ہفتہ، 20 جون، 2020

والدہ کی میراث سے متعلق چند سوالات

والدہ کی میراث سے متعلق چند سوالات

سوال :

سوال نمبر 1 : والد کے انتقال کے بعد بہن، بھائی اور ماں کے حصے میں جو ترکے آئے ہیں، اگر ماں اپنی حیات ہی میں چاہے تو کیا اپنا ترکہ کسی ایک کو دے سکتی ہے؟

سوال نمبر 2 : ماں کے انتقال کے بعد وہ ترکہ بہن بھائیوں میں کس طرح تقسیم ہوگا؟

سوال نمبر 3 : اکثر دیکھا گیا ہے کہ جس بھائی یا بہن کے پاس ماں کی بقیہ زندگی گزرتی ہے وہ ماں کے انتقال کے بعد ماں کے حصے پر اپنا حق جتاتا ہے، کیا یہ مناسب ہے؟

سوال نمبر 4 : ماں، کیا اسی کو اپنا ترکہ مرنے سے پہلے دے سکتی ہے جس کے پاس وہ اپنی بقیہ زندگی گزارتی ہے؟ کیا یہ بقیہ بہن بھائیوں کے ساتھ انصاف ہو سکتا ہے؟

(المستفتی : عمران الحسن، مالیگاؤں)

----------------------------------

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب وباللہ التوفيق : آدمی کی وفات کے بعد اس کے چھوڑے ہوئے مال کو ترکہ کہا جاتا ہے۔ اور زندگی میں وارثین کے درمیان جائداد تقسیم کردینے کو شریعت کی اصطلاح میں ہبہ کہتے ہیں، دونوں کے احکام الگ الگ ہیں۔

صورت مسئولہ میں والدہ اگر خود اپنی جائداد برضا ورغبت اپنے وارثین میں تقسیم کرنا چاہتی ہیں تو یہ ہبہ ہوگا۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنے لئے جتنا مال رکھنا چاہے رکھ لیں، بقیہ مال تمام اولاد کے درمیان برابر برابر تقسیم کردیں۔ پورا مال ایک بیٹے کو دے دینا شرعاً پسندیدہ نہیں ہے، اس لئے کہ یہ انصاف کے خلاف ہے۔ (1)

البتہ کسی ضرورت کے پیش نظر جب کہ کسی وارث کو نقصان پہنچانا مقصود نہ ہوتو امام محمد رحمہ اللہ کے قول کے مطابق حسبِ میراث تقسیم کرسکتے ہیں، یعنی : ہر لڑکے کو دو لڑکیوں کے برابر دیں گے۔ لیکن ایسا کوئی طریقہ اختیار نہ کریں جس  میں  دیگر اولاد کے حق میں اضرار کا قصد یا اضرار کا واضح پہلو پایا جاتا ہو۔(2)

2) والدہ کے انتقال کے بعد اس کا مال ترکہ بن جائے گا۔ اور یہ مال اولاد درمیان للذکر مثل حظ الانثیین (ایک بیٹے کو دو بیٹیوں کے برابر) کے تحت تقسیم ہوگا۔ (3)

3) والدین کی خدمت کرنا بڑی خوش نصیبی اور دنیا و آخرت میں سرخروئی کا ذریعہ ہے، اور اگر والدین کے پاس مال نہ ہوتو ان کی ضروریات پر خرچ کرنا اولاد پر واجب ہے۔ خرچ نہ کرنے کی صورت میں اولاد سخت گناہ گار ہوگی۔ صورتِ مسئولہ میں والدہ کی خدمت کرنے والے لڑکے یا لڑکی کا والدہ کے پورے مال پر حصہ جتانا شرعاً جائز نہیں ہے۔ اس لئے کہ اس مال میں تمام اولاد کا حصہ ہے۔ (4)

4) پورا مال خدمت کرنے والی اولاد کو دے دینا اور بقیہ تمام کو محروم کردینا شرعاً پسندیدہ نہیں ہے۔ البتہ خدمت کرنے والی اولاد کو بقیہ سے کچھ زیادہ دینے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔


1) ولو وھب رجل لأولادہٖ في الصحۃ سوّی بینھم ھو المختار۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۴؍۳۹۱)

 وفي الخلاصۃ: المختار التسویۃ بین الذکر والأنثیٰ في الہبۃ، ولو کان ولدہ فاسقًا۔ (البحر الرائق / کتاب الہبۃ، ۷؍۴۹۰)فقط

 2) حاشیہ فتاوی دارالعلوم دیوبند، ۱۷: ۵۰۸، تکملہ فتح الملہم ۲: ۶۸، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت وغیرہ)

 3) قال اللّٰہ تعالیٰ : یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْ اَوْلَادِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ، فَاِنْ کُنَّ نِسَآئً فَوْقَ اثْنَتَیْنِ فَلَہُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَکَ، وَاِنْ کَانَتْ وَاحِدَۃً فَلَہَا النِّصْفُ۔ (سورۃ النساء، جزء آیت : ۱۱)

 4) الرجل یأکل من مال ولدہ أي إذا احتاج إلیہ وفي ہامشہ یجوز عند أحمد مطلقًا․․․ وخالفہ الأئمة الثلثة وقالوا لا یجوز إلا أن یحتاج فیأخذ بقدر حاجتہ۔ (بذ ل المجہود، ۴/۲۹۵)فقط

واللہ تعالٰی اعلم

محمد عامر عثمانی ملی

11 ربیع الاول 1441

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں