ہفتہ، 20 جون، 2020

نمازِ کسوف کی ہر رکعت میں دو رکوع کرنے کا حکم


سوال :

مفتی صاحب! واٹس اپ پر ایک پوسٹ نظر سے گذری جس میں حدیث شریف کے حوالے سے لکھا ہے کہ نمازِ کسوف میں دو مرتبہ رکوع کیا جائے گا۔ آپ براہ کرم وضاحت کے ساتھ یہ مسئلہ سمجھا دیں کہ حنفی مسلک میں دو رکوع کرنا صحیح ہے یا نہیں؟ 
(المستفتی : انصاری عبیدالرحمن، مالیگاؤں)
--------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : دو رکوع کے ساتھ صلاۃِ کسوف حضرت امام شافعیؒ کے نزدیک تو جائز ہے، مگر حضرت امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک دو رکوع کرنا جائز نہیں ہے۔ اور حدیث شریف میں دو، تین، چار رکوع کی جو بات آئی ہے اس کا مدار اس پر ہے کہ حضور ﷺ نے اس نماز کے اندر لمبا رکوع فرمایا تھا، جس کی وجہ سے صف اول کے نمازیوں نے یہ سوچا کہ شاید آپ ﷺ نے رکوع سے سر اٹھا لیا ہے، چنانچہ انہوں نے سر اٹھا کر دیکھا تو پیچھے کی صف والوں نے بھی سر اٹھا لیا، اس کے بعد جب صف اول والوں نے دیکھا کہ حضور ﷺ رکوع ہی میں ہیں تو وہ لوگ دوبارہ رکوع میں چلے گئے اور پیچھے والوں نے یہ سمجھا کہ آپ ﷺ نے دو رکوع کئے ہیں اور اسی خیال کے مطابق روایت بیان کردی، اسی وجہ سے دو رکوع یا چار رکوع والی روایت صرف صحابیہ عورتیں یا اصاغر صحابہ نقل کرتے ہیں جو پیچھے تھے، جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ اور حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا ہیں جو کہ بچوں اور عورتوں کی صفوں میں تھے اور ان کی صفیں پیچھے ہوتی تھیں، انہوں نے اگلی صف والوں کو دیکھ کر یہ سمجھا کہ دو رکوع کئے ہیں، حالانکہ حقیقت میں ایک رکوع کیا تھا، اسی وجہ سے اکابر صحابہ رضی اﷲ عنہم صرف ایک رکوع کی روایت بیان کرتے ہیں۔


الحنفیۃ قالوا : صلاۃ الکسوف لا تصح برکوعین، وقیامین بل لابد من قیام واحد ورکوع واحد، کہیئۃ النفل بلا فرق۔ (الفقہ علی المذاہب الأربعۃ، کتاب الصلاۃ، سنن صلاۃ الکسوف، دارالفکر ۱/ ۳۶۴)

نحمل ما رویتم علی أن النبي ﷺ رکع فأطال الرکوع کثیرا زیادۃ علی قدر رکوع سائر الصلوات لما روی أنہ عرض علیہ الجنۃ والنار في تلک الصلاۃ، فرفع أہل الصف الأول رؤوسہم ظنا منہم أنہ صلی اﷲ علیہ وسلم رفع رأسہ من الرکوع، فرفع من خلفہم، فلما رأی أہل الصف الأول رسول اﷲ ﷺ راکعا رکعوا، ورکع من خلفہم، فلما رفع رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم رأسہ من الرکوع رفع القوم رؤوسہم، فمن کان خلف الصف الأول ظنوا أنہ رکع رکوعین، فرووا علی حسب ما وقع عندہم ، وعلم الصف الأول حقیقۃ الأمر، فنقلوا علی حسب ما علموہ، ومثل ہذا الاشباہ قد یقع لمن کان في آخر الصفوف، وعائشۃؓ کانت واقفۃ في خیر صفوف النساء، وابن عباس في صف الصبیان في ذلک الوقت، فنقلا کما وقع عندہما۔ (بدائع الصنائع، کتاب الصلاۃ، فصل في صلاۃ الکسوف وکیفیتہا، جدید زکریا ۱/ ۶۲۸، کراچی ۱/ ۲۸۱، التقریر للترمذي، باب صلاۃ الکسوف، ص: ۱۹/بحوالہ فتاوی قاسمیہ)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
27 شوال المکرم 1441

3 تبصرے: