اس بلاگ پر موجود تمام جوابات، مضامین و مقالات حنفی مسلک اور علماء دیوبند کی تشریحات کی روشنی میں لکھے گئے ہیں۔
منگل، 30 جون، 2020
مسجد کی دوکان خالی کرنے کے لیے کرایہ دار کا رقم کا مطالبہ کرنا
پیر، 29 جون، 2020
مسجد کے کرایہ دار کا دوکان کسی دوسرے کو کرایہ پر دینا
اتوار، 28 جون، 2020
نمازی کی پیشانی پر سیاہ نشان کی شرعی حیثیت
جمعہ، 26 جون، 2020
نادِ علی نامی وظیفہ کا شرعی حکم
جمعرات، 25 جون، 2020
کسی کا وائی فائی ہیک کرکے استعمال کرنا
بدھ، 24 جون، 2020
ارطغرل ڈرامہ
منگل، 23 جون، 2020
عورت کے ناقص العقل ہونے کا مطلب
ہفتہ، 20 جون، 2020
والدہ کی میراث سے متعلق چند سوالات
والدہ کی میراث سے متعلق چند سوالات
سوال :
سوال نمبر 1 : والد کے انتقال کے بعد بہن، بھائی اور ماں کے حصے میں جو ترکے آئے ہیں، اگر ماں اپنی حیات ہی میں چاہے تو کیا اپنا ترکہ کسی ایک کو دے سکتی ہے؟
سوال نمبر 2 : ماں کے انتقال کے بعد وہ ترکہ بہن بھائیوں میں کس طرح تقسیم ہوگا؟
سوال نمبر 3 : اکثر دیکھا گیا ہے کہ جس بھائی یا بہن کے پاس ماں کی بقیہ زندگی گزرتی ہے وہ ماں کے انتقال کے بعد ماں کے حصے پر اپنا حق جتاتا ہے، کیا یہ مناسب ہے؟
سوال نمبر 4 : ماں، کیا اسی کو اپنا ترکہ مرنے سے پہلے دے سکتی ہے جس کے پاس وہ اپنی بقیہ زندگی گزارتی ہے؟ کیا یہ بقیہ بہن بھائیوں کے ساتھ انصاف ہو سکتا ہے؟
(المستفتی : عمران الحسن، مالیگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : آدمی کی وفات کے بعد اس کے چھوڑے ہوئے
مال کو ترکہ کہا جاتا ہے۔ اور زندگی میں وارثین کے درمیان جائداد تقسیم کردینے کو شریعت
کی اصطلاح میں ہبہ کہتے ہیں، دونوں کے احکام الگ الگ ہیں۔
صورت مسئولہ میں والدہ اگر خود اپنی جائداد برضا ورغبت اپنے وارثین میں تقسیم کرنا چاہتی ہیں تو یہ ہبہ ہوگا۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنے لئے جتنا مال رکھنا چاہے رکھ لیں، بقیہ مال تمام اولاد کے درمیان برابر برابر تقسیم کردیں۔ پورا مال ایک بیٹے کو دے دینا شرعاً پسندیدہ نہیں ہے، اس لئے کہ یہ انصاف کے خلاف ہے۔ (1)
البتہ کسی ضرورت کے پیش نظر جب کہ کسی وارث کو نقصان پہنچانا مقصود
نہ ہوتو امام محمد رحمہ اللہ کے قول کے مطابق حسبِ میراث تقسیم کرسکتے ہیں، یعنی :
ہر لڑکے کو دو لڑکیوں کے برابر دیں گے۔ لیکن ایسا کوئی طریقہ اختیار نہ کریں جس میں دیگر
اولاد کے حق میں اضرار کا قصد یا اضرار کا واضح پہلو پایا جاتا ہو۔(2)
2) والدہ کے انتقال کے بعد اس کا مال ترکہ بن جائے گا۔ اور یہ مال اولاد درمیان للذکر مثل حظ الانثیین (ایک بیٹے کو دو بیٹیوں کے برابر) کے تحت تقسیم ہوگا۔ (3)
3) والدین کی خدمت کرنا بڑی خوش نصیبی اور دنیا و آخرت میں سرخروئی کا ذریعہ ہے، اور اگر والدین کے پاس مال نہ ہوتو ان کی ضروریات پر خرچ کرنا اولاد پر واجب ہے۔ خرچ نہ کرنے کی صورت میں اولاد سخت گناہ گار ہوگی۔ صورتِ مسئولہ میں والدہ کی خدمت کرنے والے لڑکے یا لڑکی کا والدہ کے پورے مال پر حصہ جتانا شرعاً جائز نہیں ہے۔ اس لئے کہ اس مال میں تمام اولاد کا حصہ ہے۔ (4)
4) پورا مال خدمت کرنے والی اولاد کو دے دینا اور بقیہ تمام کو محروم کردینا شرعاً پسندیدہ نہیں ہے۔ البتہ خدمت کرنے والی اولاد کو بقیہ سے کچھ زیادہ دینے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
1) ولو وھب رجل لأولادہٖ في الصحۃ سوّی بینھم ھو المختار۔ (الفتاویٰ
الہندیۃ ۴؍۳۹۱)
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
11 ربیع الاول 1441
نماز میں سورۂ فاتحہ کی ١یک آیت چھوٹ جائے؟
سوال :
مفتی صاحب ! سورہ فاتحہ نماز میں واجب ہے تو کیا پوری سورہ واجب
ہے یا کچھ آیات؟ در اصل عشاء میں ایک آیت چھوٹ گئی ایسا لگا تو میں نے سجدہ سہو کر
لیا تو کیا صحیح ہے؟
(المستفتی : مولانا اشفاق، پونے)
-------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : فرض نماز کی پہلی دو رکعتوں میں اور سنن و نوافل اور وتر کی ہر رکعت میں مکمل سورہ فاتحہ پڑھنا واجب ہے۔ ایک آیت بلکہ کوئی ایک کلمہ بھی چھوٹ جائے تو سجدۂ سہو واجب ہوگا۔ سجدۂ سہو کرلینے سے نماز صحیح ہوجائے گی۔
صورتِ مسئولہ میں آپ سے سورہ فاتحہ کی کوئی آیت چھوٹ گئی تھی تو
آپ کے سجدۂ سہو کرلینے سے نماز درست ہوگئی۔
فیسجد للسہو بترک أکثرہا لا أقلہا؛ لکن في المجتبیٰ یسجد بترک اٰیۃ منہا وہو أولیٰ (درمختار) وفي الشامیۃ: وفیہ نظر؛ لأن الظاہر أن ما في المجتبیٰ مبني علی قول الإمام بأنہا بتمامہا واجبۃ وذکر الاٰیۃ تمثیل لا تقیید؛ إذ بترک شيء منہا اٰیۃ أو أقل وہو حرفاً لا یکون اٰتیاً بکلہا الذي ہو الواجب۔ (شامي، ۲؍۱۴۹، زکریا)
وإن ترکہا في الأخریین لا یجب إن کان في الفرض، وإن کان في النفل
أو الوتر وجب علیہ لوجوبہا في الکل۔ (البحر الرائق، ۲؍۹۴، رشیدیہ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
12 ربیع الاول 1441