پیر، 29 جون، 2020

مسجد کے کرایہ دار کا دوکان کسی دوسرے کو کرایہ پر دینا



سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ مسجد کے بعض کرایہ دار کسی دوسرے کو شاپنگ سینٹر کرایہ سے دے بھی دیتے ہیں یعنی پوٹ بھاڑے کری کی صورت میں دیتے ہیں، مطلب یہ لوگ مسجد کو کرایہ وہی پرانا دینگے جو باپ دادا کے دور سے دیتے آئے ہیں (مثلاً 300 سے 500 روپے ماہانہ) اور سامنے والے سے آج کی قیمت وصول کرینگے، (یعنی کہ کم از کم 3000 سے 4500 ہزار ماہانہ تک) کیا انکا ایسا کرنا، اور یہ رقم انکے لئے جائز ہے؟
(المستفتی : عمران الحسن، مالیگاؤں)
-------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں اگر ان لوگوں نے مسجد کے شاپنگ سینٹر میں مزید کوئی اضافہ اور تصرُّف نہیں کیا ہے، بلکہ جوں  کا  توں اصل کرایہ سے زیادہ کرایہ مثلاً مسجد کو پانچ سو کرایہ دے کر خود اسے چار ہزار کرایہ پر دیا جائے تو اُن کے لئے اصل  کرایہ یعنی پانچ سو سے زیادہ رقم حلال نہیں ہے، اس زائد رقم  کا  دوسرے کرایہ دار کو واپس کرنا ضروری ہے۔

البتہ اگر ان لوگوں نے اپنی رقم سے شاپنگ سینٹر میں کوئی اضافہ کیا، مثلاً اس کی تزئین کاری یعنی رنگ وروغن کا کام کیا ہو یا الماریاں لگوادیں، پانی  کا موٹر لگوادیا جس سے اس کی حیثیت بڑھ گئی، تو اب زائد  کرایہ  لینے کی گنجائش ہوگی۔

نوٹ : متولیانِ مسجد کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسجد کی املاک کی حفاظت کریں اور اس بات کی کوشش کریں کہ مسجد کی ملکیت کی دوکانیں اور مکان زیادہ سے زیادہ نفع بخش ثابت ہوں، لہٰذا جب کسی کو یہ جگہیں کرایہ پر دی جائے تو اس کا کرایہ موجودہ حالات کے اعتبار سے طے کیا جائے، اور حالات کے اعتبار سے اس کے کرایہ میں اضافہ بھی کیا جاتا رہے، اس سلسلے میں غفلت کرنا یا کرایہ داروں سے تعلقات کی وجہ قصداً کرایہ کم رکھنا اور حالات کے اعتبار سے اس میں اضافہ نہ کرنا متولیان کے لئے بروز حشر گرفت کا سبب بنے گا۔ شہر میں اس سلسلے میں بڑی غفلت پائی جاتی ہے، لہٰذا اس پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ نیز کرایہ داروں کی بھی ذمہ داری ہے کہ اگر کرایہ داری میں کوئی معاہدہ نہیں ہوا ہے تو موجودہ حالات کے اعتبار سے کرایہ ادا کریں، یا پھر وہ جگہ واپس کردیں، ورنہ مسجد کی املاک کو نقصان پہنچانے کی وجہ سے دنیا وآخرت میں خود بھی خسارہ اٹھانے کے لیے تیار رہیں۔


أخبرنا الثوري، وسألہ عن الرجل یستأجر ذٰلک، ثم یواجرہ بأکثر من ذٰلک، فقال: أخبرني عبیدۃ عن إبراہیم وحصین عن الشعبي، ورجل عن مجاہد: أنہم کانوا یکرہونہ إلا أن یحدث فیہ عملا۔ (المصنف لعبد الرزاق / البیوع ۸؍۲۲۲ رقم: ۱۴۹۷۱)

ولہ السکنی بنفسہ وإسکان غیرہ بإجارۃ وغیرہا (تنویر الأبصار) ولو آجر بأکثر تصدق بالفضل إلا في مسألتین: إذا آجرہا بخلاف الجنس أو أصلح فیہا شیئًا۔ (الدر المختار) وفي الشامي: بأن جصصہا، أو فعل فیہا مسناۃ، وکذا کل عمل قائم؛ لأن الزیادۃ بمقابلۃ ما زاد من عندہ حملًا لأمرہ علی الصلاح۔ (شامي / باب ما یجوز من الإجارۃ وما یکون خلافًا فیہا الخ ۹؍۳۸ زکریا)

وإذا استاجر داراً وقبضہا، ثم آجرہا، فإنہ یجوز إن أجرہا بمثل ما استأجرہا، أو أقل وإن آجرہا بأکثر مما استأجرہا، فہي جائزۃ أیضًا إلا أنہ إن کانت الأجرۃ الثانیۃ من جنس الأجرۃ الأولی، فإن الزیادۃ لایطیب ویتصدق بہا، ولو زاد في الدار زیادۃ کما لووتد فــیہا وتداً أو حفر فیہا بئراً أو طینا أو أصلح أبوابہا، أو شیئًا من حوائطہا طابت لہ الزیادۃ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الإجارۃ / الباب التاسع في إجارۃ المستأجر ۴؍۴۲۵ زکریا)
مستفاد : فتاویٰ محمودیہ ۱۶؍۶۰۴-۶۱۰ ڈابھیل، بحوالہ کتاب النوازل)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
07 ذی القعدہ 1441

2 تبصرے: