پیر، 2 جنوری، 2023

نعتیہ شعر "جنت میں سب ہے مدینہ نہیں" کی تحقیق

سوال :

مفتی صاحب پوچھنا یہ ہے کہ ایک نعت ہے جس میں دو کڑی ایسی ہے : یوں تو جنت میں سب ہے مدینہ نہیں، اور جنت مدینہ میں موجود ہے۔ کیا یہ نعت کی دونوں کڑی پڑھنا مناسب ہے؟ جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : انصاری زاہد، دھولیہ)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں مذکور شعر کا دوسرا حصہ کہ "جنت مدینہ میں موجود ہے" اس حیثیت سے درست ہے کہ مدینہ منورہ میں ایک ایسا حصہ ہے جس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ : میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان جنت کی کیاریوں میں سے ایک کیاری ہے۔

مسجد نبوی میں منبر اور حجرۂ مبارکہ کے درمیانی حصہ کو جنت کی کیاری کہنے کی وجہ کیا ہے؟ اس بارے میں شارحین حدیث کے اقوال مختلف ہیں جس میں ایک قول یہ ہے کہ زمین کا یہ ٹکڑا بعینہٖ جنت میں چلا جائے گا۔ جس سے معلوم ہوا کہ مدینہ منورہ میں جنت کا ایک ٹکڑا موجود ہے۔

البتہ پہلا شعر کہ "جنت میں سب ہے مدینہ نہیں" اس وجہ سے درست نہیں ہے کہ جب ریاض الجنہ کا یہ حصہ جنت میں منتقل ہوجائے گا تو گویا جس طرح جنت کا ایک حصّہ مدینے میں موجود ہے قیامت کے دن مدینہ کا ایک حصہ جنت میں موجود ہوگا۔ نیز ایک نکتہ یہ بھی قابل غور ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم بذات خود جنت میں موجود ہوں گے تو پھر کس لیے جنت اور مدینہ کا موازنہ کیا جارہا ہے؟ چنانچہ یہی کہا جائے گا کہ شعر کا پہلا حصہ تحقیق و حقیقت کے خلاف اور بلاوجہ کی لفاظی ہے، لہٰذا اس کا پڑھنا درست نہیں۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : مَا بَيْنَ بَيْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ، وَمِنْبَرِي عَلَى حَوْضِي۔ (صحيح البخاري، رقم : ١٨٨٨)

قوله: (روضة من رياض الجنة) أي : كروضة من رياض الجنة في نزول الرحمة وحصول السعادة بما يحصل من ملازمة حلق الذكر لا سيما في عهده صلى الله عليه وسلم فيكون تشبيها بغير أداة، أو المعنى أن العبادة فيها تؤدي إلى الجنة فيكون مجازا، أو هو على ظاهره، وأن المراد أنه روضة حقيقة بأن ينتقل ذلك الموضع بعينه في الآخرة إلى الجنة. هذا محصل ما أوله العلماء في هذا الحديث، وهي على ترتيبها هذا في القوة۔ (فتح الباري شرح صحيح البخاري، رقم : ١٨٨٨)

والمراد بتسمية ذلك الموضع روضة أن تلك البقعة تنقل إلى الجنة فتكون روضة من رياضها، أو أنه على المجاز لكون العبادة فيه تئول إلى دخول العابد روضة الجنة، (فتح الباري شرح صحيح البخاري، رقم : ٦٥٨٨)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
09 جمادی الآخر 1444

1 تبصرہ: