جمعرات، 19 جنوری، 2023

اللہ کے نام پر مانگنے والے کو نہ دینا

سوال :

مفتی صاحب! درج ذیل حدیث کی تحقیق مطلوب ہے۔ اور اس کے متعلق یہ سوال بھی ہے کہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ غیر مستحق بھی اللہ کے نام پر سوال کرتے ہیں تو ایسے میں کیا کرنا چاہیے؟ کیا غیر مستحق کو نہ دیے جانے پر بھی بدترین شخص میں شمار ہوگا؟
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں نبی ﷺ نے فرمایا :  کیا میں تمہیں مقام و مرتبہ کے لحاظ سے بدترین شخص کے بارے میں نہ بتاؤں؟ عرض کیا گیا، جی ہاں، آپ ﷺ نے فرمایا : جس سے اللہ کے نام پر سوال کیا جائے اور وہ نہ دے۔
(المستفتی : حافظ سفیان، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں مذکور روایت مسند احمد ابن حنبل، سننن ترمذی اور سنن دارمی میں موجود ہے اور معتبر ہے۔ لیکن یہ حکم مطلق نہیں ہے۔ بلکہ یہ حکم اس وقت ہے جب کوئی حقیقی ضرورت مند کسی شخص سے اللہ کے نام پر سوال کرے کہ مجھے کچھ عطا کرو اور جس سے مانگا جائے اسے اس کا علم بھی ہو کہ یہ ضرورت مند ہے، نیز اس کے پاس اسے دینے کی استطاعت بھی ہو اس کے باوجود وہ سائل کو کچھ نہ دے تو وہ اللہ کے نزدیک برا ہے۔ لیکن اگر سائل مستحق نہ ہو یا سائل نے جس شخص سے سوال کیا اس کے پاس اس کی اپنی حاجت و ضرورت اور اس کے اہل و عیال کی ضرورت و حاجت سے زائد مال نہ ہو تو پھر اس سائل کا سوال پورا نہ کرنے کی صورت میں وہ اس وعید کا حقدار نہیں ہوگا۔

(وعَنِ ابْنِ عَبّاسٍ، قالَ : قالَ رَسُولُ اللَّهِ - ﷺ -: ««ألا أُخْبِرُكُمْ بِشَرِّ النّاسِ مَنزِلًا»») أيْ: مَرْتَبَةً عِنْدَ اللَّهِ (قِيلَ: نَعَمْ) أيْ: قالُوا: بَلى «قالَ: «الَّذِي يُسْألُ بِاللَّهِ»» عَلى بِناءِ المَجْهُولِ «ولا يُعْطِي» بِصِيغَةِ المَعْلُومِ «بِهِ» أيْ: بِاللَّهِ أوْ بِهَذا السُّؤالِ، قالَ الطِّيبِيُّ: الباءُ كالباءِ فِي كَتَبْتُ بِالقَلَمِ أيْ: يُسْألُ بِواسِطَةِ ذِكْرِ اللَّهِ أوْ لِلْقَسَمِ والِاسْتِعْطافِ أيْ: بِقَوْلِ السّائِلِ أعْطَوْنِي شَيْئًا بِحَقِّ اللَّهِ، وهَذا مُشْكِلٌ إلّا أنْ يَكُونَ السّائِلُ مُتَّهَمًا بِحَقِّ اللَّهِ ويُظَنُّ أنَّهُ غَيْرُ مُسْتَحِقٍّ، وقالَ ابْنُ حَجَرٍ: أيْ مُقْسِمًا عَلَيْهِ بِاللَّهِ اسْتِعْطافًا إلَيْهِ وحَمْلًا لَهُ عَلى الإعْطاءِ، بِأنْ يُقالَ لَهُ بِحَقِّ اللَّهِ أعْطِنِي كَذا لِلَّهِ ولا يُعْطِي مَعَ ذَلِكَ شَيْئًا، أيْ: والصُّورَةُ أنَّهُ مَعَ قُدْرَةِ عِلْمِ اضْطِرارِ السّائِلِ إلى ما سَألَهُ، وعَلى هَذا حُمِلَ قَوْلُ الحَلِيمِيِّ أخْذًا مِن هَذا الحَدِيثِ وغَيْرِهِ: إنَّ رَدَّ السّائِلِ بِوَجْهِ اللَّهِ كَبِيرَةٌ اهـ. وفِي نُسْخَةٍ يَسْألُ بِصِيغَةِ المَعْلُومِ فَيُقَدَّرُ الَّذِي فِي قَوْلِهِ ولا يُعْطِي بِهِ۔ (مرقاۃ المفاتیح : ٤/١٣٣٠)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
26 جمادی الآخر 1444

4 تبصرے:

  1. جزاکم اللہ خیرا و احسن الجزاء

    جواب دیںحذف کریں
  2. انصاری محمود19 جنوری، 2023 کو 11:44 AM

    جزاکم اللہ خیرا کثیراً کثیرا

    جواب دیںحذف کریں
  3. السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ کیا فرماتے ہیں علمائے دین درج ذیل مسلہ کے بارے میں زید اپنا کاروبار دوبارہ شروع کرنا چاہتے ہیں جس میں زید کو لون اسکیم کی ضرورت ہے اصل میں معاملہ یہ ہے کہ زید اپنا کاروبار اپنے گھر میں ہی کرتا تھا لیکن دوسرے بھائیوں کی شادی ہوگئی ہےاب گھر میں کام کرنے کی جگہ نہیں ہے جیسے تیسے کام تو ہوتا ہے لیکن وقت بہت زیادہ لگتا ہے جسکی وجہ سے زید کے کاروبار میں بہت زیادہ اثر پڑتا ہے اور کاروبار میں کافی کافی عرصہ تک کام نہیں رہتا ہے جسکی وجہ سے زید کے گھر میں بہت انتشار پیدا ہوگیا ہے کہ کام نہیں کرتا وغیرہ وغیرہ اب انتشار پیدا نہ ہو اس لئے گھر کے اخراجات پورے کرنے میں کچھ قرض بھی کیے ہیں جو وقت پر نہیں لوٹانے پر آج زید کے معاملات بہت خراب ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے زید کو کہیں سے قرض بھی نہیں مل رہا ہے اب قرض تو الحمدللہ آدھے سے زیادہ ادا ہوگیا ہے جو اخراجات اور ہاسپٹل کے معاملے میں ہوے تھے اب قرض اور کوئی پارٹنرشپ نہیں ملنے سے زید لاکھ دیڑھ لاکھ روپے لون لے کر اپنا کاروبارکہیں دوکان لے کر شروع کرنا چاہتا ہے تو کیا زید لون لے سکتا ہے حضرت جواب عنایت فرمائیں بشکریہ المستفتی حافظ عارف ضلع ناسک مہاراشٹر انڈیا

    جواب دیںحذف کریں