُمَّ رَکَعَ وَسَجَدَ ثُمَّ انْتَبَهَ صَاحِبُهُ فَلَمَّا عَرِفَ أَنَّهُمْ قَدْ نَذِرُوا بِهِ هَرَبَ وَلَمَّا رَأَی الْمُهَاجِرِيُّ مَا بِالْأَنْصَارِيِّ مِنْ الدَّمِ قَالَ سُبْحَانَ اللَّهِ أَلَا أَنْبَهْتَنِي أَوَّلَ مَا رَمَی قَالَ کُنْتَ فِي سُورَةٍ أَقْرَؤُهَا فَلَمْ أُحِبَّ أَنْ أَقْطَعَهَا۔ (سنن ابی داؤد، رقم : ١٩٨)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
05 رجب المرجب 1444

ہفتہ، 28 جنوری، 2023

حرام لقمہ کھانے سے چالیس دن تک عبادت قبول نہیں ہوتی کا مطلب؟

سوال :

کیا حرام کمائی کا ایک لقمہ کھانے سے چالیس دن تک کوئی عبادت قبول نہیں ہوتی؟ کیا یہ  بات صحیح ہے؟ مع دلیل کے جواب مطلوب ہے۔
(المستفتی : حافظ بلال، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : حرام کمائی کا ایک لقمہ کھانے سے عبات قبول نہیں ہوتی اتنی بات صحیح ہے اور حدیث شریف سے ثابت ہے، مگر قبول نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ عبادت مستحقِ انعام نہیں اورحق تعالیٰ اس سے راضی نہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایسے شخص کا فرض ادا ہی نہیں ہوگا اور اسے یہ نمازیں چالیس دن کے بعد لوٹانا پڑے گی۔

معلوم ہونا چاہیے کہ سچی پکی توبہ کرنے سے گناہ کے اثرات بالکل مٹ جاتے ہیں، جیسا کہ احادیث شریفہ سے ثابت ہے، لہٰذا اگر کوئی شخص اپنے اس عمل سے شرمندہ ہو اور سچی توبہ کرلے اور جس کا مال لیا ہے اسے واپس کردے یا یہ ممکن نہ ہوتو حرام کمائی بلانیت ثواب صدقہ کردے تو اس کے لئے مذکورہ وعید ختم ہوجائے گی، اور آئندہ اس کی نماز ودعا انشاء اﷲ قابلِ قبول اور مستحق انعام ہوگی۔

عن انس بن مالک ؓ قال قلت یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اجعلنی مستجاب الدعوۃ قال یاانس ؓاطب کسبک یستجباب دعوتک فان الرجل لیرفع اللقمۃ الی فیہ من حرام فلا یستجاب لہ دعوۃ اربعین یوماً۔ (الترغیب والترھیب، رقم : ١١١٠)

قال اللہُ تعالیٰ : اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا اِنَّہٗ ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ۔ (سورۃ الزمر، آیت : ۵۳)

عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : التَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ، كَمَنْ لَا ذَنْبَ لَهُ۔ (ابن ماجہ، رقم : ٤٢٥٠)فقط
واللہ تعالیٰ اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
05 رجب المرجب 1444

جمعہ، 27 جنوری، 2023

جہنمی مردوں کی بیویوں کا جنت میں کیا ملے گا؟

سوال :

محترم مفتی صاحب! جیسا کہ یہ بات مشہور ہے کہ جنت میں عورتوں کو ان کے شوہر ملیں گے، اور وہ ان کی حوروں کی سردار ہوگی، تو جس عورت کا شوہر جہنم میں جائے گا، اسے کیا ملے گا؟
(المستفتی : محمد سعد، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سب سے پہلی بات تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو پیدا فرمایا ہے، لہٰذا وہ ان کی ضروریات اور خواہشات کو مکمل طور پر سمجھتا بھی ہے، چنانچہ وہ ان کے ساتھ ہر معاملے میں انصاف کا معاملہ فرمائیں گے۔ لہٰذا ہمیں اس سلسلے میں فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔

جہنمی شوہر کی بیوی کو کیا ملے گا؟ اس سلسلے میں تین باتیں ملتی ہیں، پہلا قول یہ ہے کہ شوہر کو جنتی بیوی کی برکت سے جنت مل جائے گی اور وہ اس کے ساتھ رہنے لگے گا، دوسرا احتمال یہ ہے کہ اسے اختیار دیا جائے گا کہ وہ جس جنتی مرد سے چاہے گی اس کا نکاح اس سے کرا دیا جائے گا، یا پھر یہ بھی احتمال ہے کہ اس کے لیے اللہ تعالیٰ مذکر حور پیدا فرمائیں اور ان کے ساتھ ان کا نکاح کردیں گے۔

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
عجب نہیں کہ جنتی بیوی کی برکت سے جلد چھٹکارہ جہنم سے مل جائے اور وہ وہاں سے نکل کرجنت میں بیوی سے آملے ورنہ جو کچھ بیوی چاہے گی اللہ پاک اس کی خواہش کے مطابق معاملہ فرمائے گا قرآن شریف میں ہے وَلَکُمْ فِیہَا مَا تَشْتَہِیْ اَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیْہَا مَا تَدَّعُوْنَ نُزُلاً مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِیْم (پ۲۴، سورہٴ حم)۔ (رقم الفتوی : 163100)

خلاصہ یہ کہ اس سلسلے میں تینوں باتوں کا احتمال ہے، البتہ پہلی بات کا زیادہ احتمال معلوم ہوتا ہے۔

قال ھشام بن خالد : من میراثہ من اھل النار یعنی رجالا دخلوا النار فورث اھل الجنۃ نسائھم کما ورثت امرأۃ فرعون۔ (التذکرۃ : ٥٦٢)

ولو ماتت قبل ان تتزوج تخیر ایضا ان رضیت بآدمی زوجت منہ وان لم ترضی فاللہ یخلق ذکرا من الحور فیزوجھا منہ۔ (مجموعۃ الفتاوی بحوالہ غرائب/فتاوی محمودیہ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
04 رجب المرجب 1444

جمعرات، 26 جنوری، 2023

شہنشاہ نام رکھنے کا حکم

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ شہنشاہ نام رکھنا کیسا ہے؟ جواب عنایت فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : مولوی عقیل، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : حدیث شریف میں "مَلِكُ الْأَمْلَاكِ" نام رکھنے ممانعت وارد ہوئی ہے جس کا اردو ترجمہ بادشاہوں کا بادشاہ یعنی "شہنشاہ" کے ہوتا ہے۔

بخاری شریف میں ہے :
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک بدترین شخص وہ ہوگا جس کو شہنشاہ کا نام دیا جائے۔

مسلم شریف میں ہے :
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک مبغوض ترین اور سب سے بدتر وہ شخص ہوگا جس کو شہنشاہ کا نام دیا جائے یاد رکھو اللہ کے سوا کوئی بادشاہ نہیں۔

اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی حقیقی بادشاہ نہیں ہے چہ جائیکہ کسی کو شہنشاہ یعنی بادشاہوں کا بادشاہ کہا جائے اور صفتِ شہنشاہیت ایک ایسا وصف ہے جو صرف اللہ تعالیٰ ہی کے ساتھ خاص ہے کہ اس وصف میں کسی مخلوق کے شریک ہونے کا وہم و گمان بھی نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا "شہنشاہ" نام نہیں رکھنا چاہیے۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَخْنَى الْأَسْمَاءِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عِنْدَ اللَّهِ رَجُلٌ تَسَمَّى مَلِكَ الْأَمْلَاكِ۔ (صحیح البخاری، رقم : ٦٢٠٥)

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : إِنَّ أَخْنَعَ اسْمٍ عِنْدَ اللَّهِ رَجُلٌ تَسَمَّى مَلِكَ الْأَمْلَاكِ ". زَادَ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ فِي رِوَايَتِهِ : لَا مَالِكَ إِلَّا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ ". قَالَ الْأَشْعَثِيُّ : قَالَ سُفْيَانُ : مِثْلُ شَاهَانْ شَاهْ۔ (صحیح المسلم، رقم : ٢١٤٣)

(تسمى) أي سمى نفسه أو سماه غيره فأقروه ورضي به (ملك) بكسر اللام (الأملاك) أو ما في معناه نحو شاه شاهان أو شاهان شاه۔ (فیض القدیر : ١/٢١٩)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
03 رجب المرجب 1444

بدھ، 25 جنوری، 2023

حدیث "شوہر بیوی سے زنا کرے گا" کی تحقیق

سوال :

محترم و مکرم مفتی صاحب! امید ہے آپ خیریت سے ہو‌ں گے۔ ایک بات کی تحقیق کرنا ہے کہ کیا اس طرح کی کوئی حدیث ہے کہ مرد اپنی بیویوں سے زنا کریں گے، اگر ہے تو اس کا مفہوم کیا ہے؟ جواب دے کر عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : مولوی جاوید، کوپرگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں مذکور یہ الفاظ کہ "مرد اپنی بیویوں سے زنا کریں گے"۔ اس مفہوم کی روایات ذخیرہ احادیث میں ملتی ہیں۔ لیکن ان تمام روایات میں ایک راوی سیف بن مسکین ہے جس کے متعلق محدثین نے سخت کلام کیا ہے یہاں تک کہ ابن حبان رحمہ اللہ نے اسے من گھڑت روایات نقل کرنے والا لکھا ہے۔ لہٰذا اس کی روایات قابل استدلال نہیں۔ چنانچہ اس روایت کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف کرنا اور اس کا بیان کرنا درست نہیں ہے۔

عن أبي ذر الغفاري : إذا اقتَرَب الزَّمانُ كثُر لُبْسُ الطَّيالسةِ وكثُرتِ التِّجارةُ وكثُر المالُ وعظُم ربُّ المالِ لمالِه وكثُرتِ الفاحشةُ وكانت إمرةُ الصِّبيانِ وكثُر الفسادُ وجار السُّلطانُ وطُفِّف في المكيالِ والميزانِ ويُربِّي الرَّجُلُ جِرْوَ كَلْبٍ خيرٌ له مِن أنْ يُربِّي ولَدًا ولا يُوقَّرُ كبيرٌ ولا يُرحَمُ صغيرٌ ويكثُرُ أولادُ الزِّنا حتّى إنّ الرَّجُلَ لَيْغَشَ المرأةَ على قارعةِ الطَّريقِ فيقولُ أمثَلُهم في ذاكم الزَّمانِ لوِ اعتزَلْتُم عنِ الطَّريقِ يلبَسونَ جُلودَ الضَّأنِ على قلوبِ الذِّئابِ أمثَلُهم في ذلكَ الزَّمانِ المُداهِنُ.
الطبراني (ت ٣٦٠)، المعجم الأوسط ٥‏/١٢٦  •  لم يرو هذا الحديث عن مبارك بن فضالة إلا سيف بن مسكين

سيف بن مسكين.
عن سعيد بن أبي عروبة، شيخ بصري، يأتي بالمقلوبات والأشياء الموضوعة.
قاله  ابن حبان.
وروى عن سعيد، عن قتادة، عن ابن المسيب، عن أبي هريرة، عن أبي بكر - مرفوعًا: إن الله إذا أطعم نبيا طعمة ثم قبضه كانت للذى يلى الامر من بعده، حدثناه محمد بن الحكم بنسا، حدثنا محمد بن غالب، حدثنا سيف بهذا.
(١ [قال ابن النجار في ترجمة محمد بن علي المحاملى: (٢ [حدثني محمد بن سعيد الحافظ، أخبرنا أحمد بن سالم المقرئ، أخبرنا أبو الفضل محمد بن أحمد بن العجمي] (٢)، أخبرنا أبو البركات محمد بن علي بن منصور المحاملى سنة سبع وستين (٣) وأربعمائة، حدثني عبد الملك بن بشران، حدثنا ابن قانع، حدثنا عبد الوارث بن إبراهيم العسكري، حدثنا سيف بن مسكين، حدثنا المبارك بن فضالة، عن الحسن البصري، قال: قال: خذ عنى كذا، خرجت في طلب العلم فقدمت الكوفة، فإذا أنا بابن مسعود، فقلت له: هل للساعة من علم يعرف؟ قال: سألت رسول الله ﷺ عن ذلك، فقال: من أعلام الساعة أن يكون الولد غيظا، والمطر قيظا، ويفيض الاشرار فيضا، ويصدق الكاذب، ويكذب الصادق، ويؤتمن الخائن، ويخون الامين، ويسود كل أمة منافقوها (٤)، وكل سوق فجارها، وتزخرف المحاريب، وتخرب القلوب، ويكتفى النساء بالنساء، والرجال بالرجال، وتخرب عمارة الدنيا، ويعمر خرابها، وتظهر الغيبة (٥)، وأكل الربا، وتظهر المعازف والكبول، ويشرب الخمر، وتكثر الشرط والغمازون والهمازون] ١)۔ (میزان الاعتدال : ٢/٢٥٨)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
02 جمادی الاول 1444

کیا عرب میں سرسبزی قیامت کی نشانی ہے؟

سوال :

مفتی صاحب! آج کل ہر طرف اس بات کا چرچا ہورہا ہے کہ بارش کی وجہ سے مکہ کے پہاڑوں پر سبزہ آگیا ہے اور عرب کی سرزمین سبز وشاداب ہوگئی ہے اور حدیث میں اسے قیامت کی نشانی قرار دیا گیا ہے۔ سوال یہ ہیکہ کیا ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے؟ اور اس حدیث کا صحیح مطلب کیا ہے؟ اور کیا یہ قیامت  نشانی ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : لئیق احمد، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں جس حدیث شریف کی اشارہ کیا گیا ہے وہ مسلم شریف کی صحیح روایت ہے جو مکمل درج ذیل ہے :

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : جب تک مال کی کثرت نہ ہوجائے گی اور بہہ نہ پڑے گا قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ آدمی اپنے مال کی زکوہ لے کر نکلے گا اور وہ کسی کو نہ پائے گا جو اس سے صدقہ قبول کر لے یہاں تک کہ عرب کی زمین چراگاہوں اور نہروں کی طرف لوٹ آئے گی۔

اس حدیث شریف کی تشریح میں یہ کہا گیا ہے کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ عرب میں جنگوں کی کثرت یا اس جگہ کو چھوڑ کر چلے جانے کی وجہ سے لوگ کم ہوجائیں اور یہ جگہ ویران ہوجائے جہاں انسانوں کے بجائے جانور رہیں گے اور چریں گے، اس طرح یہ علاقہ چراگاہ بن جائے گا۔

ملحوظ رہنا چاہیے کہ عرب میں بارش کی وجہ سے ہریالی ہوجانا کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی ایسا ہوا ہے، بلکہ یہاں چند نہریں بھی ہیں۔ جس کی تحقیق بآسانی انٹرنیٹ کے ذریعہ کی جاسکتی ہے۔ لہٰذا اس مرتبہ عرب میں بارش کی وجہ سے جو سرسبزی وشادابی بعض جگہوں پر ہوئی ہے اسے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ قیامت کی ایک نشانی پوری ہوگئی ہے، البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ اس کا آغاز ہوچکا ہے اور یہ پوری کب ہوگی؟ اس کی وضاحت اوپر کردی گئی ہے۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّی يَکْثُرَ الْمَالُ وَيَفِيضَ حَتَّی يَخْرُجَ الرَّجُلُ بِزَکَاةِ مَالِهِ فَلَا يَجِدُ أَحَدًا يَقْبَلُهَا مِنْهُ وَحَتَّی تَعُودَ أَرْضُ الْعَرَبِ مُرُوجًا وَأَنْهَارًا۔ (صحیح المسلم، رقم : ١٥٧)

(حَتّى تَعُودَ أرْضُ العَرَبِ مُرُوجًا وأنْهارًا) مَعْناهُ واللَّهُ أعْلَمُ أنَّهُمْ يَتْرُكُونَها ويُعْرِضُونَ عَنْها فَتَبْقى مُهْمَلَةً لا تُزْرَعُ ولا تُسْقى مِن مِياهِها وذَلِكَ لِقِلَّةِ الرِّجالِ وكَثْرَةِ الحُرُوبِ وتراكم الفتن وقُرْبِ السّاعَةِ وقِلَّةِ الآمالِ وعَدَمِ الفَراغِ لِذَلِكَ۔ (شرح النووی علی المسلم : ٧/٩٧)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
02 رجب المرجب 1444