بدھ، 24 جون، 2020

ارطغرل ڈرامہ ‏

مفتی طارق مسعود صاحب سے چند سوالات

✍️ محمد عامرعثمانی ملی 

       
           حضرت مولانا مفتی طارق مسعود صاحب دامت برکاتہم ایک جید عالم دین ہیں، بندہ ذاتی طور پر انہیں بہت پسند کرتا ہے۔ اور ان کے بیانات سننے کی لوگوں کو ترغیب بھی دیتا ہے۔ لیکن دو چار مسائل میں بندے کو ان سے اختلاف بھی ہے، ان میں ایک ترکی ڈرامہ ارطغرل ہے۔ اور اہل علم کے یہاں یہ بات مشہور ہے کہ جہاں اپنے بڑوں کی کسی بات پر کوئی اشکال ہو ان کے مقام ومرتبہ کا لحاظ کرتے ہوئے ان سے سوالات کرکے تشفی کرلینا چاہیے۔


22 جون کے بیان میں آپ نے فرمایا کہ ارطغرل ڈرامہ سے متاثر ہوکر ایک شخص نے آپ کو تلوار ہدیہ کی، مجھے بتائیں پاکستان جیسے مسلم اکثریتی ملک میں اس تلوار کا کیا ہوگا؟ کس کافر کو اس تلوار سے واصل جہنم کیا جائے گا؟ اور کیا اب جنگیں تلوار سے لڑی جائیں گی؟ موجودہ حالات میں تلوار اور گھوڑوں کا کیا فائدہ ہے؟


آپ کہہ رہے ہیں کہ میں ان لوگوں کو ترغیب نہیں دے رہا ہوں جو ڈرامہ نہیں دیکھتے، لیکن آپ فضائل اس طرح سنا رہے ہیں کہ کبھی ڈرامہ نہ دیکھنے والا بھی یہ ڈرامہ دیکھ کر ہی رہے گا۔ اور کیوں نہ دیکھے جب یہ ڈرامہ دیکھ کر جذبہ جہاد جو پیدا ہونے والا ہے، کیونکہ آپ کے بیان سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ اس ڈرامہ سے انقلاب آرہا ہے اور یہی ڈرامہ اب لوگوں میں جذبہ ایمان اور جذبہ جہاد پیدا کرے گا۔ ورنہ اب تک تو ساری دنیا کے مسلمان اس جذبہ سے عاری زندگی گزار رہے تھے۔ علماء حق کے ایمان افروز بیانات اور راتوں کو جاگ کر امت کے غم میں گھُل گھُل کر لکھی جانے والی فکر انگیز کتابوں کی اب کوئی ضرورت نہیں رہی۔


اس ڈرامہ کے دیکھنے والوں سے متعلق ہم نے جو جائزہ لیا ہے اس سے یہی بات کھُل کر سامنے آرہی ہے کہ ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کی فلمیں دیکھنے والے اس ڈرامہ کو جائز بلکہ ثواب سمجھ کر دیکھ رہے ہیں، اور جنہوں نے اب تک کوئی ڈرامہ نہیں دیکھا ہے وہ بھی دھڑلے سے دیکھ رہے ہیں، خواہ اسے گناہ ہی سمجھ رہے ہو‌ں، لیکن گناہ کا اس طرح سرعام ارتکاب انتہائی تشویشناک ہے۔ اس کی میوزک موبائل فون کی رنگ ٹون پر ایسے لگائی جارہی ہے جیسے یہ کوئی اسلامی ترانہ ہو، لاک ڈاؤن کے فرصت کے ایام اور رمضان المبارک کے قیمتی اوقات لوگوں نے اسی میں ضائع کیے ہیں، اور ان سب کو کہیں نہ کہیں آپ جیسے علماء کرام کے بیانات اور مضامین سےتقویت مل رہی ہے، کیونکہ ہم نے اس بات کا اچھی طرح سے جائزہ لے لیا ہے کہ یہی لوگ آپ کے اس طرح کے بیانات بہت اہتمام کے ساتھ شیئر کررہے ہیں۔


حضرت مفتی صاحب شریعت کے احکام تو بالکل واضح ہیں نا، کوئی چیز جائز ہوتی ہے یا ناجائز ہوتی ہے، اگر وہ ناجائز ہے تو اس میں کوئی خیر نہیں ہوسکتا۔ الا یہ کہ آدمی اضطراری کیفیت میں مبتلا ہوجائے، اگر اس ڈرامہ کی وجہ سے بظاہر کہیں کچھ خیر نظر بھی آرہا ہے تو اس کی مدت پانی کے بلبلوں سے زیادہ کی نہیں ہے۔ جس پر یہی کہا جائے گا کہ جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائدار ہوگا۔ جبکہ عمومی طور پر جو انقلاب آیا ہے وہ یہی ہے کہ ٹِک ٹاکر کو ایک ٹرینڈ مل گیا ہے، نوجوان بچے بچیاں اس کے کرداروں کی نقالی کرتے ہوئے اس کے ویڈیوز بناکر ٹک ٹاک پر اپلوڈ کررہے ہیں، اور کچھ لوگ اس پر کامیڈی ویڈیو بنا رہے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ اس ڈرامہ سے نوجوانوں میں شوبازی کو بڑھاوا ملا ہے، اور ان کے جذبات کو بے وقت ابھار کر ان کے جذبات سے کھیلا گیا ہے۔


حضرت مفتی صاحب ڈیجیٹل تصویر کشی کو اگر عکس مان کر جائز سمجھ لیا جائے تب بھی اس ڈرامہ میں دلچسپی قائم رکھنے کے لیے جھوٹ کی آمیزش، موسیقی، مرد وزن کا اختلاط، اور ناجائز معاشقہ کی داستان کو کون سے فقہی ضابطہ سے جائز کہا جائے گا؟ آپ ان ساری قباحتوں کو کیوں نظر انداز کررہے ہیں؟ جبکہ ان میں سے ایک ایک برائی پر گھنٹوں بیان کیا جاسکتا ہے۔ اور معصیت کے اس مجموعے کی آپ جیسا جید اور متقی عالم دین کیسے تعریف کرسکتا ہے؟ دو تین بیانات میں جو آپ نے جم کر اس ڈرامہ کی تعریف کی ہے اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ اس ڈرامہ کے ناظرین کی تعداد میں اب مزید اضافہ ہونے والا ہے۔


آپ کہتے ہیں کہ ہیروئن کے عادی کو پہلے سگریٹ پر لایا جائے گا۔ لیکن مجھے یہ بتائیں کہ کون سا ایسا ڈاکٹر ہے جو سگریٹ پر لانے کے لیے اس کے فضائل ہی سنانے لگے؟ اس سے تو یہ ہوگا کہ اس کے دل میں سگریٹ کی قباحت ہی ختم ہوجائے گی۔


اس بات کی کیا گیارنٹی ہے کہ ہالی ووڈ بالی ووڈ کی فلمیں دیکھنے والے یہ ڈرامہ دیکھ کر ان سے باز آجائیں گے؟ ہاں اس بات کا سخت اندیشہ ضرور ہے کہ اب ان کے نزدیک فلموں کی قباحت مزید کم ہوجائے گی، اور اب وہ ہر فلم کو سبق آموز سمجھ کر دیکھیں گے، اور اس کے دیکھنے کی ترغیب بھی دیں گے۔


آپ بار بار یہی کہتے ہیں کہ میں جائز نہیں کہتا تو اس کا مطلب یہی ہوا نا کہ یہ ڈرامہ ناجائز ہے؟ تو پھر اس ناجائز ڈرامہ اور اس کے بنانے والوں کی تعریف پر شرعاً کیا حکم لاگو ہوگا؟ 


گذشتہ سال بندے نے اس ڈرامے پر مفصل جواب لکھا تھا، اس کے بعد اس پر اب کوئی تحریر لکھنے کا ارادہ نہیں تھا، لیکن 22 جون کی آپ کی تقریر سن کر کچھ سوالات ذہن میں آگئے، اور ضروری محسوس ہوا کہ انہیں لکھ کر آپ کی خدمت میں پیش کیا جائے اگر کوئی ساتھی اس تحریر کو حضرت مفتی صاحب تک پہنچادے تو امید ہے کہ آپ اس پر کوئی جواب عنایت فرماکر بندے جیسے ہزاروں طلباء کے اشکالات کو دور فرمائیں گے۔


اخیر میں اس شعر پر اپنی بات کو مکمل کروں گا کہ :
محرومِ تماشہ کو وہ دیدۂ بینا دے
دیکھا ہے جو کچھ میں نے اوروں کو بھی دکھلا دے۔


اللہ تعالٰی ہم سب کو دین کی صحیح تعلیمات پر عمل کرنے اور اس کی نشرواشاعت کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

11 تبصرے:

  1. ماشاء اللہ مفتی صاحب... اس طرح کے اشکال مجھ ناچیز کے بھی ذہن میں تھے...
    رہی بات ان تک پہنچانے کی تو ان کے چینل کے کمینٹ باکس میں ڈال دیں... ان شآء اللہ پہنچ جائے گا...

    جواب دیںحذف کریں
  2. بہت خوب بہت درد بھری تحریر ہے یہ ماشاءاللہ

    جواب دیںحذف کریں
  3. ماشاء اللہ

    اللہ پاک آپ کے علم میں مزید برکت عطا فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین

    جواب دیںحذف کریں
  4. جزاكم اللّٰہ خيراً و احسن الجزاء

    جواب دیںحذف کریں
  5. ماشاء اللہ

    اللہ پاک آپ کے علم میں مزید برکت عطا فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین

    جواب دیںحذف کریں
  6. جوابات
    1. ماشاء اللہ

      اللہ پاک آپ کے علم میں مزید برکت عطا فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین

      حذف کریں
  7. محترم المقام مفتی عثمانی صاحب آپ نے برحق فرمایا ۔۔۔۔۔۔لیکن مجھے لگتا ہے مفتی طارق مسعود تک آپ کی بات پہنچانے کا یہ راستہ مناسب نہیں، اور بھی طریقے اختیار کیے جاسکتے تھے

    جواب دیںحذف کریں
  8. محمد ابراهیم26 جون، 2020 کو 3:06 AM

    ماشاء اللّه بهت خوب!! مفتی طارق مسعود صاحب کا یه نمبر هے آپ براه راست رابطه فر مائیں: 03212235590

    جواب دیںحذف کریں