جمعرات، 26 جنوری، 2023

شہنشاہ نام رکھنے کا حکم

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ شہنشاہ نام رکھنا کیسا ہے؟ جواب عنایت فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : مولوی عقیل، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : حدیث شریف میں "مَلِكُ الْأَمْلَاكِ" نام رکھنے ممانعت وارد ہوئی ہے جس کا اردو ترجمہ بادشاہوں کا بادشاہ یعنی "شہنشاہ" کے ہوتا ہے۔

بخاری شریف میں ہے :
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک بدترین شخص وہ ہوگا جس کو شہنشاہ کا نام دیا جائے۔

مسلم شریف میں ہے :
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک مبغوض ترین اور سب سے بدتر وہ شخص ہوگا جس کو شہنشاہ کا نام دیا جائے یاد رکھو اللہ کے سوا کوئی بادشاہ نہیں۔

اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی حقیقی بادشاہ نہیں ہے چہ جائیکہ کسی کو شہنشاہ یعنی بادشاہوں کا بادشاہ کہا جائے اور صفتِ شہنشاہیت ایک ایسا وصف ہے جو صرف اللہ تعالیٰ ہی کے ساتھ خاص ہے کہ اس وصف میں کسی مخلوق کے شریک ہونے کا وہم و گمان بھی نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا "شہنشاہ" نام نہیں رکھنا چاہیے۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَخْنَى الْأَسْمَاءِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عِنْدَ اللَّهِ رَجُلٌ تَسَمَّى مَلِكَ الْأَمْلَاكِ۔ (صحیح البخاری، رقم : ٦٢٠٥)

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : إِنَّ أَخْنَعَ اسْمٍ عِنْدَ اللَّهِ رَجُلٌ تَسَمَّى مَلِكَ الْأَمْلَاكِ ". زَادَ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ فِي رِوَايَتِهِ : لَا مَالِكَ إِلَّا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ ". قَالَ الْأَشْعَثِيُّ : قَالَ سُفْيَانُ : مِثْلُ شَاهَانْ شَاهْ۔ (صحیح المسلم، رقم : ٢١٤٣)

(تسمى) أي سمى نفسه أو سماه غيره فأقروه ورضي به (ملك) بكسر اللام (الأملاك) أو ما في معناه نحو شاه شاهان أو شاهان شاه۔ (فیض القدیر : ١/٢١٩)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
03 رجب المرجب 1444

1 تبصرہ:

  1. السلام علیکم مفتی صاحب ارزاق کا کیا معنی اور یہ نام رکھنا کیسا ہے ؟

    جواب دیںحذف کریں