منگل، 17 جنوری، 2023

تعلیم اور ملازمت کے لیے بیٹے پر خرچ کی گئی رقم سے متعلق اہم مسائل اور ان کا حل

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ تعلیم کے دوران ڈگری ملنے تک ایک باپ اپنے بیٹے کامکمل تعلیمی خرچ برداشت کرتا ہے جو بعض مرتبہ لاکھوں تک بھی پہنچ جاتا ہے جس کے لئے بعض مرتبہ باپ کو اپنی کوئی قیمتی چیز زمین پلاٹ وغیرہ بھی بیچنا پڑ جاتا ہے اسی طرح بچے کی والدہ کے زیورات بھی بیچ دیتا ہے۔ جبکہ آپس میں باپ بیٹے کا کوئی معاملہ طے نہیں ہوتا کہ یہ رقم کس مد میں خرچ کی جا رہی ہے؟
اب سوال یہ ہے کہ ڈگری ملنے کے بعد بچے کی سیلری (تنخواہ) مکمل طور سے اس بچے کی ملکیت ہوگی یا مکمل اس کے والدین کی ملکیت ہوگی یا والد کی ہوگی؟
یا کہ صرف جتنی رقم والدین نے تعلیم پر خرچ کئے ہیں اتنی ہی والدین کو لوٹا کر بیٹا بری الذمہ ہوجائے گا اور بقیہ ملنے والی رقم کا خود مالک ہوگا۔
(المستفتی : مجتبی ثاقب، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : جو لوگ کہیں ملازمت کررہے ہوں تو وہاں ملنے والی تنخواہ انہیں کی ہے۔ اس میں ان کے والدین، والد یا دیگر بہن بھائیوں کا کوئی حق نہیں ہے۔ خواہ انہوں نے ان کی پڑھائی اور ملازمت پر لگانے کے لئے رقم خرچ کی ہو۔

بیٹے کو تعلیم اور ملازمت پر لگانے کے لیے دی گئی رقم کی مختلف صورتیں بنتی ہیں۔

ایک صورت تو یہ ہے کہ بیٹے کو باقاعدہ بول کر یہ رقم دی جائے کہ یہ رقم ہبہ، ہدیہ اور تحفہ ہے، لہٰذا ایسی صورت میں اس رقم کا لوٹانا ضروری نہیں۔

دوسری صورت یہ ہے کہ بغیر کچھ کہے بیٹے کو یہ رقم دی جائے، اس صورت میں بھی اگرچہ اس رقم کا لوٹانا ضروری نہیں، لیکن اگر یہ رقم غیرمعمولی ہو اور اس کی وجہ سے دیگر بہن بھائیوں کا حصہ متاثر ہورہا ہوتو اخلاقاً یہ رقم لوٹا دینا چاہیے۔

تیسری صورت یہ ہے کہ بیٹے کو قرض بول کر یہ رقم دی جائے، اس صورت میں بیٹے پر یہ رقم لوٹانا ضروری ہے۔

البتہ تینوں صورتوں میں اپنی ملازمت پر ملنے والی تنخواہ کی رقم کا مالک یہ بیٹا ہی ہوگا، اس لیے کہ اس کے کام پر اسے یہ اجرت مل رہی ہے۔

اس طرح کے مسائل کا حل یہ ہے کہ جب ایک بیٹے کی پڑھائی اور ملازمت پر لاکھوں خرچ کیا جاتا ہے تو دیگر بھائیوں کو بھی اتنا مال دے کر انہیں اس کا مالک بنا دیا جائے، پھر وہ اس مال سے جو کاروبار کریں گے یہ ان کا اپنا مال ہوگا۔ دیگر بھائیوں کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ اس صورت میں نا انصافی پہلو بھی باقی نہیں رہے گا اور بعد میں جو تنازعہ اور اختلاف پیدا ہوتا ہے اس سے بھی حفاظت ہوگی۔

اخیر میں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ شریعت کے احکامات کا علم ہو یا علماء کرام سے رہنمائی لے کر عمل کرنے کا جذبہ ہوتو اس طرح کے مسائل اور تنازعات پیدا نہیں ہوتے۔ سارا قصور بے دینی اور من مانی کرنے کا ہے، مسائل کا علم نہ ہونے اور من مانی کرنے کی وجہ سے ہی فساد برپا ہوتا ہے۔ ورنہ شریعتِ مطہرہ میں کہیں نقص اور کمی نہیں ہے۔

لِأَنَّ تَرَكَهُ الْمَيِّتُ مِنْ الْأَمْوَالِ صَافِيًا عَنْ تَعَلُّقِ حَقِّ الْغَيْرِ بِعَيْنٍ مِنْ الْأَمْوَالِ كَمَا فِي شُرُوحِ السِّرَاجِيَّةِ۔ (شامي / کتاب الفرائض، ۶/۷۵۹)

الرجل یأکل من مال ولدہ أي إذا احتاج إلیہ وفي ہامشہ یجوز عند أحمد مطلقًا․․․ وخالفہ الأئمة الثلثة وقالوا لا یجوز إلا أن یحتاج فیأخذ بقدر حاجتہ۔ (بذ ل المجہود : ۴/۲۹۵)

المالک ہو المتصرف في الأعیان المملوکۃ کیف شاء۔ (التفسیر البیضاوي/الفاتحۃ : ۷)

عن أبي صفرۃ قال : سمعت النعمان بن بشیر رضي اللّٰہ عنہ یخطب قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: اعدلوا بین أولادکم، اعدلوا بین أولادکم۔ (شعب الإیمان للبیہقي، رقم : ۸۶۹۱)

قال النووي : فیہ استحباب التسویۃ بین الأولاد في الہبۃ۔ (بذل المجہود / کتاب الإجارۃ ۱۱؍۲۷۳ تحت رقم الحدیث: ۳۵۴۴ مرکز الشیخ أبي الحسن الندوي أعظم جراہ)

وذہب الجمہور إلی أن التسویۃ مستحبۃ، فإن فضل بعضًا صح وکرہ، وحملوا الأمر في حدیث النعمان علی الندب، والنہي علی التنزیہ۔ (إعلاء السنن، کتاب الہبۃ / باب استحباب التسویۃ بین الأولاد ۱۶؍۹۶-۹۷ إدارۃ القرآن کراچی)

وروی المعلی عن أبي یوسف أنہ لا بأس بہ إذا لم یقصد بہ الإضرار، وإن قصد بہ الإضرار سوی بینہم یعطي الإبنۃ مثل ما یعطي للإبن وعلیہ الفتویٰ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الہبۃ / الباب السادس في الہبۃ للصغیر ۴؍۳۹۱ زکریا)

استقرض من الفلوس الرائجۃ فعلیہ مثلہا کاسدۃ ولا یغرم قیمتہا۔ قال الشامي : أي إذا ہلک وإلا فیرد عینہا اتفاقاً۔ (درمختار مع الشامي، کتاب البیوع، باب المرابحۃ والتولیۃ، فصل في القرض، ۷/۳۹۰)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
24 جمادی الآخر 1444

1 تبصرہ: