جمعرات، 19 جنوری، 2023

اساتذہ کے ایک منٹ تاخیر پر دس روپے کاٹنا

سوال :

مفتی صاحب زید ایک مکتب میں معلم ہے۔ مکتب کے ذمہ داروں کی طرف سے یہ بات ہے کہ اگر کوئی معلم تاخیر سے آتا ہے تو ایک منٹ تاخیر سے آنے پر دس روپیہ تنخواہ میں سے کٹے گا۔ معلمین کا کہنا یہ ہے کہ ایک منٹ کا دس روپیہ کے حساب سے تنخواہ تو نہیں دی جاتی۔ سوال یہ ہے کہ ذمہ داروں کا اس طریقے سے پیسہ کاٹنا کیسا ہے؟ اور ذمہ داران کو  اگر پیسہ کاٹنا ہے تو کونسی صورت بہتر ہوسکتی ہے؟ معلمین کا کٹا ہوا پیسہ ذمہ داران شرعاً کس مد میں استعمال کرسکتے ہیں؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : حافظ مظفر، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں مکتب کے اساتذہ کے ایک منٹ تاخیر سے آنے پر ذمہ داران کو صرف اتنی ہی تنخواہ کاٹنے کا اختیار ہے جتنی ایک منٹ کی تنخواہ بنتی ہے، یعنی اساتذہ کی تنخواہ کو ان کی ڈیوٹی کے مکمل وقت پر تقسیم کیا جائے اور ایک منٹ جو تنخواہ بنتی ہو اتنی ہی تنخواہ کاٹی جائے، اس سے زیادہ تنخواہ کاٹنا مالی جرمانہ اور ظلم ہے، اور مالی جرمانہ وصول کرنا جمہور علماء امت بشمول طرفین (امام ابو حنیفۃ اور امام محمد رحمهما اللہ) کے نزدیک ناجائز ہے۔ جرمانہ کی یہ رقم ذمہ داران کے لیے حلال نہیں ہے اور نہ ہی ادارہ کے کسی کام میں اس کا استعمال جائز ہے۔ اس رقم کا اساتذہ کو واپس کرنا ضروری ہے، عدم ادائیگی کی صورت میں ذمہ داران بروز حشر قابلِ مؤاخدہ ہوں گے۔

ادارے کے نظم و ضبط کو بہتر بنانے کے لیے ایک مناسب حل یہ ہوسکتا ہے کہ ایسا ضابطہ بنادیا جائے کہ پابندی اور وقت پر آنے والے اساتذہ کو بطور انعام کچھ رقم دی جائے گی، اس پر عمل کیا جائے ان شاء اللہ فائدہ ہوگا۔

عن أنس بن مالک أن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم قال :  لایحل مال امرئ مسلم إلا بطیب نفسہ۔ (سنن الدارقطني، کتاب البیوع، ۳/۲۲، رقم: ۲۷۶۲)

التعزیر بالمال جائز عند أبی یوسف، وعندہما وعند الأئمۃ الثلاثۃ لایجوز، وترکہ الجمہور للقرآن والسنۃ : وأما القرآن فقولہ تعالی : (فاعتدوا علیہ بمثل ما اعتدی علیکم)۔ وأما السنۃ فإنہ علیہ السلام قضی بالضمان بالمثل ولأنہ خبر یدفعہ الأصول فقد أجمع العلماء علی أن من استہلک شیئاً لم یغرم إلا مثلہ أو قیمتہ ۔ (اعلاالسنن ، ۱۱/۷۳۳، باب التعزیر بالمال ، بیروت)

ولا یکون التعزیر بأخذ المال من الجاني في المذہب۔ (مجمع الأنہر ، کتاب الحدود / باب التعزیر ۱؍۶۰۹)

والحاصل أن المذہب عدم التعزیر بأخذ المال۔ (شامي، باب التعزیر، مطلب في التعزیر بأخذ المال ۶؍۱۰۶)

لا یجوز لأحد من المسلمین أخذ مال أحد بغیر سبب شرعي۔ (شامي، باب التعزیر، مطلب في التعزیر بأخذ المال ۶؍۱۰۶)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
26 جمادی الآخر 1444

5 تبصرے:

  1. اسے کہتے ہیں لینے کے دینے پڑ گئے

    جواب دیںحذف کریں
  2. دینوی مدارس تو نہیں لیکن میں عصری تعلیم کے کئی ایسے اداروں کو جانتا ہوں جہاں مالی جرمانہ نا ہونے کی وجہ سے اساتذہ نے لا پرواہی برتی ۔ میرے علاقے میں نگر پالیکا کا ایک اردو میڈیم والا ادارہ محض اساتذہ کی لاپرواہی سے بند ہو چکا ہے۔ اور اب وہاں کے ساکنان یا تو English میڈیم یا پھر مراٹھی میڈیم کے اسکولوں میں اپنے بچوں کو داخل کرنے پر مجبور ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں