ہفتہ، 13 جون، 2020

برہنہ وضو اور غسل کرنے کا حکم



سوال :

محترم مفتی صاحب! کیا غسل خانہ میں مکمل طور پر برہنہ غسل کرسکتے ہیں؟ یا ستر ڈھک کر غسل کرنا ضروری ہے؟ برہنہ حالت میں وضو کرلیا گیا تو اس کا کیا حکم ہوگا؟ مدلل جواب ارسال فرمائیں عین نوازش ہوگی۔
(المستفتی : محمد فاروق، مالیگاؤں) 
--------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : ایسی جگہیں جہاں کسی کی نظر پڑنے کا اندیشہ نہ ہو وہاں برہنہ غسل کرنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں۔ آج کل غسل خانے ایسے ہی ہوتے ہیں جن میں بے پردگی کا بالکل بھی اندیشہ نہیں ہوتا۔ لہٰذا ان میں مکمل برہنہ غسل کرنا بلاکراہت جائز اور درست ہے، ستر کا ڈھکنا ضروری نہیں۔ کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ایوب علیہ السلام کے برہنہ نہانے کی شہادت صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ (مستفاد: احسن الفتاوی ۲/ ۳۱، فتاوی محمودیہ ڈابھیل ۵/ ۹۲، محمودیہ میرٹھ ۸/ ۱۷۵، فتاوی عثمانی ۱/ ۳۴۶، آپ کے مسائل اور ان کاحل ۳/ ۱۱٩) 

غسل سے پہلے وضو کرلینا مسنون ہے، چنانچہ جب پہلے وضو کیا جائے گا تو ظاہر ہے آدمی برہنہ ہی رہے گا۔جس سے معلوم ہوا کہ برہنہ ہونے سے وضو اور غسل پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ عوامی غلط فہمی ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔


عن أبي ہریرۃ رضي اللہ عنہ عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال : بینا أیوب یغتسل عریانا، فخر علیہ جراد من ذہب، فجعل أیوب یحتثی في ثوبہ، فناداہ ربہ یا أیوب أ لم أکن أغنیتک عما تری؟ قال : بلی وعزتک ولکن لاغنی بي عن برکتک۔ (بخاري، باب من اغتسل عریانا، النسخۃ الہندیۃ ۱/ ۴۲، رقم: ۲۷۹)

عن أبي ہریرۃ رضي اللہ عنہ عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: کانت بنو إسرائیل یغتسلون عراۃ، ینظر بعضہم إلی بعض، وکان موسیٰ علیہ السلام یغتسل وحدہ، فقالوا: و اللہ ما یمنع موسیٰ أن یغتسل معنا إلا أنہ آدر، فذہب مرۃ یغتسل فوضع ثوبہ علی حجر، ففر الحجر بثوبہ، فخرج موسیٰ في أثرہ یقول: ثوبي یا حجر ثوبي یا حجر، حتی نظرت بنو إسرائیل إلی موسیٰ، فقالوا: و اللہ ما بموسیٰ من بأس، وأخذ ثوبہ، فطفق بالحجر ضربا۔ (بخاري شریف، باب من اغتسل عریانا، النسخۃ الہندیۃ ۱/ ۴۲، رقم: ۲۷۸)

وقال بہز بن حکیم عن أبیہ عن جدہ عن النبي ﷺ: اللہ أحق أن یستحیي منہ من الناس۔ إن ظاہر حدیث بہز یدل علی أن التعری في الخلوۃ غیر جائز مطلقا، لکن استدل المصنف علی جوازہ في الغسل بقصۃ موسی وأیوب علیہما السلام۔ (فتح الباري، کتاب الغسل، باب من اغتسل عریانا الخ، مکتبہ أشرفیہ ۱/ ۵۰۷، ۵۰۸، رقم: ۲۷۸، دارالفکر بیروت ۱/ ۳۸۶، بحوالہ فتاوی قاسمیہ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
20 شوال المکرم 1441

21 تبصرے:

  1. جزاكم اللّٰہ خيراً و احسن الجزاء

    جواب دیںحذف کریں
  2. برہنہ ہونے پر وضو ٹوٹنا یہ اغلاط العوام سے ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. Allah apke ilm me amal me taraqi ata farmae.

    جواب دیںحذف کریں
  4. ما شا اللہ
    اللہ تبارک و تعالٰی ہم پر علماء کا سایہ ہمیشہ ہمیش اسی طرح مرحمت فرمائے اور آپ حضرت کو بھی اسی طرح ہماری رہنمائی کرنے کی توفیق عطا فرمائے ...

    جواب دیںحذف کریں
  5. ما شا اللہ
    اللہ تبارک و تعالٰی ہم پر علماء کا سایہ ہمیشہ ہمیش اسی طرح مرحمت فرمائے اور آپ حضرت کو بھی اسی طرح ہماری رہنمائی کرنے کی توفیق عطا فرمائے ...

    آمین

    جواب دیںحذف کریں
  6. ما شا اللہ
    اللہ تبارک و تعالٰی ہم پر علماء کا سایہ ہمیشہ ہمیش اسی طرح مرحمت فرمائے اور آپ حضرت کو بھی اسی طرح ہماری رہنمائی کرنے کی توفیق عطا فرمائے ...

    آمین

    جواب دیںحذف کریں
  7. Jazakallah! Allah aapko jaza e khair ata farmaye. bahut badi galat femhi door ho gai. masha allah.alhamdulillah.

    جواب دیںحذف کریں
  8. کیا کھلے آسمان تلے برہنہ حالت میں غسل کیا جا سکتا ہے۔جیسے ندی،تالاب وغیرہ میں۔

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. بھائی مفتی صاحب اس بات کی وضاحت پہلے ہی کر چکے ہیں.... ایسی جگہ پر مکمل برہنہ ہو کر غسل کر سکتے ہو جہاں کسی کی نظر آپ پر نہ پڑے...... ندی نالے میں اگر کوئی آپ کو دیکھ رہا ہو تو قطعی برہنہ ہو کر غسل نہیں کر سکتے.... صرف غسل خانے میں مکمل طور پر برہنہ ہو کر غسل کر سکتے ہیں کیونکہ وہاں آ کو کوئی نہیں دیکھ سکتا

      حذف کریں