منگل، 31 جنوری، 2023

مؤذن کی فضیلت کا حقدار کون؟

سوال :

مفتی صاحب احادیث میں مؤذن کی جو فضیلت آتی ہے وہ ایک وقت اذان دینے والے کے بارے میں ہے یا مستقل اذان دینے والے  کے بارے میں ہے؟ رہنمائی فرمائیں مہربانی ہوگی۔
(المستفتی : حافظ عارف، شری رامپور)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : درج ذیل احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص مستقل مؤذن ہو یا حدیث شریف میں مذکور مدت تک اذان دے وہی اس فضیلت کا مستحق ہوگا۔

حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : قیامت کے روز تین آدمی مشک کے ٹیلوں پر ہوں گے۔ (پہلا) وہ غلام جس نے اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کر کے اپنے آقا کے حقوق بھی ادا کئے اور (دوسرا) وہ آدمی جو لوگوں کو نماز پڑھاتا ہے اور لوگ اس سے خوش ہیں اور (تیسرا) وہ آدمی جو رات دن (یعنی ہمیشہ) پانچوں وقت کے نماز کے لئے اذان کہتا ہے۔ (ترمذی)

عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : جو شخص ثواب کی امید رکھتے ہوئے سات سال تک اذان دے تو اس کے لیے جہنم سے خلاصی لکھ دی جاتی ہے۔ (ترمذی)

البتہ ایک مرتبہ اذان دینے والا درج ذیل احادیث میں وارد فضیلت کو حاصل کرسکتا ہے۔

عبدالرحمٰن بن ابوصعصعہ (جو ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے زیر پرورش تھے) کہتے ہیں کہ مجھ سے ابوسعید رضی اللہ عنہ نے کہا : جب تم صحراء میں ہو تو اذان میں اپنی آواز بلند کرو، اس لیے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے : اذان کو جنات، انسان، درخت اور پتھر جو بھی سنیں گے وہ قیامت کے دن اس کے لیے گواہی دیں گے۔ (بخاری)

حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا : اذان دینے والے کی بخشش اس کی آواز کی انتہاء کے مطابق کی جاتی ہے۔ ہر خشک و تر چیز اور نماز میں آنے والے آدمی اس کے ایمان کے گواہ ہو جاتے ہیں۔ پچیس نمازوں کا ثواب (اس کے زائد اعمال میں) لکھا جاتا ہے اور نمازوں کے درمیان اس سے جو گناہ سرزد ہوتے ہیں معاف ہو جاتے ہیں۔ (مسند احمد بن حنبل، سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ)

عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : جہاں تک مؤذن کی اذان کی آواز پہنچتی ہے، وہاں تک کی وہ تمام چیزیں جو اس کی اذان سنتی ہیں سب اس کے لیے مغفرت کی دعائیں کرتی ہیں۔ (طبرانی)

اسی طرح اگر کسی کے دل میں مؤذن کی فضیلت حاصل کرنے کی سچی تڑپ ہو لیکن کسی وجہ سے وہ یہ کام نہیں کرسکتا ہو تو مؤذنین سے محبت رکھنے اور ان کا اکرام کرنے کی وجہ سے امید ہے کہ اس کا حشر بھی مؤذنین کے ساتھ ہوگا، اس لئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : المرأ مع من احب۔
آدمی کا حشر اسی کے ساتھ ہوگا جس سے وہ محبت کرتا تھا۔

عن ابی موسی قال المرأ مع من احب۔ (صحیح ابن حبان : ۲۷۵/۱)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
08 رجب المرجب 1444

1 تبصرہ: