اتوار، 7 جون، 2020

حاملہ خواتین کا بیٹھ کر نماز پڑھنا


سوال :

مفتی صاحب! حاملہ خواتین بیٹھ کر نماز پڑھ سکتی ہیں؟ اور رکوع و سجدے اشارہ سے کرسکتی ہیں؟
(المستفتی : صغير احمد، جلگاؤں)
-------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : فرض، واجب اور سنتِ مؤکدہ نماز میں قیام کرنا ( یعنی کھڑے ہوکر نماز پڑھنا) فرض ہے، لہٰذا ان نمازوں میں اگر کوئی (چاہے مرد ہو یا عورت) بلا عذر قیام کو چھوڑ کر بیٹھ کر نماز پڑھتا ہے تو فرض کے چھوٹ جانے کی بنا پر اس کی نماز نہیں ہوگی، خلاصہ یہ ہوا کہ فرض، واجب اور سنتِ مؤکدہ نماز عورتوں کے لیے بھی بلا عذر بیٹھ کر پڑھنا جائز نہیں ہے، البتہ کوئی ایسا عذر (بیماری وغیرہ) ہو جس کی وجہ سے قیام (کھڑے ہونے) یا سجدہ کرنے پر قدرت نہ ہو تو پھر ان نمازوں کو بھی بیٹھ کر پڑھنے کی اجازت مردوں اور عورتوں دونوں کو ہے، نفل اور سنتِ غیر مؤکدہ نماز بلا عذر بھی بیٹھ کر پڑھنا مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے جائز ہے، البتہ نفل یا سنتِ غیر مؤکدہ نماز بلا عذر بیٹھ کر پڑھنے کی صورت میں ثواب آدھا ملے گا۔

معلوم ہوا کہ حاملہ خواتین اگر نماز میں قیام پر قادر نہ ہوں یعنی انہیں اتنی طاقت نہ ہو کہ وہ کھڑے ہوکر نماز پڑھ سکیں یا کھڑے ہوکر پڑھنے میں ان کی یا بچے کی صحت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوتو وہ بیٹھ کر نماز پڑھ سکتی ہیں اور اگر رکوع وسجدے پر بھی قادر نہ ہوں تو ان کے لیے اشارے سے نماز پڑھنا درست ہوگا۔


الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 444):
"(ومنها القيام) بحيث لو مد يديه لا ينال ركبتيه ومفروضة وواجبة ومسنونة ومندوبة بقدر القراءة فيه، فلو كبر قائما فركع ولم يقف صح لأن ما أتى به القيام إلى أن يبلغ الركوع يكفيه قنية (في فرض) وملحق به كنذر وسنة فجر في الأصح (لقادر عليه) وعلى السجود، فلو قدر عليه دون السجود ندب إيماؤه قاعدا، وكذا من يسيل جرحه لو سجد.

(قوله: وسنة فجر في الأصح) أما عن القول بوجوبها فظاهر، وأما على القول بسنيتها فمراعاة للقول بالوجوب. ونقل في مراقي الفلاح أن الأصح جوازها من قعود ط.

أقول: لكن في الحلية عند الكلام على صلاة التراويح لو صلى التراويح قاعدا بلا عذر، قيل لا تجوز قياسا على سنة الفجر فإن كلا منهما سنة مؤكدة وسنة الفجر لاتجوز قاعدا من غير عذر بإجماعهم كما هو رواية الحسن عن أبي حنيفة كما صرح به في الخلاصة فكذا التراويح، وقيل يجوز والقياس على سنة الفجر غير تام فإن التراويح دونها في التأكيد فلا تجوز التسوية بينهما في ذلك. قال قاضي خان وهو الصحيح. اهـ.

(قوله: لقادر عليه) فلو عجز عنه حقيقة وهو ظاهر أو حكما كما لو حصل له به ألم شديد أو خاف زيادة المرض وكالمسائل الآتية في قوله وقد يتحتم القعود إلخ فإنه يسقط، وقد يسقط مع القدرة عليه فيما لو عجز عن السجود كما اقتصر عليه الشارح تبعا للبحر. ويزاد مسألة أخرى وهي الصلاة في السفينة الجارية فإنه يصلي فيها قاعدا مع القدرة على القيام عند الإمام (قوله فلو قدر عليه) أي على القيام وحده أو مع الركوع كما في المنية.

(قوله:ندب إيماؤه قاعدا) أي لقربه من السجود، وجاز إيماؤه قائما كما في البحر. وأوجب الثاني زفر والأئمة الثلاثة لأن القيام ركن فلا يترك مع القدرة عليه. ولنا أن القيام وسيلة إلى السجود للخرور، والسجود أصل لأنه شرع عبادة بلا قيام كسجدة التلاوة والقيام لم يشرع عبادة وحده، حتى لو سجد لغير الله تعالى يكفر بخلاف القيام. وإذا عجز عن الأصل سقطت الوسيلة كالوضوء مع الصلاة والسعي مع الجمعة"۔
مستفاد : دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144007200309)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
14 شوال المکرم 1441 

5 تبصرے: