منگل، 30 جون، 2020

مسجد کی دوکان خالی کرنے کے لیے کرایہ دار کا رقم کا مطالبہ کرنا


سوال :

محترم مفتی صاحب! مسجدوں کی جگہ، شاپنگ سینٹر، گھر کے کرایہ کے تعلق سے چند سوالات ذہن میں ہیں، آپ سے درخواست ہے کہ آپ اپنے علم کی روشنی میں، قرآن و حدیث کی رو سے ان پر تصفیہ فرما کر عوام الناس کے لئے تحریر فرما دیں۔

1) بعض مساجد کے شاپنگ سینٹرس، ٹرسٹیان مساجد کے لئے، انکے عزیز و اقرباء کے لئے ہی مختص ہوتے ہیں، یہ تو ایسا ہے کہ اسکول کے مینجمنٹ میں آپ کے رشتہ دار ہیں تو آپ کو نوکری ملنا ہی ہے، ایسا کرنا، مطلب مساجد کی پراپرٹی پر اپنا حق جتانا کیا انکے لئے جائز ہے؟ 

2) کچھ جگہوں پر مسجد کی جگہ، (گھر، شاپنگ سینٹر) خالی کرنے کے لئے پیسوں کا مطالبہ بھی کیا جاتا ہے، (جبکہ کچھ واقعات ایسے بھی ہیں کہ غیر مسلم بھی بغیر پیسے لئے مسجد کی جگہ خالی کر دیتے ہیں) اس طرح مسجد کی جگہ خالی کرنے کے لئے پیسے مانگنا جائز ہے؟ یہاں ایک بات قابلِ ذکر ہے کہ انہیں بغیر ایڈوانس کے برسوں پہلے بسایا گیا ہو۔ اور اگر کچھ قلیل رقم دی گئی تھی تو اسکا آج سے موازنہ کرکے لاکھوں مانگتے ہیں، جبکہ کرایہ کا موازنہ آج کے حساب سے نہیں کرتے، مسجد کے سامنے ہی 4000 کرایہ چل رہا ہوتا ہے مگر خود 400 دینگے۔
(المستفتی : عمران الحسن، مالیگاؤں)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مسجد کا متولی مسجد کی املاک کا محافظ ہے، مالک نہیں۔ اس کی شرعاً یہ ذمہ داری ہے کہ وہ حتی الامکان اپنی ذات سے مسجد کو فائدہ پہنچائے، اور مسجد کی ملکیت کی دوکان ومکان کی حفاظت کرے اور اسے مسجد کے لیے مفید سے مفید تر بنانے کی کوشش میں لگا رہے، چنانچہ اگر مسجد کی ملکیت کے مکان ودوکان کو کرایہ پر دینے کی نوبت آئے تو ایسے شخص کو ترجیح دی جائے جو زیادہ کرایہ دے، خواہ وہ مسجد کے ٹرسٹیان کا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن اگر یہ بات نہ ہوتو پھر دوسروں کو یکسر نظر انداز کرکے صرف رشتہ داروں کو کرایہ پر دینا درست نہیں ہے۔ نیز اس میں مزید ظلم یہ ہے کہ ان سے عام کرایہ سے کم لیا جائے۔ لہٰذا ایسے متولیان کو اپنی اس غلط روش سے باز آجانا چاہیے۔

2) مسجد کا شاپنگ سینٹر خالی کرنے کے لیے بطور ڈپازٹ جمع کی گئی رقم سے زیادہ مانگنا یا ڈپازٹ کی رقم جمع ہی نہیں کی گئی ہے اس کے باوجود رقم کا مطالبہ کرنا سراسر ناجائز اور حرام ہے۔ یہ رقم کرایہ دار کے لیے حلال نہیں ہے، اگر کسی نے خدانخواستہ ایسا ظلم کرلیا ہے تو اس پر ضروری ہے کہ مسجد کی رقم واپس کرے اور اس پر توبہ و استغفار کرے، ورنہ دارین کا نقصان اس کا مقدر ہوگا۔

نوٹ : ڈپازٹ کے لیے جو رقم جمع کی گئی تھی، دوکان خالی کرتے وقت اتنی ہی رقم واپس کی جائے گی، موجودہ حالات کے اعتبار سے اس کا موازنہ نہیں کیا جائے گا، کیونکہ یہ رقم بطور قرض ہوتی ہے، لہٰذا جتنی بھی تاخیر سے ادا کی جائے گی اس کی مقدار وہی ہوگی جو جمع کرتے وقت تھی، اس سے زیادہ کا مطالبہ کرنا سود کہلائے گا جس پر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی لعنت اور پھٹکار ہوتی ہے۔


عن أنس بن مالک أن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم قال: لایحل مال امرئ مسلم إلا بطیب نفسہ۔ (سنن الدارقطني، کتاب البیوع، رقم: ۲۷۶۲)

لا یجوز لأحد من المسلمین أخذ مال أحد بغیر سبب شرعي۔ (شامي / باب التعزیر، مطلب في التعزیر بأخذ المال ۶؍۱۰۶)

ویردونہا علی أربابہا إن عرفوہم وإلا تصدقوا بہا؛ لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ۔ (شامي، کتاب الحظر والإباحۃ / باب الاستبراء، فصل في البیع، ۹؍۵۵۳)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی
08 ذی القعدہ 1441

پیر، 29 جون، 2020

مسجد کے کرایہ دار کا دوکان کسی دوسرے کو کرایہ پر دینا



سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ مسجد کے بعض کرایہ دار کسی دوسرے کو شاپنگ سینٹر کرایہ سے دے بھی دیتے ہیں یعنی پوٹ بھاڑے کری کی صورت میں دیتے ہیں، مطلب یہ لوگ مسجد کو کرایہ وہی پرانا دینگے جو باپ دادا کے دور سے دیتے آئے ہیں (مثلاً 300 سے 500 روپے ماہانہ) اور سامنے والے سے آج کی قیمت وصول کرینگے، (یعنی کہ کم از کم 3000 سے 4500 ہزار ماہانہ تک) کیا انکا ایسا کرنا، اور یہ رقم انکے لئے جائز ہے؟
(المستفتی : عمران الحسن، مالیگاؤں)
-------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں اگر ان لوگوں نے مسجد کے شاپنگ سینٹر میں مزید کوئی اضافہ اور تصرُّف نہیں کیا ہے، بلکہ جوں  کا  توں اصل کرایہ سے زیادہ کرایہ مثلاً مسجد کو پانچ سو کرایہ دے کر خود اسے چار ہزار کرایہ پر دیا جائے تو اُن کے لئے اصل  کرایہ یعنی پانچ سو سے زیادہ رقم حلال نہیں ہے، اس زائد رقم  کا  دوسرے کرایہ دار کو واپس کرنا ضروری ہے۔

البتہ اگر ان لوگوں نے اپنی رقم سے شاپنگ سینٹر میں کوئی اضافہ کیا، مثلاً اس کی تزئین کاری یعنی رنگ وروغن کا کام کیا ہو یا الماریاں لگوادیں، پانی  کا موٹر لگوادیا جس سے اس کی حیثیت بڑھ گئی، تو اب زائد  کرایہ  لینے کی گنجائش ہوگی۔

نوٹ : متولیانِ مسجد کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسجد کی املاک کی حفاظت کریں اور اس بات کی کوشش کریں کہ مسجد کی ملکیت کی دوکانیں اور مکان زیادہ سے زیادہ نفع بخش ثابت ہوں، لہٰذا جب کسی کو یہ جگہیں کرایہ پر دی جائے تو اس کا کرایہ موجودہ حالات کے اعتبار سے طے کیا جائے، اور حالات کے اعتبار سے اس کے کرایہ میں اضافہ بھی کیا جاتا رہے، اس سلسلے میں غفلت کرنا یا کرایہ داروں سے تعلقات کی وجہ قصداً کرایہ کم رکھنا اور حالات کے اعتبار سے اس میں اضافہ نہ کرنا متولیان کے لئے بروز حشر گرفت کا سبب بنے گا۔ شہر میں اس سلسلے میں بڑی غفلت پائی جاتی ہے، لہٰذا اس پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ نیز کرایہ داروں کی بھی ذمہ داری ہے کہ اگر کرایہ داری میں کوئی معاہدہ نہیں ہوا ہے تو موجودہ حالات کے اعتبار سے کرایہ ادا کریں، یا پھر وہ جگہ واپس کردیں، ورنہ مسجد کی املاک کو نقصان پہنچانے کی وجہ سے دنیا وآخرت میں خود بھی خسارہ اٹھانے کے لیے تیار رہیں۔


أخبرنا الثوري، وسألہ عن الرجل یستأجر ذٰلک، ثم یواجرہ بأکثر من ذٰلک، فقال: أخبرني عبیدۃ عن إبراہیم وحصین عن الشعبي، ورجل عن مجاہد: أنہم کانوا یکرہونہ إلا أن یحدث فیہ عملا۔ (المصنف لعبد الرزاق / البیوع ۸؍۲۲۲ رقم: ۱۴۹۷۱)

ولہ السکنی بنفسہ وإسکان غیرہ بإجارۃ وغیرہا (تنویر الأبصار) ولو آجر بأکثر تصدق بالفضل إلا في مسألتین: إذا آجرہا بخلاف الجنس أو أصلح فیہا شیئًا۔ (الدر المختار) وفي الشامي: بأن جصصہا، أو فعل فیہا مسناۃ، وکذا کل عمل قائم؛ لأن الزیادۃ بمقابلۃ ما زاد من عندہ حملًا لأمرہ علی الصلاح۔ (شامي / باب ما یجوز من الإجارۃ وما یکون خلافًا فیہا الخ ۹؍۳۸ زکریا)

وإذا استاجر داراً وقبضہا، ثم آجرہا، فإنہ یجوز إن أجرہا بمثل ما استأجرہا، أو أقل وإن آجرہا بأکثر مما استأجرہا، فہي جائزۃ أیضًا إلا أنہ إن کانت الأجرۃ الثانیۃ من جنس الأجرۃ الأولی، فإن الزیادۃ لایطیب ویتصدق بہا، ولو زاد في الدار زیادۃ کما لووتد فــیہا وتداً أو حفر فیہا بئراً أو طینا أو أصلح أبوابہا، أو شیئًا من حوائطہا طابت لہ الزیادۃ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الإجارۃ / الباب التاسع في إجارۃ المستأجر ۴؍۴۲۵ زکریا)
مستفاد : فتاویٰ محمودیہ ۱۶؍۶۰۴-۶۱۰ ڈابھیل، بحوالہ کتاب النوازل)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
07 ذی القعدہ 1441

اتوار، 28 جون، 2020

نمازی کی پیشانی پر سیاہ نشان کی شرعی حیثیت



سوال :

محترم مفتی صاحب! ایک مسئلہ دریافت کرنا تھا وہ یہ کہ بہت سے نمازیوں کی پیشانی پر کالا نشان پڑجاتا ہے، جسے ہمارے یہاں نماز کا ٹیکہ بھی کہا جاتا ہے، کیا اس نشان کے بارے میں قرآن و حدیث میں کوئی فضیلت یا ذکر آیا ہے؟ اگر ہوتو برائے مہربانی باحوالہ جواب عنایت فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : انصاری محمد صدیق، مالیگاؤں) 
--------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : نمازی کی پیشانی پر پڑنے والے کالے نشان کی فضیلت میں کوئی آیت یا حدیث شریف نہیں ہے۔ بلکہ محدث سعید بن منصور نے اس کے متعلق تفسیر کے امام مجاہد سے دریافت کیا کہ قرآن کریم کی آیت :
سِیْمَاہُمْ فِیْ وُجُوْہِہِمْ مِنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ۔
ترجمہ : ان کی علامتیں سجدے کے اثر سے ان کے چہروں پر نمایاں ہیں۔
سے کیا وہ نشان مراد ہے، جو کثرت سجدہ کی وجہ سے پیشانی پر پڑ جاتا ہے؟ تو آپ نے اس کی تردید فرمائی اور کہا کہ اس سے مراد خشوع وخضوع ہے، اسی طرح حدیث شریف میں اس بات کی بھی وضاحت آئی ہے کہ اس آیت سے مراد مذکورہ نشان نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد مؤمنین عابدین کے چہروں پر کثرت عبادت اور شب بیداری کی وجہ سے قیامت کے دن نور اور چمک ہوگی۔


عن منصور قال : قلت لمجاہد : ’’سِیْمَاہُمْ فِیْ وُجُوْہِہِمْ مِنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ‘‘ أہو أثر السجود في وجہ الإنسان؟ فقال: لا، إن أحدہم یکون بین عینیہ مثل رکبۃ العنز، وہو کما شاء اللہ یعني من الشر لکنہ الخشوع۔ (السنن الکبری للبیہقي، الصلاۃ، باب سیماہم فی وجوہہم من أثر السجود، دارالفکر ۳/ ۱۹۹، ۲۰۰، رقم: ۳۶۵۲)

عن أبي بن کعب قال: قال رسول اللہ ﷺ: سیماہم فی وجوہہم من أثر السجود، قال: النور یوم القیامۃ۔ (المعجم الأوسط، دارالفکر ۳/ ۲۴۱، رقم: ۴۴۶۴، المعجم الصغیر ۱/ ۳۷۰، رقم: ۶۱۹)

عن عکرمۃ : سیماہم في وجوہہم، قال: السہر۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ، کتاب الزہد، کلام عکرمہ، مؤسسۃ علوم القرآن ۱۹/ ۴۳۶، رقم: ۳۵۶۴، جدید ۳۶۶۱۳)

وقال منصور: سألت مجاہدا أہذہ السیما ہي الأثر یکون بین عیني الرجل؟ قال: لا، وقیل: ہي صفرۃ الوجہ من سہر اللیل، وروی ذلک عن عکرمۃ والضحاک، وروی السلمی عن عبدالعزیز المکي لیس ذلک ہو النحول والصفرۃ، ولکنہ نور یظہر علی وجوہ العابدین یبدو من باطنہم علی ظاہرہم یتبین ذلک للمؤمنین، ولو کان في زنجی أو حبشی (إلی قولہ) ولا یبعد أن یکون النور علامۃ في وجوہہم فی الدنیا والآخر۔ (تفسیر روح المعاني، الجزء السادس والعشرون، سورۃ الفتح: ۲۹، زکریا دیوبند ۱/ ۱۴، رقم: ۱۸۹/بحوالہ فتاوی قاسمیہ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
05 ذی القعدہ 1441

جمعہ، 26 جون، 2020

نادِ علی نامی وظیفہ کا شرعی حکم


سوال :

محترم مفتی صاحب! نادِ علی کیا ہے؟ نادِ علی کا پڑھنا اور اس سے منسوب عملیات کا کرنا/کروانا کیسا ہے؟
(المستفتی : ملک انجم، مالیگاؤں)
--------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نادِ علی سے مشہور ہونے والا وظیفہ جسے شیعہ عالم مجلسی نے اپنی کتاب زادالمعاد (مفتاح الجنان) میں لکھا ہے اور یہیں سے یہ اہل بدعت کی کتابوں میں نقل ہوا ہے۔ اس کے بارے میں دارالعلوم دیوبند کا فتوی ملاحظہ فرمائیں :

شیعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی الوہیت کے قائل ہیں اور انھیں ”مشکل کشا“ کہتے ہیں، اور انھوں نے اپنے اس فاسد عقیدے کو رائج کرنے کے لیے مختلف پروپیگنڈے کیے یہاں تک کہ سنی لوگوں کی زبانوں پر بھی ”یا علی مشکل کشا“ چڑھ گیا، شیعوں نے اس کے لیے دو شعر بھی کہے ہیں :
نادِ علیا مظہر العجائب تجدہ عونا لک في النوائب
کل ہم وغم سینجلي بنبوتک یا محمد وبولایتک یا علي
(ترجمہ : علی کو پکارو جو عجائبات ظاہر کرنے والے ہیں، تم مشکلات میں ان کو اپنا مددگار پاوٴگے، سارے رنج وغم دور ہوجائیں گے اے محمد آپ کی نبوت اور اے علی آپ کی ولایت کی بدولت)
معلوم ہوا کہ ”ناد علی“ شیعوں کا ایجاد کردہ شرکیہ جملہ ہے، اس لیے کسی مسلمان کے لیے اس کا کہنا جائز نہیں ہے۔ (فتوی نمبر :156694) 

جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن کا فتوی ہے :
’اہلِ تشیع‘ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت ثابت کرنے کے لیے کچھ کلمات مرتب کیے ہیں، من جملہ ان میں سے "نادِ علی" ہے، اس کا ترجمہ ہے : "علی کو پکارو" اس جملے (نیز اس وظیفے سے مراد دیگر کلمات) میں غیر اللہ سے اس کے انتقال کے بعد استغاثہ (مدد طلب کرنا) پایا جاتا ہے، اس لیے اس جملہ کا استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔ 

واضح رہے کہ سیدنا ومولانا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بہت فضائل صحیح احادیث سے ثابت ہیں، لہٰذا کسی مقدس ہستی کی فضیلت کے لیے خود ساختہ فضائل اور روایات کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ (فتوی نمبر :144107200052) 

مذکورہ بالا تفصیلات سے معلوم ہوا کہ اس وظیفہ کا پڑھنا اور اس سے منسوب عملیات کا کرنا یا کروانا بھی جائز نہیں ہے۔


جهود علماء الحنفية في إبطال عقائد القبورية۔ (2/1087)

یجوز في الأذکار المطلقۃ لإتیان لما ہوصحیح في نفسہ مما یتضمن الثناء علی اللّٰہ تعالیٰ، ولایستلزم نقصا بوجہ الوجوہ، وإن لم تکن تلک الصیغۃ ماثورۃ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ ۲۱؍ ۲۳۸)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
04 ذی القعدہ 1441

جمعرات، 25 جون، 2020

کسی کا وائی فائی ہیک کرکے استعمال کرنا


سوال :

مفتی صاحب کچھ لوگ بستی میں وائے فائے کا پاسورڈ ہیک کرکے انٹرنیٹ چلاتے ہیں کیا ان کا یہ عمل درست ہے؟
(المستفتی : فیضان احمد، مالیگاؤں)
--------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : کسی کی چیز اس کی اجازت کے بغیر استعمال کرنا جائز نہیں ہے، متعدد احادیث میں اس کی ممانعت وارد ہوئی ہے۔

ابو حرہ رقاشی اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : خبردار کسی پر ظلم و زیادتی نہ کرو ! خبردار کسی آدمی کی ملکیت کی کوئی چیز اس کی رضامندی کے بغیر لینا حلال اور جائز نہیں ہے۔

حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا : جس نے کسی کی کوئی چیز چھین لی اور لوٹ لی وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

درج بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ کسی کا وائی فائی اس کی اجازت کے بغیر استعمال کرنا یا ہیک کرلینا ناجائز اور سخت گناہ کی بات ہے، اگر کسی نے استعمال کرلیا ہے تو وائی فائی کے مالک سے جاکر معافی تلافی کرے اور اگر اس میں فتنے کا اندیشہ ہوتو اس کے لیے استغفار اور دعائے خیر کرے۔


عن أبي حرۃ الرقاشي عن عمہ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ألا لا تظلموا! ألا لا یحل مال امرء إلا بطیب نفس منہ۔ (المسند للإمام أحمد بن حنبل : ۵؍۷۲) 

عن عمران بن حصین رضي اللّٰہ عنہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال : … من انتہب نہبۃ فلیس منا۔ (سنن الترمذي / باب ما جاء من النہي عن النکاح الشغار، رقم: ۱۱۲۳) 

لا یجوز التصرف في مال غیرہ بلا إذنہ ولا ولایتہ۔ (الدر المختار مع الشامي، کتاب الغصب / مطلب فیما یجوز من التصرف بمال الغیر ۹؍۲۹۱)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی 
03 ذی القعدہ 1441

بدھ، 24 جون، 2020

ارطغرل ڈرامہ ‏

مفتی طارق مسعود صاحب سے چند سوالات

✍️ محمد عامرعثمانی ملی 

       
           حضرت مولانا مفتی طارق مسعود صاحب دامت برکاتہم ایک جید عالم دین ہیں، بندہ ذاتی طور پر انہیں بہت پسند کرتا ہے۔ اور ان کے بیانات سننے کی لوگوں کو ترغیب بھی دیتا ہے۔ لیکن دو چار مسائل میں بندے کو ان سے اختلاف بھی ہے، ان میں ایک ترکی ڈرامہ ارطغرل ہے۔ اور اہل علم کے یہاں یہ بات مشہور ہے کہ جہاں اپنے بڑوں کی کسی بات پر کوئی اشکال ہو ان کے مقام ومرتبہ کا لحاظ کرتے ہوئے ان سے سوالات کرکے تشفی کرلینا چاہیے۔


22 جون کے بیان میں آپ نے فرمایا کہ ارطغرل ڈرامہ سے متاثر ہوکر ایک شخص نے آپ کو تلوار ہدیہ کی، مجھے بتائیں پاکستان جیسے مسلم اکثریتی ملک میں اس تلوار کا کیا ہوگا؟ کس کافر کو اس تلوار سے واصل جہنم کیا جائے گا؟ اور کیا اب جنگیں تلوار سے لڑی جائیں گی؟ موجودہ حالات میں تلوار اور گھوڑوں کا کیا فائدہ ہے؟


آپ کہہ رہے ہیں کہ میں ان لوگوں کو ترغیب نہیں دے رہا ہوں جو ڈرامہ نہیں دیکھتے، لیکن آپ فضائل اس طرح سنا رہے ہیں کہ کبھی ڈرامہ نہ دیکھنے والا بھی یہ ڈرامہ دیکھ کر ہی رہے گا۔ اور کیوں نہ دیکھے جب یہ ڈرامہ دیکھ کر جذبہ جہاد جو پیدا ہونے والا ہے، کیونکہ آپ کے بیان سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ اس ڈرامہ سے انقلاب آرہا ہے اور یہی ڈرامہ اب لوگوں میں جذبہ ایمان اور جذبہ جہاد پیدا کرے گا۔ ورنہ اب تک تو ساری دنیا کے مسلمان اس جذبہ سے عاری زندگی گزار رہے تھے۔ علماء حق کے ایمان افروز بیانات اور راتوں کو جاگ کر امت کے غم میں گھُل گھُل کر لکھی جانے والی فکر انگیز کتابوں کی اب کوئی ضرورت نہیں رہی۔


اس ڈرامہ کے دیکھنے والوں سے متعلق ہم نے جو جائزہ لیا ہے اس سے یہی بات کھُل کر سامنے آرہی ہے کہ ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کی فلمیں دیکھنے والے اس ڈرامہ کو جائز بلکہ ثواب سمجھ کر دیکھ رہے ہیں، اور جنہوں نے اب تک کوئی ڈرامہ نہیں دیکھا ہے وہ بھی دھڑلے سے دیکھ رہے ہیں، خواہ اسے گناہ ہی سمجھ رہے ہو‌ں، لیکن گناہ کا اس طرح سرعام ارتکاب انتہائی تشویشناک ہے۔ اس کی میوزک موبائل فون کی رنگ ٹون پر ایسے لگائی جارہی ہے جیسے یہ کوئی اسلامی ترانہ ہو، لاک ڈاؤن کے فرصت کے ایام اور رمضان المبارک کے قیمتی اوقات لوگوں نے اسی میں ضائع کیے ہیں، اور ان سب کو کہیں نہ کہیں آپ جیسے علماء کرام کے بیانات اور مضامین سےتقویت مل رہی ہے، کیونکہ ہم نے اس بات کا اچھی طرح سے جائزہ لے لیا ہے کہ یہی لوگ آپ کے اس طرح کے بیانات بہت اہتمام کے ساتھ شیئر کررہے ہیں۔


حضرت مفتی صاحب شریعت کے احکام تو بالکل واضح ہیں نا، کوئی چیز جائز ہوتی ہے یا ناجائز ہوتی ہے، اگر وہ ناجائز ہے تو اس میں کوئی خیر نہیں ہوسکتا۔ الا یہ کہ آدمی اضطراری کیفیت میں مبتلا ہوجائے، اگر اس ڈرامہ کی وجہ سے بظاہر کہیں کچھ خیر نظر بھی آرہا ہے تو اس کی مدت پانی کے بلبلوں سے زیادہ کی نہیں ہے۔ جس پر یہی کہا جائے گا کہ جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائدار ہوگا۔ جبکہ عمومی طور پر جو انقلاب آیا ہے وہ یہی ہے کہ ٹِک ٹاکر کو ایک ٹرینڈ مل گیا ہے، نوجوان بچے بچیاں اس کے کرداروں کی نقالی کرتے ہوئے اس کے ویڈیوز بناکر ٹک ٹاک پر اپلوڈ کررہے ہیں، اور کچھ لوگ اس پر کامیڈی ویڈیو بنا رہے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ اس ڈرامہ سے نوجوانوں میں شوبازی کو بڑھاوا ملا ہے، اور ان کے جذبات کو بے وقت ابھار کر ان کے جذبات سے کھیلا گیا ہے۔


حضرت مفتی صاحب ڈیجیٹل تصویر کشی کو اگر عکس مان کر جائز سمجھ لیا جائے تب بھی اس ڈرامہ میں دلچسپی قائم رکھنے کے لیے جھوٹ کی آمیزش، موسیقی، مرد وزن کا اختلاط، اور ناجائز معاشقہ کی داستان کو کون سے فقہی ضابطہ سے جائز کہا جائے گا؟ آپ ان ساری قباحتوں کو کیوں نظر انداز کررہے ہیں؟ جبکہ ان میں سے ایک ایک برائی پر گھنٹوں بیان کیا جاسکتا ہے۔ اور معصیت کے اس مجموعے کی آپ جیسا جید اور متقی عالم دین کیسے تعریف کرسکتا ہے؟ دو تین بیانات میں جو آپ نے جم کر اس ڈرامہ کی تعریف کی ہے اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ اس ڈرامہ کے ناظرین کی تعداد میں اب مزید اضافہ ہونے والا ہے۔


آپ کہتے ہیں کہ ہیروئن کے عادی کو پہلے سگریٹ پر لایا جائے گا۔ لیکن مجھے یہ بتائیں کہ کون سا ایسا ڈاکٹر ہے جو سگریٹ پر لانے کے لیے اس کے فضائل ہی سنانے لگے؟ اس سے تو یہ ہوگا کہ اس کے دل میں سگریٹ کی قباحت ہی ختم ہوجائے گی۔


اس بات کی کیا گیارنٹی ہے کہ ہالی ووڈ بالی ووڈ کی فلمیں دیکھنے والے یہ ڈرامہ دیکھ کر ان سے باز آجائیں گے؟ ہاں اس بات کا سخت اندیشہ ضرور ہے کہ اب ان کے نزدیک فلموں کی قباحت مزید کم ہوجائے گی، اور اب وہ ہر فلم کو سبق آموز سمجھ کر دیکھیں گے، اور اس کے دیکھنے کی ترغیب بھی دیں گے۔


آپ بار بار یہی کہتے ہیں کہ میں جائز نہیں کہتا تو اس کا مطلب یہی ہوا نا کہ یہ ڈرامہ ناجائز ہے؟ تو پھر اس ناجائز ڈرامہ اور اس کے بنانے والوں کی تعریف پر شرعاً کیا حکم لاگو ہوگا؟ 


گذشتہ سال بندے نے اس ڈرامے پر مفصل جواب لکھا تھا، اس کے بعد اس پر اب کوئی تحریر لکھنے کا ارادہ نہیں تھا، لیکن 22 جون کی آپ کی تقریر سن کر کچھ سوالات ذہن میں آگئے، اور ضروری محسوس ہوا کہ انہیں لکھ کر آپ کی خدمت میں پیش کیا جائے اگر کوئی ساتھی اس تحریر کو حضرت مفتی صاحب تک پہنچادے تو امید ہے کہ آپ اس پر کوئی جواب عنایت فرماکر بندے جیسے ہزاروں طلباء کے اشکالات کو دور فرمائیں گے۔


اخیر میں اس شعر پر اپنی بات کو مکمل کروں گا کہ :
محرومِ تماشہ کو وہ دیدۂ بینا دے
دیکھا ہے جو کچھ میں نے اوروں کو بھی دکھلا دے۔


اللہ تعالٰی ہم سب کو دین کی صحیح تعلیمات پر عمل کرنے اور اس کی نشرواشاعت کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

منگل، 23 جون، 2020

عورت کے ناقص العقل ہونے کا مطلب ‏



سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ ایک پوسٹ واٹس اپ پر نظر سے گزری جس میں لکھا ہوا ہےکہ عورت کو مرد کی بہ نسبت نصف عقل ہوتی۔ جبکہ دیکھا جائے تو پڑھائی کے معاملے میں عورتیں مردوں سے عموماً آگے ہوتی ہیں، تو نصف عقل کا کیا مطلب ہوا؟ اور کیا ایسا کہنا درست ہے؟ 
(المستفتی : مشتاق احمد، مالیگاؤں) 
-------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : بخاری شریف کی روایت ہے جس کے راوی حضرت ابوسعید خدری ہیں فرماتے ہیں کہ رسول اللہ عید الفطر یا عید الاضحیٰ کی نماز کے لئے عیدگاہ تشریف لے گئے تو آپ کا گزر عورتوں کی ایک جماعت کے پاس سے ہوا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو مخاطب کرکے فرمایا : اے عورتوں کی جماعت ! تم صدقہ وخیرات کرو، کیونکہ میں نے تم عورتوں کی اکثریت کو دوزخ میں دیکھا ہے (یہ سن کر) عورتوں نے کہا : یا رسول اللہ! اس کا سبب؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ : تم لعن طعن بہت کرتی ہو اور اپنے شوہروں کی نافرمانی وناشکری کرتی رہتی ہو، اور میں نے عقل ودین میں کمزور ہونے کے باوجود ہوشیار مرد کو بے وقوف بنا دینے میں تم سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا (یہ سن کر) عورتوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! ہماری عقل اور ہمارے دین میں کمی کیسے ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : کیا ایک عورت کی گواہی مرد کی گواہی کے نصف نہیں؟ (یعنی کیا ایسا نہیں ہے کہ شریعت میں دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر سمجھی جاتی ہے) ان عورتوں نے کہا، جی ہاں ! ایسا ہی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : یہی ان کی عقل کی کمزوری کی دلیل ہے۔ (آپ نے فرمایا) کیا ایسا نہیں ہے کہ عورت جب حیض کی حالت میں ہوتی ہے نہ تو نماز پڑھتی ہے اور نہ ہی روزہ رکھتی ہے؟ ان عورتوں نے کہا : جی ہاں! ایسا ہی ہے، آپ نے فرمایا : یہ ان کے دین میں ناقص ہونے کی دلیل ہے۔

اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ عورتیں مردوں کی بہ نسبت کم عقل ہوتی ہیں، جس کا حقیقی مطلب فقیہ العصر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم نے اپنے ایک جواب میں تحریر فرمایا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں :

’’ تعلیم ‘‘ معلومات کو جمع کرنے کا نام ہے، اور ’’عقل ‘‘ قوتِ فکر سے عبارت ہے، ایسا ہوسکتا ہے کہ ایک شخص کتابوں میں موجود مضامین کو حاصل کرلے، لیکن اس میں فکر و نظر کی صلاحیت کم ہو، اس لئے فی زمانہ لڑکیوں کا تعلیم میں آگے بڑھنا عقل و فہم کے اعتبار سے بھی عورتوں کے فائق ہونے کی دلیل نہیں۔ ویسے میرا خیال ہے کہ حدیث میں نقصان عقل سے قوت فیصلہ میں کمی مراد ہے، گویا مقصد یہ ہے کہ عورتیں زیادہ زود رنج اور جذباتی ہونے کی وجہ سے کم قوت فیصلہ کی مالک ہوتی ہیں، اور اگر آپ حقیقت پسندی کے ساتھ خواتین کے مزاج پر غور کریں تو ضرور اس کی تصدیق کریں گے۔

نیز خواتین کو ناقص العقل کہنے سے آپ علیہ السلام کی منشاء عورتوں کی توہین نہیں بلکہ ان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار اور ان کے لئے رحم کی اپیل کرنا ہے، یہ ایسے ہی ہے کہ کسی کم عمر لڑکے سے غلطی ہوجائے تو کہا جاتا ہے کہ معاف کردو، یہ بچہ ہے، اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے مردوں کو متوجہ کیا ہے کہ اگر کبھی عورتیں زود رنجی کا مظاہرہ کریں یا مغلوب الجذبات ہوکر تمہارے ساتھ کوئی زیادتی کر جائیں تو ان کے ساتھ در گزر کا معاملہ کرو اور سمجھو کہ وہ ناسمجھ ہیں، ان سے انتقام کے درپئے نہ ہو۔


عن ابی سعید الخدری قال : خرج رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فی اضحیٰ او فطر الی المصلی، فمرعلی النساء، فقال : یا معشر النساء! تصدقن، فانی اریتکن اکثر اہل النار، فقلن وبم؟ یا رسول اللہ! قال تکثرن اللعن‘وتکفرن العشیر ما رأیت من ناقصات عقل و دین اذہب للب الرجل الحاذم من احدکن، قلن وما نقصان دیننا وعقلنا یا رسول اللہ؟ قال الیس شہادة المرأة مثل نصف شہادة الرجل قلن بلیٰ! قال فذالک من نقصان عقلہا۔ الیس اذا حاضت لم تصل ولم تصم، قلن: بلیٰ، قال:فذلک من نقصان دینہا۔ (صحیح بخاری، حدیث نمبر 304)
مستفاد : کتاب الفتاویٰ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
01 ذی القعدہ 1441

ہفتہ، 20 جون، 2020

والدہ کی میراث سے متعلق چند سوالات

والدہ کی میراث سے متعلق چند سوالات

سوال :

سوال نمبر 1 : والد کے انتقال کے بعد بہن، بھائی اور ماں کے حصے میں جو ترکے آئے ہیں، اگر ماں اپنی حیات ہی میں چاہے تو کیا اپنا ترکہ کسی ایک کو دے سکتی ہے؟

سوال نمبر 2 : ماں کے انتقال کے بعد وہ ترکہ بہن بھائیوں میں کس طرح تقسیم ہوگا؟

سوال نمبر 3 : اکثر دیکھا گیا ہے کہ جس بھائی یا بہن کے پاس ماں کی بقیہ زندگی گزرتی ہے وہ ماں کے انتقال کے بعد ماں کے حصے پر اپنا حق جتاتا ہے، کیا یہ مناسب ہے؟

سوال نمبر 4 : ماں، کیا اسی کو اپنا ترکہ مرنے سے پہلے دے سکتی ہے جس کے پاس وہ اپنی بقیہ زندگی گزارتی ہے؟ کیا یہ بقیہ بہن بھائیوں کے ساتھ انصاف ہو سکتا ہے؟

(المستفتی : عمران الحسن، مالیگاؤں)

----------------------------------

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب وباللہ التوفيق : آدمی کی وفات کے بعد اس کے چھوڑے ہوئے مال کو ترکہ کہا جاتا ہے۔ اور زندگی میں وارثین کے درمیان جائداد تقسیم کردینے کو شریعت کی اصطلاح میں ہبہ کہتے ہیں، دونوں کے احکام الگ الگ ہیں۔

صورت مسئولہ میں والدہ اگر خود اپنی جائداد برضا ورغبت اپنے وارثین میں تقسیم کرنا چاہتی ہیں تو یہ ہبہ ہوگا۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنے لئے جتنا مال رکھنا چاہے رکھ لیں، بقیہ مال تمام اولاد کے درمیان برابر برابر تقسیم کردیں۔ پورا مال ایک بیٹے کو دے دینا شرعاً پسندیدہ نہیں ہے، اس لئے کہ یہ انصاف کے خلاف ہے۔ (1)

البتہ کسی ضرورت کے پیش نظر جب کہ کسی وارث کو نقصان پہنچانا مقصود نہ ہوتو امام محمد رحمہ اللہ کے قول کے مطابق حسبِ میراث تقسیم کرسکتے ہیں، یعنی : ہر لڑکے کو دو لڑکیوں کے برابر دیں گے۔ لیکن ایسا کوئی طریقہ اختیار نہ کریں جس  میں  دیگر اولاد کے حق میں اضرار کا قصد یا اضرار کا واضح پہلو پایا جاتا ہو۔(2)

2) والدہ کے انتقال کے بعد اس کا مال ترکہ بن جائے گا۔ اور یہ مال اولاد درمیان للذکر مثل حظ الانثیین (ایک بیٹے کو دو بیٹیوں کے برابر) کے تحت تقسیم ہوگا۔ (3)

3) والدین کی خدمت کرنا بڑی خوش نصیبی اور دنیا و آخرت میں سرخروئی کا ذریعہ ہے، اور اگر والدین کے پاس مال نہ ہوتو ان کی ضروریات پر خرچ کرنا اولاد پر واجب ہے۔ خرچ نہ کرنے کی صورت میں اولاد سخت گناہ گار ہوگی۔ صورتِ مسئولہ میں والدہ کی خدمت کرنے والے لڑکے یا لڑکی کا والدہ کے پورے مال پر حصہ جتانا شرعاً جائز نہیں ہے۔ اس لئے کہ اس مال میں تمام اولاد کا حصہ ہے۔ (4)

4) پورا مال خدمت کرنے والی اولاد کو دے دینا اور بقیہ تمام کو محروم کردینا شرعاً پسندیدہ نہیں ہے۔ البتہ خدمت کرنے والی اولاد کو بقیہ سے کچھ زیادہ دینے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔


1) ولو وھب رجل لأولادہٖ في الصحۃ سوّی بینھم ھو المختار۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۴؍۳۹۱)

 وفي الخلاصۃ: المختار التسویۃ بین الذکر والأنثیٰ في الہبۃ، ولو کان ولدہ فاسقًا۔ (البحر الرائق / کتاب الہبۃ، ۷؍۴۹۰)فقط

 2) حاشیہ فتاوی دارالعلوم دیوبند، ۱۷: ۵۰۸، تکملہ فتح الملہم ۲: ۶۸، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت وغیرہ)

 3) قال اللّٰہ تعالیٰ : یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْ اَوْلَادِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ، فَاِنْ کُنَّ نِسَآئً فَوْقَ اثْنَتَیْنِ فَلَہُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَکَ، وَاِنْ کَانَتْ وَاحِدَۃً فَلَہَا النِّصْفُ۔ (سورۃ النساء، جزء آیت : ۱۱)

 4) الرجل یأکل من مال ولدہ أي إذا احتاج إلیہ وفي ہامشہ یجوز عند أحمد مطلقًا․․․ وخالفہ الأئمة الثلثة وقالوا لا یجوز إلا أن یحتاج فیأخذ بقدر حاجتہ۔ (بذ ل المجہود، ۴/۲۹۵)فقط

واللہ تعالٰی اعلم

محمد عامر عثمانی ملی

11 ربیع الاول 1441

نماز میں سورۂ فاتحہ کی ١یک آیت چھوٹ جائے؟


سوال :

مفتی صاحب ! سورہ فاتحہ نماز میں واجب ہے تو کیا پوری سورہ واجب ہے یا کچھ آیات؟ در اصل عشاء میں ایک آیت چھوٹ گئی ایسا لگا تو میں نے سجدہ سہو کر لیا تو کیا صحیح ہے؟

(المستفتی : مولانا اشفاق، پونے)

-------------------------------

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب وباللہ التوفيق : فرض نماز کی پہلی دو رکعتوں میں اور سنن و نوافل اور وتر کی ہر رکعت میں مکمل سورہ فاتحہ پڑھنا واجب ہے۔ ایک آیت بلکہ کوئی ایک کلمہ بھی چھوٹ جائے تو سجدۂ سہو واجب ہوگا۔ سجدۂ سہو کرلینے سے نماز صحیح ہوجائے گی۔

صورتِ مسئولہ میں آپ سے سورہ فاتحہ کی کوئی آیت چھوٹ گئی تھی تو آپ کے سجدۂ سہو کرلینے سے نماز درست ہوگئی۔

 

فیسجد للسہو بترک أکثرہا لا أقلہا؛ لکن في المجتبیٰ یسجد بترک اٰیۃ منہا وہو أولیٰ (درمختار) وفي الشامیۃ: وفیہ نظر؛ لأن الظاہر أن ما في المجتبیٰ مبني علی قول الإمام بأنہا بتمامہا واجبۃ وذکر الاٰیۃ تمثیل لا تقیید؛ إذ بترک شيء منہا اٰیۃ أو أقل وہو حرفاً لا یکون اٰتیاً بکلہا الذي ہو الواجب۔ (شامي، ۲؍۱۴۹، زکریا)

وإن ترکہا في الأخریین لا یجب إن کان في الفرض، وإن کان في النفل أو الوتر وجب علیہ لوجوبہا في الکل۔ (البحر الرائق، ۲؍۹۴، رشیدیہ)فقط

واللہ تعالٰی اعلم

محمد عامر عثمانی ملی

12 ربیع الاول 1441

نمازِ کسوف کی ہر رکعت میں دو رکوع کرنے کا حکم


سوال :

مفتی صاحب! واٹس اپ پر ایک پوسٹ نظر سے گذری جس میں حدیث شریف کے حوالے سے لکھا ہے کہ نمازِ کسوف میں دو مرتبہ رکوع کیا جائے گا۔ آپ براہ کرم وضاحت کے ساتھ یہ مسئلہ سمجھا دیں کہ حنفی مسلک میں دو رکوع کرنا صحیح ہے یا نہیں؟ 
(المستفتی : انصاری عبیدالرحمن، مالیگاؤں)
--------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : دو رکوع کے ساتھ صلاۃِ کسوف حضرت امام شافعیؒ کے نزدیک تو جائز ہے، مگر حضرت امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک دو رکوع کرنا جائز نہیں ہے۔ اور حدیث شریف میں دو، تین، چار رکوع کی جو بات آئی ہے اس کا مدار اس پر ہے کہ حضور ﷺ نے اس نماز کے اندر لمبا رکوع فرمایا تھا، جس کی وجہ سے صف اول کے نمازیوں نے یہ سوچا کہ شاید آپ ﷺ نے رکوع سے سر اٹھا لیا ہے، چنانچہ انہوں نے سر اٹھا کر دیکھا تو پیچھے کی صف والوں نے بھی سر اٹھا لیا، اس کے بعد جب صف اول والوں نے دیکھا کہ حضور ﷺ رکوع ہی میں ہیں تو وہ لوگ دوبارہ رکوع میں چلے گئے اور پیچھے والوں نے یہ سمجھا کہ آپ ﷺ نے دو رکوع کئے ہیں اور اسی خیال کے مطابق روایت بیان کردی، اسی وجہ سے دو رکوع یا چار رکوع والی روایت صرف صحابیہ عورتیں یا اصاغر صحابہ نقل کرتے ہیں جو پیچھے تھے، جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ اور حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا ہیں جو کہ بچوں اور عورتوں کی صفوں میں تھے اور ان کی صفیں پیچھے ہوتی تھیں، انہوں نے اگلی صف والوں کو دیکھ کر یہ سمجھا کہ دو رکوع کئے ہیں، حالانکہ حقیقت میں ایک رکوع کیا تھا، اسی وجہ سے اکابر صحابہ رضی اﷲ عنہم صرف ایک رکوع کی روایت بیان کرتے ہیں۔


الحنفیۃ قالوا : صلاۃ الکسوف لا تصح برکوعین، وقیامین بل لابد من قیام واحد ورکوع واحد، کہیئۃ النفل بلا فرق۔ (الفقہ علی المذاہب الأربعۃ، کتاب الصلاۃ، سنن صلاۃ الکسوف، دارالفکر ۱/ ۳۶۴)

نحمل ما رویتم علی أن النبي ﷺ رکع فأطال الرکوع کثیرا زیادۃ علی قدر رکوع سائر الصلوات لما روی أنہ عرض علیہ الجنۃ والنار في تلک الصلاۃ، فرفع أہل الصف الأول رؤوسہم ظنا منہم أنہ صلی اﷲ علیہ وسلم رفع رأسہ من الرکوع، فرفع من خلفہم، فلما رأی أہل الصف الأول رسول اﷲ ﷺ راکعا رکعوا، ورکع من خلفہم، فلما رفع رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم رأسہ من الرکوع رفع القوم رؤوسہم، فمن کان خلف الصف الأول ظنوا أنہ رکع رکوعین، فرووا علی حسب ما وقع عندہم ، وعلم الصف الأول حقیقۃ الأمر، فنقلوا علی حسب ما علموہ، ومثل ہذا الاشباہ قد یقع لمن کان في آخر الصفوف، وعائشۃؓ کانت واقفۃ في خیر صفوف النساء، وابن عباس في صف الصبیان في ذلک الوقت، فنقلا کما وقع عندہما۔ (بدائع الصنائع، کتاب الصلاۃ، فصل في صلاۃ الکسوف وکیفیتہا، جدید زکریا ۱/ ۶۲۸، کراچی ۱/ ۲۸۱، التقریر للترمذي، باب صلاۃ الکسوف، ص: ۱۹/بحوالہ فتاوی قاسمیہ)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
27 شوال المکرم 1441

جمعہ، 19 جون، 2020

کیا رُوٹھنا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اور منانا حضورﷺ کی سنت ہے؟ ‏



سوال :

مفتی صاحب! روٹھنا حضرت عائشہ کی سنت ہے اور منانا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ کیا یہ درست ہے؟
(المستفتی : سفیان احمد، مالیگاؤں)
--------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : روٹھنا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی سنت ہے اور منانا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ یہ الفاظ کسی حدیث، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یا فقہاء امت کے اقوال سے منقول نہیں ہیں۔

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے روٹھنے کی یہ وجہ بالکل بھی نہیں ہوتی تھی کہ معاذ اللہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے کبھی کوئی زیادتی ہوئی ہوگی، بلکہ میاں بیوی کے درمیان کسی بات پر روٹھنا اور منانا فطرت کا تقاضہ اور زیادتئ محبت کا ذریعہ ہے، لہٰذا اسے غلط نہ سمجھا جائے۔

بخاری ومسلم کی روایت میں ہے :
حضرت عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ ایک دن رسول کریم ﷺ مجھ سے فرمانے لگے کہ جس وقت تم مجھ سے خوش ہوتی ہو تو میں جان جاتا ہوں اور جب تم کسی دنیوی معاملہ میں مجھ سے ناراض ہوتی ہو جیسا کہ میاں بیوی کے درمیان کسی بات پر خفگی ہو جاتی ہے تو مجھے وہ بھی معلوم ہو جاتا ہے میں نے عرض کیا کہ " آپ ﷺ یہ کس طرح پہچان لیتے ہیں؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اس طرح کہ جب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو تو اس طرح کہا کرتی ہو " یہ بات نہیں محمد ﷺ کے پروردگار کی قسم" اور جب تم مجھ سے خفا ہوتی ہو تو اس طرح کہتی ہو کہ " یہ بات نہیں ہے ابراہیم علیہ السلام کے پروردگار کی قسم" یعنی جب تم مجھ سے خفا ہونے کی حالت میں قسم کھاتی ہو تو میرا نام نہیں لیتیں بلکہ ابراہیم علیہ السلام کا پروردگار کہتی ہو ۔ حضرت عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ یہ سن کر میں نے عرض کیا کہ ہاں یا رسول اللہ! یہ بات ٹھیک ہے، لیکن میں صرف آپ ﷺ کا نام ہی چھوڑتی ہوں۔ (متفق علیہ) 

حدیث شریف میں مذکور الفاظ "لیکن میں صرف آپ کا نام ہی چھوڑتی ہوں" کا مطلب یہ ہے کہ غصہ کی حالت میں مغلوب العقل ہوجاتی ہوں اگرچہ میں آپ ﷺ کا نام نہیں لیتی مگر میرے دل میں آپ ﷺ کے لئے پیار و محبت کا جو دریا موجزن ہے اس کے تلاطم میں ذرہ برابر بھی کمی نہیں ہوتی، بلکہ میرا دل آپ ﷺ کی محبت میں جوں کا توں ڈوبا ہوا رہتا ہے۔

نیز سنت سے یہ مراد بالکل بھی نہ لی جائے کہ خواتین یہ سمجھ کر کہ روٹھنا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی سنت اور ثواب کا کام ہے، لہٰذا بلاوجہ شوہروں سے روٹھتی رہیں، اور شوہر بھی کام دھندا چھوڑ کر روٹھنے منانے میں نہ لگے رہیں، ورنہ قوامیت اور حاکمیت کا رعب کھو دیں گے۔ یہ چیزیں کبھی کبھار سے تعلق رکھتی ہیں۔

خلاصہ یہ کہ اصلاً بیوی کو منانا سنت نہیں ہے، بلکہ حُسنِ سلوک کی نیت سے انہی منالینا سنت کہلائے گا۔ لہٰذا اس کا خوب خیال رکھا جائے۔


حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنِّي لَأَعْلَمُ إِذَا کُنْتِ عَنِّي رَاضِيَةً وَإِذَا کُنْتِ عَلَيَّ غَضْبَی قَالَتْ فَقُلْتُ مِنْ أَيْنَ تَعْرِفُ ذَلِکَ فَقَالَ أَمَّا إِذَا کُنْتِ عَنِّي رَاضِيَةً فَإِنَّکِ تَقُولِينَ لَا وَرَبِّ مُحَمَّدٍ وَإِذَا کُنْتِ عَلَيَّ غَضْبَی قُلْتِ لَا وَرَبِّ إِبْرَاهِيمَ قَالَتْ قُلْتُ أَجَلْ وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا أَهْجُرُ إِلَّا اسْمَکَ۔ (متفق علیہ)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی 
26 شوال المکرم 1441

جمعرات، 18 جون، 2020

گِروی رکھی ہوئی گاڑی استعمال کرنا


سوال :

مفتی صاحب ! آج کل لوگ اپنی ٹوویلرگاڑی دیکر کچھ رقم بیس ہزار تیس ہزار سال دو سال کے لیے لیتے ہیں اور رقم دینے والا گاڑی کو استعمال بھی کرتا ہے پھر رقم لوٹا کر اپنی گاڑی واپس لے لیتے ہیں تو کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : راشد حسین، دھولیہ)
-------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : کسی سے قرض لیا جائے تو اس کا واپس کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اور واپسی یقینی بنانے کے لیے بطورِ ضمانت قرض دینے والے کے پاس اپنی کوئی چیز رہن اور گِروی رکھوانا شرعاً جائز اور درست ہے، لیکن مرتہن (جس کے پاس رہن رکھوایا گیا ہے) کے لیے مالِ مرہونہ (گروی رکھی ہوئی چیز) کو اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں ہے، اگر راہن (گروی رکھنے والا) اجازت دے چکا ہو تب بھی اس کے استعمال کی شرعاً اجازت نہیں ہے، کیونکہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ قرض دے کر نفع اٹھانا یہ سود کے زمرہ میں داخل ہوجاتا ہے۔

معلوم ہوا کہ صورتِ مسئولہ میں قرض دے کر مقروض کی گاڑی استعمال کرنا جائز نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے ضروری ہے وہ گاڑی بحفاظت اپنے پاس رکھے اور رقم کی واپسی کے وقت اس کی گاڑی صحیح سلامت واپس کرے، اگر گاڑی استعمال کرنا ہوتو عُرف میں اس طرح کی گاڑیوں کا جو کرایہ بنتا ہو وہ گاڑی مالک کو ادا کرکے اسے استعمال کرسکتا ہے۔ 


عن علي رضي اللّٰہ عنہ مرفوعًا کل قرض جر منفعۃً فہو ربا۔ (إعلاء السنن ۱۴؍۵۶۶ رقم: ۴۸۵۸، المصنف لعبد الرزاق ۸؍۱۴۶ رقم: ۱۴۶۶۲)

کل قرض جر نفعًا حرام أي إذا کان مشروطًا۔ (شامی : ۷/۳۹۵)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
25 شوال المکرم 1441

منگل، 16 جون، 2020

مرد کے دائیں بائیں یاآگے عورت کا نماز پڑھنا


سوال :

جناب مفتی صاحب! امید ہے کہ مزاج گرامی بخیر ہوگا۔ دریافت یہ کرنا ہے کہ عورت کی موجودگی کی کون کون سی صورتوں میں مرد کی نماز فاسد ہو جاتی ہے؟
(المستفتی : محمد ابراہیم اعجاز، مالیگاؤں)
-------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مرد اور عورت کے ایک ساتھ نماز پڑھنے سے مراد اگر یہ ہو کہ نماز پڑھتے ہوئے مرد اور عورت دونوں ایک ہی ساتھ صف میں کھڑے ہوں، تو یہ مسئلہ اصطلاح میں ”محاذات“ کا مسئلہ کہلاتا ہے، اس کا شرعی حکم درج ذیل ہے :

اگر کوئی مرد کسی عورت کے دائیں بائیں یا پیچھے اس کی سیدھ میں نماز پڑھے اور وہاں درج ذیل شرائط پائی جائیں تو مرد کی نماز فاسد ہوجائے گی، وہ شرائط یہ ہیں :

1) وہ عورت مشتہاۃ ہو، یعنی ہم بستری کے قابل ہو خواہ بالغ ہو یا نہ ہو، بوڑھی ہو یا محرم، سب کا حکم یہی ہے۔

2) دونوں نماز میں ہوں، یعنی ایسا نہ ہو کہ ایک نماز میں ہے اور دوسرا نماز میں نہیں ہے۔

3) مرد کی پنڈلی، ٹخنہ یا بدن کا کوئی بھی عضو عورت کے کسی عضو کے مقابلہ میں آرہا ہو۔

4) یہ سامنا کم از کم ایک رکن (تین تسبیح پڑھنے کے بقدر) تک برقرار رہا ہو۔

5) یہ اشتراک مطلق نماز میں پایا جائے، یعنی نمازِ جنازہ کا یہ حکم نہیں ہے۔

6) دونوں کی نماز ایک ہی قسم کی ہو، یعنی  مرد وعورت دونوں ایک ہی امام کی اقتدا میں نماز پڑھ رہے ہوں۔

7) تحریمہ دونوں کی ایک ہو، یعنی برابر نماز پڑھنے والی عورت نے برابر والے مرد کی اقتدا  کی ہو یا دونوں نے کسی تیسرے آدمی کی اقتدا کی ہو۔

8) عورت میں نماز صحیح ہونے کی شرائط موجود ہوں،  یعنی عورت پاگل یا حیض ونفاس کی حالت میں  نہ ہو۔

9) مرد وعورت کے نماز پڑھنے کی جگہ سطح کے اعتبار سے برابر ہو، یعنی اگر سطح میں آدمی کے قد کے بقدر فرق ہو، تو محاذات کا حکم نہ ہوگا۔

10) دونوں کے درمیان کوئی حائل نہ ہو، یعنی دونوں کے درمیان ایک انگلی کے برابر موٹی اور سترے کی مقدار اونچی کوئی چیز یا  ایک آدمی کے کھڑے ہونے کے بقدر فاصلہ نہ ہو۔

11) مردنے اپنے قریب آکر کھڑی ہونے والی عورت کو اشارے سے وہاں کھڑے ہونے سے منع نہ کیا ہو، اگر اشارہ کیا ہو پھر بھی عورت  مرد کے برابر میں کھڑی رہی، تو اب مرد کی نماز فاسد نہ ہوگی۔

12) اور امام نے مرد کے برابر میں کھڑی ہوئی عورت کی امامت کی نیت بھی کی ہو۔

اگر مذکورہ شرائط پائی جائیں تو ایک عورت کی وجہ سے تین مردوں (دائیں بائیں جانب والے دو مردوں کی اور عورت کی سیدھ میں پیچھے ایک مرد) کی نماز فاسد  ہوجائے گی۔


فتاوی عالمگیری میں ہے :
"محاذاة المرأة الرجل مفسدة لصلاته ولها شرائط:
(منها) أن تكون المحاذية مشتهاةً تصلح للجماع ولا عبرة للسن وهو الأصح .... (ومنها) أن تكون الصلاة مطلقةً وهي التي لها ركوع وسجود.... (ومنها) أن تكون الصلاة مشتركةً تحريمةً وأداءً .... (ومنها) أن يكونا في مكان واحد...(ومنها) أن يكونا بلا حائل ... وأدنى الحائل قدر مؤخر الرحل وغلظه غلظ الأصبع والفرجة تقوم مقام الحائل وأدناه قدر ما يقوم فيه الرجل، كذا في التبيين. (ومنها) أن تكون ممن تصح منها الصلاة.... (ومنها) أن ينوي الإمام إمامتها أو إمامة النساء وقت الشروع ... (ومنها) أن تكون المحاذاة في ركن كامل.... (ومنها) أن تكون جهتهما متحدة ..... ثم المرأة الواحدة تفسد صلاة ثلاثة واحد عن يمينها وآخر عن يسارها وآخر خلفها ولا تفسد أكثر من ذلك. هكذا في التبيين.وعليه الفتوى. كذا في التتارخانية والمرأتان صلاة أربعة واحد عن يمينهما وآخر عن يسارهما واثنان خلفهما بحذائهما ،وإن كن ثلاثا أفسدت صلاة واحد عن يمينهن وآخر عن يسارهن وثلاثة خلفهن إلى آخر الصفوف وهذا جواب الظاهر. هكذا في التبيين (1/ 89، کتاب الصلاۃ، الباب الخامس فی الامامہ، الفصل  الخامس فی بیان مقام الامام والماموم، ط:رشیدیہ)

(حاشیہ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، ص: 329، باب مایفسد الصلاۃ، ط: قدیمی)

(شامی، 1/572، کتاب الصلاۃ ،باب الامامہ،ط: سعید)

مستفاد : دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن، رقم الفتوی : 144008200729)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
23 شوال المکرم 1441

نکاحِ شِغار اور آٹہ ساٹہ کے نکاح کا حکم


سوال :

کیا فرماتے مفتیان کرام اس مسئلہ میں کہ نکاح میں ساٹہ لوٹہ(زید کا عمر کی بہن سے نکاح کرنا اور عمر کا زید کی بہن سے نکاح کرنا) کرنا جائز ہے یا نہیں؟ اس میں دونوں طرف سے مہر بھی ادا کیا جاتا ہے؟ بعض دفعہ اس نکاح کے اندر ایسا ہوتا کہ اگر ایک طرف عورت پر ظلم ہوتا تو اسکے جواب میں دوسری طرف بھی ظلم کیا جاتا ہے۔ کیا یہ لا شغار فی الاسلام میں داخل ہے؟ لا شغار فی الاسلام کی تعریف بھی بیان کیجئے۔ اللہ تعالی آپ کی عمر میں برکت عطا فرمائے۔
(المستفتی : مسیب رشید خان، جنتور)
-------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : اگر دو گھرانوں میں نکاح ہو یعنی زید کا نکاح عمر کی بہن سے اور عمر کا نکاح زید کی بہن سے ہورہا ہو اور ہر ایک کا مہر بھی مقرر ہو تو یہ صورت جائز اور درست ہے۔ عُرف میں اس نکاح کو وٹہ سٹہ/آٹہ ساٹہ/ساٹہ لوٹہ وغیرہ ناموں سے جانا جاتا ہے۔ یہ نکاح، لَاشِغار فی الاسلام میں داخل نہیں ہے۔

اب اگر کوئی صرف اس وجہ سے اپنی بہو یا بیوی کو پریشان کرے کہ اُس کے گھر میں اُن کی بہن بیٹی کو پریشان کیا جارہا ہے تو یہ سراسر ظلم اور نا انصافی ہے، لیکن اس کی وجہ سے اس طرح نکاح کرنے کو ناجائز نہیں کہا جائے گا۔ البتہ اگر ذکر کردہ بے اعتدالی کا اندیشہ ہوتو اس طرح کا نکاح کرنے سے احتراز کرنا چاہیے۔

 دو آدمیوں کے درمیان ایک دوسرے کی بیٹی بہن یا اور کسی محرم رشتہ دار سے نکاح کرنے کی ایک خاص صورت کا نام شِغار ہے۔ مثلاً زید عمر سے اپنی بہن کا  نکاح  اس شرط پر کرے کہ وہ اپنی بہن کا نکاح  زید سے کر دے گا۔ اور ان دونوں کے نکاح میں مہر کچھ بھی متعین نہ ہو بلکہ ان دونوں کے درمیان ایک دوسرے کی بہن کا تبادلہ ہی گویا مہر ہو اس طرح کا نکاح  زمانہ جاہلیت میں لوگ کیا کرتے تھے، یہ صورت ممنوع ہے اور لَاشِغار فی الاسلام سے یہی نکاح شغار مراد ہے۔ البتہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک شرائط پائی جانے کی وجہ سے یہ نکاح منعقد تو ہوجاتا ہے، اور منکوحہ مہرِ مثل کی حقدار ہوتی ہے، تاہم ایسا کرنے کی وجہ سے فریقین گناہ گار ہوتے ہیں۔ لہٰذا اس طرح نکاح کرنے سے اجتناب لازم ہے۔

نوٹ : مہرِ مثل یہ وہ مہر ہے جو لڑکی کے خاندان کی دیگر عورتوں مثلاً بہنوں، پھوپھیوں اور چچازاد بہنوں کے مہر کے برابر مقرر کیا جاتا ہے۔


وهو أن يشاغر الرجل : أي يزوجه حريمته على أن يزوجه الآخر حريمته ولا مهر إلا هذا، كذا في المغرب: أي على أن يكون بضع كل صداقًا عن الآخر، وهذا المقيد لا بد منه في مسمى الشغار، حتى لو لم يقل ذلك ولا معناه بل قال: زوجتك بنتي على أن تزوجني بنتك فقبل، أو على أن يكون بضع بنتي صداقًا لبنتك فلم يقبل الآخر بل زوجه بنته ولم يجعلها صداقًا لم يكن شغارًا بل نكاحًا صحيحًا اتفاقًا وإن وجب مهر المثل في الكل، لما أنه سمى ما لايصلح صداقًا۔ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين : ٣/١٠٥)

إذا زوج الرجل بنتہ علی أن یزوجہ المتزوج بنتہ أو أختہ لیکون العقدین عوضا عن الآخر فالعقدان جائزان ولکل واحدة منهما مهر مثلها۔ (ھدایة : ٢/٣٢٧)

اما مہر المثل فقد حد رد الحنفیۃ بانہ مہر امرأۃ تماثل الزوجۃ وقت العقد من جہۃ ابیھا لا امھا ان لم تکن من قوم الیھا کاختھا وعمّتھا وبنت عمّھا فی بلدھا وعصرھا۔ (الفقہ الاسلامی وادلّتہٗ: ۷؍۲۶۶، رابعًا انواع المہر)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
23 شوال المکرم 1441

پیر، 15 جون، 2020

شوہر مہر واپس مانگ لے تو نکاح کا حکم



سوال :

اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے مہر کی رقم مانگ کر واپس لے لے تو اس سے نکاح پر کوئی اثر پڑے گا یا نہیں؟
رہنمائی کی درخواست ہے۔
(المستفتی : فہیم ابراہیم، مالیگاؤں)
--------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اللہ تعالیٰ نے نکاح میں مقرر کردہ مہر کو خوش دلی سے ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ لہٰذا اگر کوئی مرد بیوی کو مہر ادا کردینے کے بعد بوقت ضرورت اسے مانگ لے اور بیوی خوش دلی سے اسے یہ رقم دے دے تو شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔

قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : 
وَآتُوْا النِّسَآئَ صَدُقٰتِہِنَّ نِحْلَۃً، فَاِنْ طِبْنَ لَکُمْ عَنْ شَیْئٍ مِنْہُ نَفْسًا فَکُلُوْہُ ہَنِیْئًا مَرِیْئًا۔ (سورۃ النساء، آیت : ۴) 
ترجمہ : اور عورتوں کو ان کے مہر خوشی سے د یا کرو۔ ہاں ! اگر وہ خود اس کا کچھ حصہ خوش دلی سے چھوڑ دیں تو اسے خوشگواری اور مزے سے کھالو۔ 

البتہ اگر شوہر جبراً بیوی سے مہر کی رقم لے لے یا شوہر ایسے حالات بنادے کہ بیوی کو مجبوراً مہر کی رقم واپس کرنا پڑے تو ایسی صورت میں شوہر گناہ گار ہوگا، اور اس پر لازم ہوگا کہ وہ اتنی رقم بیوی کو واپس کرے، ورنہ بروزِ حشر عنداللہ اس سے مؤاخذہ ہوگا۔ تاہم ہر دو صورت میں نکاح پر کوئی اثر نہیں ہوگا، نکاح بدستور باقی رہے گا۔


عن أبي حرۃ الرقاشي عن عمہ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ألا لا تظلموا! ألا لا یحل مال امرء إلا بطیب نفس منہ۔ (المسند للإمام أحمد بن حنبل ۵؍۷۲) 

لا یجوز التصرف في مال غیرہ بلا إذنہ ولا ولایتہ۔ (الدر المختار مع الشامي، کتاب الغصب / مطلب فیما یجوز من التصرف بمال الغیر ۹؍۲۹۱)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی 
22 شوال المکرم 1441

‎ ‎غیرمسلم ‏کی ‏موت ‏پر ‏RIP ‎کہنے ‏یا ‏لکھنے ‏کا ‏حکم


سوال :

مفتی صاحب! آج کل دیکھا جا رہا ہے کہ بہت سارے مسلم احباب کسی غیر مسلم ایکٹر یا سیاسی لیڈر کی موت پر، سوشل میڈیا پر  (RIP (Rest in peace کا اسٹیٹس لگاتے ہیں، کیا ایسا کرنا شرعاً درست ہے یا اسکی اجازت ہوسکتی ہے؟
(المستفتی : حافظ سعد، مالیگاؤں)
--------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اسلام کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ ایک شخص جو کفر کی حالت میں مرتا ہے و ہ خدا کا باغی ہے، اس لحاظ سے وہ یقیناً اس لائق ہے کہ اس سے بے تعلقی برتی جائے، یہ بے تعلقی، بے مروتی اور ناروا داری نہیں، بلکہ وفا شعاری اور انصاف کا تقاضا ہے۔ ہم دن رات دیکھتے ہیں کہ ملکوں اور حکومتوں کے باغیوں کو سزائے موت دی جاتی ہے اور اس کے ساتھ ہمدردی کو ایک طرح کی غداری سمجھا جاتا ہے، پس رب کائنات سے تمام انسانوں کا جو رشتہ بندگی ہے، اس کا تقاضا ہے کہ ایسے شخص کو معاشرہ کا باغی تصورکیا جائے اور اس سے بے تعلقی برتی جائے، اسلام نے اسی لئے دنیا میں گو عام انسانی رشتہ کے تحت ایسے لوگوں کے ساتھ مواسات اور غمخواری  کا حکم دیا ہے، لیکن آخرت جو صرف اہل ایمان کے لیے ہے اور جس کی ملکیت کو اللہ تعالیٰ نے مکمل طور پر اپنے لیے مخصوص کرلیا ہے اور اپنے آپ کو ’’مالک یوم الدین‘‘ کہا ہے، اس میں کسی قسم کی رواداری کی گنجائش نہیں رکھی گئی۔

خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حیات ِمبارکہ میں اس کی دو نہایت واضح مثالیں ملتی ہیں : ایک مثال حضرت ابوطالب کی ہے، جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے چچا بھی تھے اور محسن و محافظ بھی، لیکن ایمان ان کے لیے مقدر نہیں تھا، آپ علیہ السلام نے ان کے لیے دعائے مغفرت فرمائی تو ارشادِ باری ہوا :
مَا کَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَنْ یَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِکِیْنَ وَ لَوْ کَانُوْا اُولِیْ قُرْبٰی مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَھُمْ اَنَّھُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ۔
ترجمہ : نبی اور اہل ایمان کے لیے روا نہیں کہ مشرکین کے لیے یہ بات ظاہر ہوجانے کے بعد کہ وہ دوزخی ہیں، دعاء استغفار کریں، گو وہ قرابت دار ہی کیوں نہ ہوں۔ (سورۃ التوبۃ، آیت : ۱۱۳) 

علامہ قرطبی ؒ نے اس آیت کے ذیل میں لکھا ہے :
فان اللّٰہ لم یجعل للمؤمنین أن یستغفروا للمشرکین فطلب الغفران مما لا یجوز۔
ترجمہ : اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے لیے یہ جائز نہیں رکھا ہے کہ مشرکین کے لیے استغفار کریں، پس مشرک کے لیے دعائے مغفرت جائز نہیں۔ (الجامع لأحکام القرآن : ۸/۶۷۳) 

دوسری مثال یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے راس المنافقین عبد اللہ بن ابی پر نمازِ جنازہ پڑھی، جو بظاہر اپنے آپ کومسلمان کہتا تھا، حالانکہ وہ باطن میں ایمان سے محروم تھا، اس موقع سے بھی ارشادِ خداندی ہوا :
وَلاَ تُصَلِّ عَلیٰ اَحَدٍ مِّنْھُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّ لاَ تَقُمْ عَلیٰ قَبْرِہٖ اِنَّھُمْ کَفَرُوْا بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَمَاتُوْا و ھُمْ فٰسِقُوْنَ۔
ترجمہ : ان میں سے مرنے والوں پر آپ کبھی بھی نماز نہ پڑھیں، اور نہ ان کی قبر پر کھڑے ہوں کہ ان لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا ہے اور بحالتِ فسق رہے ہیں۔ (سورۃ التوبۃ، آیت : ۸۴) 

مشہور مفسر علامہ آلوسی ؒ نے اس آیت کے ذیل میں لکھا ہے : 
والمراد من الصلاۃ المنھی عنھا صلوۃ المیت المعروفۃ و ھي متضمنۃ للدعاء و الاستغفار و الاستشفاع۔
ترجمہ : جس نماز سے منع کیا گیا ہے، اس سے مرادنمازِ جنازہ ہے اور یہ دعائے استغفار اور شفاعت کو بھی شامل ہے۔ (روح المعانی : ۱۰/۱۵۵) 

معلوم ہوا کہ غیر مسلموں کے لیے استغفار، ایصالِ ثواب قرآن پڑھنا وغیرہ جائز نہیں ہے، چنانچہ ان کے مرنے پر RIP (ان کی روح کو آرام ملے) کہنا یا لکھنا بھی جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ الفاظ ان کے لیے بطور دعائے مغفرت کے ہیں۔ لہٰذا جو لوگ کسی غیرمسلم ایکٹر، سیاسی لیڈران کے مرنے پر سوشل میڈیا کے اسٹیٹس پر RIP لکھ رہے ہیں ان کا یہ عمل شرعاً ناجائز اور گناہ ہے، جس کی وجہ سے ان پر توبہ و استغفار لازم ہے۔


لَا يَجُوزُ الدُّعَاءُ بِالْمَغْفِرَةِ لِلْمُشْرِكِ۔ (البحر الرائق : ١/٣٤٩)
مستفاد : کتاب الفتاویٰ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
22 شوال المکرم 1441

اتوار، 14 جون، 2020

گدھا کنویں میں گرجائے تو؟


سوال :

مفتی صاحب خچر اور گدھے کا جھوٹا مشکوک ہے نا؟ تو اگر یہ کنویں میں گر جائے اور ان کا لعاب پانی میں مل جائے تو اس مشکوک پانی کو مطلق پانی کرنے کے لیے کتنے ڈول نکالے جائیں گے؟
(المستفتی : مولانا اشفاق، پونے)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : پالتو گدھے اور خچر کا جھوٹا مشکوک ہے۔ مشکوک پانی اسے کہتے ہیں جو بذاتِ خود پاک تو ہو لیکن اس کے مُطہّر یعنی پاک کرنے والا ہونے میں شک اور توقف ہو، یہی جمہور کا مذہب ہے۔ یعنی اگر مشکوک پانی کے علاوہ پاک یا مکروہ پانی نہ ملے تو اس سے وضو کرکے تیمم بھی کیا جائے گا۔ ان دونوں کو جمع کرنا واجب ہے۔ ان میں سے کسی ایک پر اکتفاء کرنا جائز نہیں۔ اور افضل یہ ہے کہ پہلے وضو یا غسل کرے پھر تیمم کرے۔

صورتِ مسئولہ میں گدھا یا خچر اگر کنویں میں گرجائے اور ان کا لعاب پانی میں مل جائے جبکہ کنواں دہ در دہ یعنی دس بائے دس (225 اسکوائر فٹ) سے کم ہوتو یہ پانی ماء قلیل ہونے کی وجہ سے مشکوک ہوجائے گا، لہٰذا اس پانی کو مطلق پانی یعنی مطہر کرنے کے لیے پورا کنواں خالی کیا جائے گا، چند ڈول نکالنے سے پانی مطلق نہیں ہوگا۔ البتہ اگر کنواں 225 اسکوائر فٹ سے زیادہ ہوتو یہ پانی ماء جاری کے حکم میں ہوگا، لہٰذا جب تک اس کا رنگ، بُو یا مزا تبدیل نہ ہوگا یہ پانی مطلق پانی کے حکم میں ہی ہوگا اور اس سے وضو اور غسلِ فرض سب درست ہوگا۔


وسؤر الحمار والبغل مشكوك فيهما فإن لم يجد غيرهما توضأ بهما وتيمم بأيهما بدأ جاز۔ (مختصر القدوري : ١٤)

لكن الأفضل تقديم الوضوء والاغتسال به عندنا۔ (البحر الرائق : ١/١٤٣)

والمعتبر ذراع الکرباس کذا في الظہیریة وعلیہ الفتوی کذا في الہدایة وہو ذراع العامة ست قبضات أربع وعشرون إصبعًا کذا في التبیین (الفتاویٰ الہندیہ: ۱/۱۸)

وفي التنوير وسؤر حمار وبغل مشكوك في طهوريته لا في طهارته اه ورجح ابن عابدين رحمه الله تعالي الشك في الطهارة ونقل عن الفتح أنه تظافر كلامهم علي أنه ينزح منه جميع ماء البئر۔ (ردالمحتار : ١/٢٠٩)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
21 شوال المکرم 1441

ہفتہ، 13 جون، 2020

برہنہ وضو اور غسل کرنے کا حکم



سوال :

محترم مفتی صاحب! کیا غسل خانہ میں مکمل طور پر برہنہ غسل کرسکتے ہیں؟ یا ستر ڈھک کر غسل کرنا ضروری ہے؟ برہنہ حالت میں وضو کرلیا گیا تو اس کا کیا حکم ہوگا؟ مدلل جواب ارسال فرمائیں عین نوازش ہوگی۔
(المستفتی : محمد فاروق، مالیگاؤں) 
--------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : ایسی جگہیں جہاں کسی کی نظر پڑنے کا اندیشہ نہ ہو وہاں برہنہ غسل کرنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں۔ آج کل غسل خانے ایسے ہی ہوتے ہیں جن میں بے پردگی کا بالکل بھی اندیشہ نہیں ہوتا۔ لہٰذا ان میں مکمل برہنہ غسل کرنا بلاکراہت جائز اور درست ہے، ستر کا ڈھکنا ضروری نہیں۔ کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ایوب علیہ السلام کے برہنہ نہانے کی شہادت صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ (مستفاد: احسن الفتاوی ۲/ ۳۱، فتاوی محمودیہ ڈابھیل ۵/ ۹۲، محمودیہ میرٹھ ۸/ ۱۷۵، فتاوی عثمانی ۱/ ۳۴۶، آپ کے مسائل اور ان کاحل ۳/ ۱۱٩) 

غسل سے پہلے وضو کرلینا مسنون ہے، چنانچہ جب پہلے وضو کیا جائے گا تو ظاہر ہے آدمی برہنہ ہی رہے گا۔جس سے معلوم ہوا کہ برہنہ ہونے سے وضو اور غسل پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ عوامی غلط فہمی ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔


عن أبي ہریرۃ رضي اللہ عنہ عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال : بینا أیوب یغتسل عریانا، فخر علیہ جراد من ذہب، فجعل أیوب یحتثی في ثوبہ، فناداہ ربہ یا أیوب أ لم أکن أغنیتک عما تری؟ قال : بلی وعزتک ولکن لاغنی بي عن برکتک۔ (بخاري، باب من اغتسل عریانا، النسخۃ الہندیۃ ۱/ ۴۲، رقم: ۲۷۹)

عن أبي ہریرۃ رضي اللہ عنہ عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: کانت بنو إسرائیل یغتسلون عراۃ، ینظر بعضہم إلی بعض، وکان موسیٰ علیہ السلام یغتسل وحدہ، فقالوا: و اللہ ما یمنع موسیٰ أن یغتسل معنا إلا أنہ آدر، فذہب مرۃ یغتسل فوضع ثوبہ علی حجر، ففر الحجر بثوبہ، فخرج موسیٰ في أثرہ یقول: ثوبي یا حجر ثوبي یا حجر، حتی نظرت بنو إسرائیل إلی موسیٰ، فقالوا: و اللہ ما بموسیٰ من بأس، وأخذ ثوبہ، فطفق بالحجر ضربا۔ (بخاري شریف، باب من اغتسل عریانا، النسخۃ الہندیۃ ۱/ ۴۲، رقم: ۲۷۸)

وقال بہز بن حکیم عن أبیہ عن جدہ عن النبي ﷺ: اللہ أحق أن یستحیي منہ من الناس۔ إن ظاہر حدیث بہز یدل علی أن التعری في الخلوۃ غیر جائز مطلقا، لکن استدل المصنف علی جوازہ في الغسل بقصۃ موسی وأیوب علیہما السلام۔ (فتح الباري، کتاب الغسل، باب من اغتسل عریانا الخ، مکتبہ أشرفیہ ۱/ ۵۰۷، ۵۰۸، رقم: ۲۷۸، دارالفکر بیروت ۱/ ۳۸۶، بحوالہ فتاوی قاسمیہ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
20 شوال المکرم 1441

جمعرات، 11 جون، 2020

سجدہ میں ناک زمین پر رکھنے کا حکم


سوال :

محترم مفتی صاحب سوال یہ عرض ہے کہ کیا سجدے میں ناک زمین سے ٹکانا واجب ہے؟ کیا جو شخص سجدے میں ناک زمین سے نہ ٹکائے اسکی نماز درست نہیں ہوگی؟
(المستفتی : زیاد انظر، مالیگاؤں)
-------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سجدہ کی حالت میں پیشانی اور ناک دونوں کا زمین پر ٹیک دینا ضروری ہے، البتہ کسی عذر کی بنا پر پیشانی اور ناک میں سے کسی ایک پر اکتفا کرنا بھی جائز ہے۔ بغیر کسی عذر کے صرف ناک پر سجدہ کرنے سے مفتی بہ قول کے مطابق نماز فاسد ہوجائے گی، جس کا اعادہ ضروری ہوگا۔ لیکن اگر بلاعذر صرف پیشانی پر سجدہ کیا جائے اور ناک کو زمین پر نہ ٹکایا جائے تو ایسی صورت میں نماز تو ادا ہوجائے گی، لیکن ایسا کرنا مکروہ تحریمی ہے۔ معلوم ہوا کہ سجدہ کی حالت میں ناک زمین پر ٹکانا واجب نہیں ہے۔ لہٰذا اگر سجدے کی حالت میں ناک زمین پر نہ رکھے تو نماز ہوجائے گی، لیکن بلاعذر ایسا کرنا مکروہ تحریمی ہے جس سے اجتناب ضروری ہے۔

 
وكمال السنة في السجود وضع الجبهة والأنف جميعاً ولو وضع أحدهما فقط إن كان من عذر لا يكره، وإن كان من غير عذر فإن وضع جبهته دون أنفه جاز إجماعاً ويكره، إن كان بالعكس فكذلك عند أبي حنيفة رحمه الله، وقالا : لا يجوز، وعليه الفتوى۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٢/٢٦)

وإن وضع جبہتہ دون أنفہ جاز سجودہ بالإجماع۔ (بدائع الصنائع : ۲/۲۸۳)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
18 شوال المکرم 1441

بدھ، 10 جون، 2020

ولی سے متعلق چند اہم سوالات



سوال :

ولی کسے کہتے ہیں؟ 
ولی کون کون بن سکتا ہے؟ 
اور کیا باپ کی موجودگی میں بڑا بھائی ولی بن کر بہن کا نکاح کراسکتا ہے؟ 
مدلل جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : محمد عبداللہ، مالیگاؤں)
-----------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : جس شخص کو شریعت نے کسی کے نکاح کرنے اور اس کے مال کی حفاظت کی ذمہ داری دی ہو اسے ولی کہا جاتا ہے۔

لڑکی اور لڑکے کا ولی سب سے پہلے اسکا باپ ہے، اگر باپ نہ ہو تو دادا، وہ نہ ہوتو پردادا، اگر یہ لوگ کوئی نہ ہو تو سگا بھائی، سگا بھائی نہ ہو تو سوتیلا بھائی یعنی باپ شریک بھائی، پھربھتیجا پھر بھتیجے کا لڑکا، پھر بھتیجے کا پوتا، یہ لوگ نہ ہوں تو سگا چچا، پھر سوتیلا چچا یعنی باپ کا سوتیلا بھائی، پھر سگے چچا کا لڑکا پھر اسکا پوتا، پھر سوتیلے چچا کا لڑکا، پھر اسکا پوتا، یہ کوئی نہ ہوتو باپ کا چچا ولی ہے، پھر اسکی اولاد، اگر باپ کا چچا اور اسکے لڑکے پوتے پرپوتے کوئی نہ ہوتو دادا کا چچا۔ پھر اسکے لڑکے پوتے پرپوتے وغیرہ، یہ کوئی نہ ہو تب ماں ولی ہے، پھر دادی، پھر نانی پھر نانا پھر حقیقی بہن پھر سوتیلی بہن جو باپ شریک ہو پھر جو بھائی بہن ماں شریک ہوں ، پھر پھوپھی پھر ماموں پھر خالہ وغیرہ ۔ تفصیل کیلئے دیکھئے۔ ( بہشتی زیور، جلد٤ ص ۶ / درمختار، جلد ٣ ص ۷۸)

نابالغہ لڑکی جو قریب البلوغ ہو، اس کا ولی باپ یا باپ نہ ہوتو دادا ہوتا ہے اگر یہ نہ ہوں تو پھر اس کا بھائی ولی ہوتا ہے۔ لہٰذا باپ کی موجودگی میں بھائی ولی نہیں بن سکتا۔ البتہ جب باپ بیٹے کو بیٹی کے نکاح کی اجازت دے دے تو نکاح منعقد ہوجائے گا اور بیٹا ولی نہیں، بلکہ وکیل کہلائے گا۔ بالغہ ہونے کے بعد عورت خود مختار ہوتی ہے، اس کا کوئی ولی نہیں ہوتا۔ بغیر ولی کی اجازت کے وہ اپنا نکاح کرسکتی ہے، البتہ باپ کو ولایت ندب واستحباب رہتی ہے، لہٰذا بغیر ولی کی اجازت کے نکاح کرنا بہتر نہیں ہے۔ چنانچہ صورتِ مسئولہ میں اگر لڑکی بالغہ ہوتو اس کی اجازت بھی ضروری ہے۔


ولو زوجہا من أبیہ أو ابنہ لم یجز عندہ، وفي کل موضع لاینفذ فعل الوکیل، فالعقد موقوف علی إجازۃ المؤکل۔ (شامي : ۴۲۲۳)

الأصل عندنا أن العقود تتوقف علی الإجازۃ، إذا کان لہا مجیز حالۃ العقد جازت، وإن لم یکن تبطل۔ (فتح القدیر : ۳؍۲۰۸) 

فنفذ نکاح حرۃ مکلفۃ بلا رضا ولي، والأصل أن کل من تصرف في مالہ تصرف في نفسہ ومالافلا۔ (در مختار، کتاب النکاح، باب الولي، ۴/۱۵۵)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی 
17 شوال المکرم 1441

منگل، 9 جون، 2020

منہ سے گرا ہوا لقمہ کھانے کا حکم


سوال :

مفتی صاحب ! زید کہتا ہیکہ لقمہ منہ میں سے گر جائے تو اسے نہیں کھانا چاہیے، وہ حرام ہو جاتا ہے۔ 
کیا زید کی بات درست ہے؟
(المستفتی : فیضان احمد، مالیگاؤں)
------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : متعدد احادیث میں یہ مضمون وارد ہوا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے گوشت دانتوں سے نوچ کر کھایا ہے۔

شمائل ترمذی میں ہے :
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ (ایک دن ) رسول کریم ﷺ کی خدمت میں (پکا یا بھنا ہوا) گوشت لایا گیا، اس میں سے آپ ﷺ کو دست کا حصہ دیا گیا کیونکہ دست کا گوشت آپ ﷺ کو بہت پسند تھا چنانچہ آپ ﷺ نے اس کو دانتوں سے نوچ نوچ کے کھایا۔

مسلم شریف میں ہے :
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں حالت ایام میں پانی پی کر (وہ برتن) رسول اللہ کو دے دیا کرتی تھی آپ ﷺ اسی جگہ سے جہاں میرا منہ لگا ہوتا تھا منہ لگا کر پی لیتے اور کبھی میں ایام کی حالت میں ہڈی سے گوشت نوچ کر کھاتی پھر وہ ہڈی رسول اللہ ﷺ کو دے دیتی آپ ﷺ اسی جگہ پر منہ رکھ کر گوشت کو نوچتے جہاں سے میں نے منہ رکھ کر نوچا ہوتا تھا۔ 

درج بالا دونوں روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ خود کے منہ سے نکلی ہوئی چیز کا کھانا جائز ہے بلکہ بیوی اور بچوں کے منہ سے گرے ہوئے نوالوں کا کھانا بھی جائز اور درست ہے۔ ہمارے یہاں بہت سی چیزیں مثلاً قلفیاں اور لالی پاپ وغیرہ ایسے ہی کھائے جاتے ہیں کہ وہ بار بار منہ میں ڈالے اور نکالے جاتے ہیں، اگر منہ سے نکلی ہوئی چیز حرام ہوتی تو ان چیزوں کا کھانا بھی ناجائز ہوتا۔ لہٰذا سوال نامہ میں مذکور زید کی بات بالکل بھی درست نہیں ہے، زید کو چاہیے کہ وہ شرعی معاملات میں بہت محتاط رہے، جب تک کسی چیز کے بارے میں یقینی علم نہ ہو اور معتبر علماء کرام سے نہ سنا ہوتو اسے نہ بیان نہ کرے، بغیر علم کے کوئی بات بیان کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ خود تو گمراہ ہوگا اور دوسروں کو بھی گمراہ کرے گا۔


عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلَحْمٍ فَرُفِعَ إِلَيْهِ الذِّرَاعُ وَکَانَتْ تُعْجِبُهُ فَنَهَسَ مِنْهَا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَعَائِشَةَ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ وَأَبِي عُبَيْدَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو حَيَّانَ اسْمُهُ يَحْيَی بْنُ سَعِيدِ بْنِ حَيَّانَ وَأَبُو زَرْعَةَ بْنُ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ اسْمُهُ هَرِمٌ۔ (شمائل ترمذي / باب ما جاء في صفۃ إدام رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ص: ۱۱) 

حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ قَالَا حَدَّثَنَا وَکِيعٌ عَنْ مِسْعَرٍ وَسُفْيَانَ عَنْ الْمِقْدَامِ بْنِ شُرَيْحٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ کُنْتُ أَشْرَبُ وَأَنَا حَائِضٌ ثُمَّ أُنَاوِلُهُ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَضَعُ فَاهُ عَلَی مَوْضِعِ فِيَّ فَيَشْرَبُ وَأَتَعَرَّقُ الْعَرْقَ وَأَنَا حَائِضٌ ثُمَّ أُنَاوِلُهُ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَضَعُ فَاهُ عَلَی مَوْضِعِ فِيَّ وَلَمْ يَذْکُرْ زُهَيْرٌ فَيَشْرَبُ۔ (صحيح مسلم، رقم : 300ج1/ 245 في باب سؤر الحائض)
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
16 شوال المکرم 1441

اتوار، 7 جون، 2020

خوشبو کہاں لگانا سنت ہے؟



خوشبو صرف کپڑے میں لگانا سنت ہے یا پھر ابرو، بھنویں اور داڑھی پر بھی لگانا سنت ہے؟
(المستفتی : محمد ابراہیم، مالیگاؤں)
-------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق :
الجواب وباللّٰہ التوفیق: کپڑوں کے علاوہ سر اور داڑھی میں بھی خوشبو لگانا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔

بخاری شریف میں ہے :
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ مجھے جو بہترین خوشبو میسر آتی وہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو لگاتی، یہاں تک کہ اس خوشبو کی چمک مجھ کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سر اور داڑھی میں نظر آتی۔

البتہ بھووں اور ابرو پر خوشبو لگانا آپ علیہ السلام سے ثابت نہیں ہے۔ تاہم اگر کسی کو لگانا ہوتو لگاسکتا ہے، لیکن اسے سنت نہ سمجھے۔


عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا قَالَتْ : کُنْتُ أُطَيِّبُ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَطْيَبِ مَا يَجِدُ حَتَّی أَجِدَ وَبِيصَ الطِّيبِ  فِي رَأْسِهِ وَلِحْيَتِهِ۔ (صحیح البخاري، حدیث نمبر : ۵۹۲۳)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی 
14 شوال المکرم 1441

حاملہ خواتین کا بیٹھ کر نماز پڑھنا


سوال :

مفتی صاحب! حاملہ خواتین بیٹھ کر نماز پڑھ سکتی ہیں؟ اور رکوع و سجدے اشارہ سے کرسکتی ہیں؟
(المستفتی : صغير احمد، جلگاؤں)
-------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : فرض، واجب اور سنتِ مؤکدہ نماز میں قیام کرنا ( یعنی کھڑے ہوکر نماز پڑھنا) فرض ہے، لہٰذا ان نمازوں میں اگر کوئی (چاہے مرد ہو یا عورت) بلا عذر قیام کو چھوڑ کر بیٹھ کر نماز پڑھتا ہے تو فرض کے چھوٹ جانے کی بنا پر اس کی نماز نہیں ہوگی، خلاصہ یہ ہوا کہ فرض، واجب اور سنتِ مؤکدہ نماز عورتوں کے لیے بھی بلا عذر بیٹھ کر پڑھنا جائز نہیں ہے، البتہ کوئی ایسا عذر (بیماری وغیرہ) ہو جس کی وجہ سے قیام (کھڑے ہونے) یا سجدہ کرنے پر قدرت نہ ہو تو پھر ان نمازوں کو بھی بیٹھ کر پڑھنے کی اجازت مردوں اور عورتوں دونوں کو ہے، نفل اور سنتِ غیر مؤکدہ نماز بلا عذر بھی بیٹھ کر پڑھنا مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے جائز ہے، البتہ نفل یا سنتِ غیر مؤکدہ نماز بلا عذر بیٹھ کر پڑھنے کی صورت میں ثواب آدھا ملے گا۔

معلوم ہوا کہ حاملہ خواتین اگر نماز میں قیام پر قادر نہ ہوں یعنی انہیں اتنی طاقت نہ ہو کہ وہ کھڑے ہوکر نماز پڑھ سکیں یا کھڑے ہوکر پڑھنے میں ان کی یا بچے کی صحت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوتو وہ بیٹھ کر نماز پڑھ سکتی ہیں اور اگر رکوع وسجدے پر بھی قادر نہ ہوں تو ان کے لیے اشارے سے نماز پڑھنا درست ہوگا۔


الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 444):
"(ومنها القيام) بحيث لو مد يديه لا ينال ركبتيه ومفروضة وواجبة ومسنونة ومندوبة بقدر القراءة فيه، فلو كبر قائما فركع ولم يقف صح لأن ما أتى به القيام إلى أن يبلغ الركوع يكفيه قنية (في فرض) وملحق به كنذر وسنة فجر في الأصح (لقادر عليه) وعلى السجود، فلو قدر عليه دون السجود ندب إيماؤه قاعدا، وكذا من يسيل جرحه لو سجد.

(قوله: وسنة فجر في الأصح) أما عن القول بوجوبها فظاهر، وأما على القول بسنيتها فمراعاة للقول بالوجوب. ونقل في مراقي الفلاح أن الأصح جوازها من قعود ط.

أقول: لكن في الحلية عند الكلام على صلاة التراويح لو صلى التراويح قاعدا بلا عذر، قيل لا تجوز قياسا على سنة الفجر فإن كلا منهما سنة مؤكدة وسنة الفجر لاتجوز قاعدا من غير عذر بإجماعهم كما هو رواية الحسن عن أبي حنيفة كما صرح به في الخلاصة فكذا التراويح، وقيل يجوز والقياس على سنة الفجر غير تام فإن التراويح دونها في التأكيد فلا تجوز التسوية بينهما في ذلك. قال قاضي خان وهو الصحيح. اهـ.

(قوله: لقادر عليه) فلو عجز عنه حقيقة وهو ظاهر أو حكما كما لو حصل له به ألم شديد أو خاف زيادة المرض وكالمسائل الآتية في قوله وقد يتحتم القعود إلخ فإنه يسقط، وقد يسقط مع القدرة عليه فيما لو عجز عن السجود كما اقتصر عليه الشارح تبعا للبحر. ويزاد مسألة أخرى وهي الصلاة في السفينة الجارية فإنه يصلي فيها قاعدا مع القدرة على القيام عند الإمام (قوله فلو قدر عليه) أي على القيام وحده أو مع الركوع كما في المنية.

(قوله:ندب إيماؤه قاعدا) أي لقربه من السجود، وجاز إيماؤه قائما كما في البحر. وأوجب الثاني زفر والأئمة الثلاثة لأن القيام ركن فلا يترك مع القدرة عليه. ولنا أن القيام وسيلة إلى السجود للخرور، والسجود أصل لأنه شرع عبادة بلا قيام كسجدة التلاوة والقيام لم يشرع عبادة وحده، حتى لو سجد لغير الله تعالى يكفر بخلاف القيام. وإذا عجز عن الأصل سقطت الوسيلة كالوضوء مع الصلاة والسعي مع الجمعة"۔
مستفاد : دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144007200309)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
14 شوال المکرم 1441 

جمعہ، 5 جون، 2020

خطبہ کے وقت نمازی کس طرح بیٹھے؟ ‏


سوال :

مفتی صاحب میرا سوال ہے کہ جمعہ کے خطبہ میں مقتدی کو کس طرح بیٹھنا چاہیے؟ اور مقتدی کی نظر امام پر رہے یا سجدے کی جگہ پر رہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد شاداب، مالیگاؤں)
------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : خطبہ بعینہٖ نماز نہیں ہے۔ اس لئے اس وقت نماز کی ہیئت اور کیفیت پر بیٹھنا ضروری نہیں۔ اور نہ ہی اس وقت بیٹھنے کی کوئی خاص ہیئت متعین کی گئی ہے، اصل مقصود ادب اور توجہ کے ساتھ بیٹھ کر خطبہ سننا ہے، اس لیے قبلہ رُخ یا امام کی طرف متوجہ ہوکر با ادب کسی بھی طریقے سے بیٹھنا جائز ہے، البتہ کسی ایسے طریقے پر بیٹھنا مکروہ ہے جس میں نیند آنے لگے یا سُستی ہونے لگے۔ چنانچہ بہتر یہ ہے کہ خطبہ کے دوران ایسے بیٹھے جیسے نماز کے تشہد میں بیٹھا جاتا ہے۔ لیکن نظر سجدہ کی جگہ نہیں، بلکہ اگر امام کے سامنے بیٹھا ہوتو امام کی طرف کرے اور اگر دائیں یا بائیں بیٹھا ہوتو قبلہ کی طرف رُخ کرکے بیٹھے۔


ويستحب للرجل أن يستقبل الخطيب بوجهه هذا إذا كان أمام الإمام، فإن كان عن يمين الإمام أو عن يساره قريباً من الإمام ينحرف إلى الإمام مستعداً للسماع، كذا في الخلاصة۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/١٤٧)

إذا شهد الرجل عند الخطبة إن شاء جلس محتبياً أو متربعاً أو كما تيسر؛ لأنه ليس بصلاة عملاً وحقيقة، كذا في المضمرات، ويستحب أن يقعد فيها كما يقعد في الصلاة۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/١٤٨)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
12 شوال المکرم 1441

جمعرات، 4 جون، 2020

نکاح کے بعد سلام، مصافحہ ومعانقہ کا حکم


سوال :

مفتی صاحب! نکاح کے بعد سلام، مصافحہ و معانقہ کا شرعی حکم کیا ہے؟ براہ کرم مدلل جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : راشد حسین، دھولیہ)
-------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نکاح کرنے والے کو بَارَكَ اللہُ لَكَ وَبَارَكَ عَلَيْكَ وَجَمَعَ بَيْنَكُمَا فِي خَيْرٍ
ترجمہ : اللہ تجھ کو برکت دے اور تجھ پر برکت نازل کرے اور تم دونوں کو بھلائی پر جمع رکھے۔

ان الفاظ کے ساتھ دعا دینا اورمبارکباد کہنا یہ تو جائز ہے بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے بھی ثابت ہے اس لئے اسے سنت کہا جائے گا۔ لیکن ہمارے یہاں نکاح ہوجانے کے بعد دولہا کھڑے ہوکر سلام کرتا ہے جو بعینہ سنت سے ثابت تو نہیں ہے، لیکن اسے الوداعی سلام پر محمول کرکے درست کہا جاسکتا ہے، نیز دولہے کو دعا دیتے وقت مصافحہ اور معانقہ کرنا بھی اگرچہ سنت نہیں ہے، لہٰذا اگر کوئی اسے سنت یا شریعت کا حصہ سمجھ کر نہ کرے تو اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے۔ البتہ اگر کوئی اسے شرعی حکم یا سنت سمجھ کر انجام دے تو بلاشبہ یہ بدعت کہلائے گا۔


عن عائشۃ رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہا قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہٰذا ما لیس منہ فہو رد۔ (صحیح البخاري، الصلح / باب إذا اصطلحوا علی صلح جور فالصلح مردود رقم : ۲۶۹۷)

عن العرباض بن ساریۃ رضي اللّٰہ عنہ قال : قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ذات یوم في خطبتہ…: إیاکم ومحدثات الأمور، فإن کل محدثۃ بدعۃ، وکل بدعۃ ضلالۃ۔ (سنن أبي داؤد ۲؍۶۳۵، سنن الترمذي ۲؍۹۶)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
11 شوال المکرم 1441

منگل، 2 جون، 2020

نماز میں عورتوں کی ہتھیلی کھلی رہنا


سوال :

محترم مفتی صاحب ! خواتین کے ہاتھ نیت باندھتے وقت اوڑھنی کے اندر ہی ہوتے ہیں اور رکوع میں بھی ہاتھ اندر ہی ہوتے ہیں، لیکن سجدے میں ہاتھ تھوڑا سا اوڑھنی کے باہر ہوجاتے ہیں تو کیا اس کی وجہ سے نماز پر کوئی اثر ہوگا؟ مدلل جواب مرحمت فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : مختار احمد، مالیگاؤں) 
--------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : عورتوں کی ہتھیلیاں نماز کی حالت میں ان کے لیے ستر نہیں ہیں جن کا چھپانا ضروری ہو، لہٰذا نماز کی حالت میں عورتوں کے لئے کپڑے سے باہر کھلا رکھنا جائز اور درست ہے، یہی راجح اور صحیح قول ہے۔ چنانچہ صورتِ مسئولہ میں اگر سجدہ کی حالت میں ہتھیلیاں کھل جائیں، تب بھی نماز پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔ البتہ کلائیاں کھولنا جائز نہیں ہے اس لیے کہ کلائیاں ستر ہیں۔ اگر کلائیوں کا چوتھائی حصہ تین تسبیحات کے بقدر کھلا رہ گیا تو نماز فاسد ہوجائے گی۔


وللحرۃ جمیع بدنہا خلا الوجہ، والکفین، والقدمین۔ وتحتہ في الشامیۃ: وفي مختلفات قاضي خاں وغیرہا، أنہ لیس بعورۃ وأیدہ في شرح المنیۃ بثلاثۃ أوجہ، وقال: فکان ہو الأصح، وإن کان غیر ظاہر الروایۃ۔ (تنویر الأبصار مع الشامي : ۲/۷۸)

ویمنع حتی انعقادہا کشف ربع عضو قدر أداء رکن بلا صنعہ۔ (درمختار) قال شارحہا : وذلک قدر ثلث تسبیحات الخ۔ قال ح: واعلم أن ہذا التفصیل فی الإنکشاف الحادث فی أثناء الصلوٰۃ، أما المقارن لابتدائہا فإنہ یمنع انعقادہا مطلقاً اتفاقاً بعد أن یکون المکشوف ربع العضو۔ (شامی : ۲؍۸۲)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
09 شوال المکرم 1441

سالگرہ منانے اور اس کی مبارکباد دینے کا حکم


سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ جنم دن، شادی کی سالگرہ وغیرہ منانا اور اس کی مبارکباد دینا شرعاً کیسا ہے؟ 
(المستفتی : فیضان احمد، مالیگاؤں) 
-------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : غیر قوموں کے مذہبی طور طریقوں کو اختیار کرنا یا ان کےخصوصی شعار کو اپنانا حرام ہے۔ اور ان کے دیگر رسوم وعادات کو اپنانا مکروہ ہے، جن میں Birthday اور Marriage Anniversary بھی شامل ہیں۔

جنم دن اور شادی کی سالگرہ منانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابۂ کرام اور سلف صالحین ؒ سے ثابت نہیں، یہ مغربی قوموں سے متاثر ہونے کا نتیجہ ہے۔ چنانچہ جس طرح سالگرہ منانا مکروہ ہے اسی طرح اس کی مبارکباد دینا بھی مکروہ و ممنوع ہوگا۔ کیونکہ مبارکباد دینے میں اس عمل کی تائید پائی جاتی ہے۔ لہٰذا مبارکباد دینے سے بھی احتراز کرنا ضروری ہے۔


وفی سنن ابی داؤد (۲۰۳/۲): عن ابن عمر قال قال رسول اﷲﷺ من تشبہ بقوم فھو منھم۔

وفی صحیح ابن حبان (۲۷۵/۱): عن ابی موسی قال المرأ مع من احب۔فقط 
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی
02 صفر المظفر 1441

پیر، 1 جون، 2020

فجر کی نماز نہ پڑھنے والے کا جمعہ کی امامت کرنا ‏


سوال :

محترم مفتی صاحب ! اگر کسی شخص نے فجر کی نماز باجماعت ادا نہیں کی یا خدانخواستہ قضا بھی نہیں کی اور اسی طرح جمعہ کی نماز پڑھا دی تو کیا نماز جمعہ ادا ہوجائے گی یا اس نماز کو دوہرانا پڑے گا؟ تفصیل سے جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : محمد دانش، مالیگاؤں) 
-------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : جس شخص نے فجر کی نماز باجماعت ترک کردی اور جمعہ کے وقت تک اسے قضا بھی نہیں کیا تو اس کی وجہ سے ایسا شخص بلاشبہ سخت گناہ گار ہوگا۔ لیکن اگر اس نے جمعہ کی نماز پڑھادی تو نماز ادا ہوجائے گی، اعادہ کی ضرورت نہیں۔ اس لیے کہ جمعہ یا کسی اور نماز کے صحیح ہونے کے لیے اس سے پہلی نماز کا ادا کرلینا شرط نہیں ہے۔ یہ مسئلہ صاحبِ ترتیب کے بارے میں ہے۔ جس کی تفصیل جاننے کے لیے ہمارا جواب "صاحبِ ترتیب اور اس کا حکم" بلاگ پر سرچ کرکے ملاحظہ فرمالیں۔


لأنہ لو ترک فجر یومہ و أدی باقي صلواتہ انقلبت صحیحۃ بعد طلوع الشمس۔ ( شامي : ۲/۵۳۲)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
09 شوال المکرم 1441