منگل، 16 جون، 2020

نکاحِ شِغار اور آٹہ ساٹہ کے نکاح کا حکم


سوال :

کیا فرماتے مفتیان کرام اس مسئلہ میں کہ نکاح میں ساٹہ لوٹہ(زید کا عمر کی بہن سے نکاح کرنا اور عمر کا زید کی بہن سے نکاح کرنا) کرنا جائز ہے یا نہیں؟ اس میں دونوں طرف سے مہر بھی ادا کیا جاتا ہے؟ بعض دفعہ اس نکاح کے اندر ایسا ہوتا کہ اگر ایک طرف عورت پر ظلم ہوتا تو اسکے جواب میں دوسری طرف بھی ظلم کیا جاتا ہے۔ کیا یہ لا شغار فی الاسلام میں داخل ہے؟ لا شغار فی الاسلام کی تعریف بھی بیان کیجئے۔ اللہ تعالی آپ کی عمر میں برکت عطا فرمائے۔
(المستفتی : مسیب رشید خان، جنتور)
-------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : اگر دو گھرانوں میں نکاح ہو یعنی زید کا نکاح عمر کی بہن سے اور عمر کا نکاح زید کی بہن سے ہورہا ہو اور ہر ایک کا مہر بھی مقرر ہو تو یہ صورت جائز اور درست ہے۔ عُرف میں اس نکاح کو وٹہ سٹہ/آٹہ ساٹہ/ساٹہ لوٹہ وغیرہ ناموں سے جانا جاتا ہے۔ یہ نکاح، لَاشِغار فی الاسلام میں داخل نہیں ہے۔

اب اگر کوئی صرف اس وجہ سے اپنی بہو یا بیوی کو پریشان کرے کہ اُس کے گھر میں اُن کی بہن بیٹی کو پریشان کیا جارہا ہے تو یہ سراسر ظلم اور نا انصافی ہے، لیکن اس کی وجہ سے اس طرح نکاح کرنے کو ناجائز نہیں کہا جائے گا۔ البتہ اگر ذکر کردہ بے اعتدالی کا اندیشہ ہوتو اس طرح کا نکاح کرنے سے احتراز کرنا چاہیے۔

 دو آدمیوں کے درمیان ایک دوسرے کی بیٹی بہن یا اور کسی محرم رشتہ دار سے نکاح کرنے کی ایک خاص صورت کا نام شِغار ہے۔ مثلاً زید عمر سے اپنی بہن کا  نکاح  اس شرط پر کرے کہ وہ اپنی بہن کا نکاح  زید سے کر دے گا۔ اور ان دونوں کے نکاح میں مہر کچھ بھی متعین نہ ہو بلکہ ان دونوں کے درمیان ایک دوسرے کی بہن کا تبادلہ ہی گویا مہر ہو اس طرح کا نکاح  زمانہ جاہلیت میں لوگ کیا کرتے تھے، یہ صورت ممنوع ہے اور لَاشِغار فی الاسلام سے یہی نکاح شغار مراد ہے۔ البتہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک شرائط پائی جانے کی وجہ سے یہ نکاح منعقد تو ہوجاتا ہے، اور منکوحہ مہرِ مثل کی حقدار ہوتی ہے، تاہم ایسا کرنے کی وجہ سے فریقین گناہ گار ہوتے ہیں۔ لہٰذا اس طرح نکاح کرنے سے اجتناب لازم ہے۔

نوٹ : مہرِ مثل یہ وہ مہر ہے جو لڑکی کے خاندان کی دیگر عورتوں مثلاً بہنوں، پھوپھیوں اور چچازاد بہنوں کے مہر کے برابر مقرر کیا جاتا ہے۔


وهو أن يشاغر الرجل : أي يزوجه حريمته على أن يزوجه الآخر حريمته ولا مهر إلا هذا، كذا في المغرب: أي على أن يكون بضع كل صداقًا عن الآخر، وهذا المقيد لا بد منه في مسمى الشغار، حتى لو لم يقل ذلك ولا معناه بل قال: زوجتك بنتي على أن تزوجني بنتك فقبل، أو على أن يكون بضع بنتي صداقًا لبنتك فلم يقبل الآخر بل زوجه بنته ولم يجعلها صداقًا لم يكن شغارًا بل نكاحًا صحيحًا اتفاقًا وإن وجب مهر المثل في الكل، لما أنه سمى ما لايصلح صداقًا۔ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين : ٣/١٠٥)

إذا زوج الرجل بنتہ علی أن یزوجہ المتزوج بنتہ أو أختہ لیکون العقدین عوضا عن الآخر فالعقدان جائزان ولکل واحدة منهما مهر مثلها۔ (ھدایة : ٢/٣٢٧)

اما مہر المثل فقد حد رد الحنفیۃ بانہ مہر امرأۃ تماثل الزوجۃ وقت العقد من جہۃ ابیھا لا امھا ان لم تکن من قوم الیھا کاختھا وعمّتھا وبنت عمّھا فی بلدھا وعصرھا۔ (الفقہ الاسلامی وادلّتہٗ: ۷؍۲۶۶، رابعًا انواع المہر)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
23 شوال المکرم 1441

7 تبصرے: