سوال :
محترم مفتی صاحب کیا فرماتے ہیں اس مسئلہ میں کہ شہر مالیگاؤں کی ایک مسجد کے امام جو عالم اور نیک و صالح ہیں اور شرعاً کوئی وجہ ایسی نہیں پائی جاتی جس سے ان کی امامت پر اعتراض کیا جاسکے لیکن کچھ مخصوص لوگ ذمہ داروں پر ان کو برطرف کرنے کے لئے بہت زیادہ دباؤ ڈال رہے ہیں اور یہ وجہ پیش کررہے ہیں کہ لوگ مطمئن نہیں ہیں جبکہ مسجد کے ذمہ داران امام صاحب کو برطرف کرنے کے لئے رضا مند نہیں ہیں، اس لئے کہ کوئی شرعی وجہ موجود نہیں ہے۔ تو کیا چند لوگوں کا امام صاحب کے خلاف اس طرح محاذ کھڑا کرنا درست ہے؟ اور کیا ان لوگوں کے مطالبہ پر ذمہ داران مسجد کو امام صاحب کو برطرف کردینا چاہیے؟ اور ایسے علماء کو تکلیف پہونچانے والے لوگوں کا کیا انجام ہے؟ شریعت مطہرہ کی روشنی میں راہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : شمس العارفین ملی، کسمباروڈ، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں جبکہ امام صاحب عالم اور نیک صالح ہیں، نیز انہیں معزول کرنے کی کوئی شرعی وجہ بھی نہیں ہے تو بلاشبہ ان چند مصلیان کا امام صاحب کو برطرف کرنے کے لیے ذمہ دارانِ مسجد پر دباؤ بنانا ناجائز اور سخت گناہ کی بات ہے۔
ترمذی شریف کی روایت میں ہے :
مصطلق سے عمرو نے کہا کہ کہا جاتا تھا کہ سب سے زیادہ عذاب دو شخصوں کے لئے ہے اس عورت کے لئے جو شوہر کی نافرمانی کرے اور وہ امام جو مقتدیوں کے ناراض ہونے کے باوجود امامت کرے۔ جریر منصور کے متعلق کہتے ہیں کہ ہم نے ان سے امام کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا اس سے مراد ظالم امام ہے پس اگر وہ سنت پر قائم ہو تو مقتدی گناہگار ہوں گے یعنی جو اس سے بیزار ہوں گے۔
اس روایت سے معلوم ہوا کہ امام صاحب سے بلاعذرِ شرعی ناراض ہونے والے مصلیان بذات خود گناہ گار ہورہے ہیں۔ لہٰذا ایسے غیرشرعی مطالبہ کا پورا کرنا بھی ذمہ داران پر ضروری نہیں ہے۔
علماء کرام کا مقام و مرتبہ بہت بلند ہے اور بروز حشر ان کے درجات بہت اعلی و ارفع ہوں گے۔قرآن کریم و احادیث مبارکہ میں کثرت سے ان کے فضائل بیان کئے گئے ہیں۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
يَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ ۙ وَالَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ ۭ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ۔
ترجمہ : اللہ تم میں سے ان لوگوں کے جو ایمان رکھنے والے ہیں اور جن کو علم بخشا گیا ہے درجے بلند فرمائے گا۔ (سورہ مجادلہ، آیت: 11)
دوسری جگہ اللہ تعالٰی فرماتے ہیں :
إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ۔
ترجمہ : اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو علم رکھنے والے ہیں. (سورہ فاطر، آیت 28)
ایک جگہ اللہ تعالٰی نے ببانگ دہل قرآن مجید میں یہ وضاحت فرمادی ہے کہ عالم اور جاہل بہرصورت برابر نہیں ہوسکتے۔
قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ۔
ترجمہ : اے نبی ! آپ کہہ دیجئے کہ کیا علم والے اور بے علم برابر ہوسکتے ہیں۔ (سورۃ الزمر، آیت: 9)
متعدد احادیث میں علماء کرام کے مقام و مرتبہ کو بیان کیا گیا ہے، اور ان کی شان میں گستاخی اور ان سے دشمنی و عداوت رکھنے کو ہلاکت کا باعث بتایا گیا ہے۔
بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کو دین کی سمجھ عطا کرتا ہے۔ (بخاری)
ایک جگہ آپ علیہ السلام کا ارشاد مبارک ہے کہ جو شخص ہمارے بڑوں کی تعظیم نہ کرے، ہمارے بچوں پر رحم نہ کرے، اور جو ہمارے عالِم کا حق نہ پہچانے وہ میری اُمت میں سے نہیں ہے۔ (صَحِيح التَّرْغِيبِ وَالتَّرْهِيب : 101)
ایک روایت میں آتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : عالم بنو یا طالب علم بنو یا بات کو غور سے سننے والے بنو یا ان سے محبت کرنے والے بنو، پانچویں شخص نہ بننا ورنہ تم ہلاکت کا شکار ہوجاؤ گے۔ (شعب الإيمان للبیھقی، 1709)
حدیث شریف میں پانچویں قسم سے ہونے سے جو منع کیا گیا ہے تو وہ علماء دین سے بغض و عداوت رکھنے والے لوگوں کی قسم ہے۔
مذکورہ بالاآیات و احادیث سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ علماء کرام کی عزت و احترام ہم سب پر لازم اور ضروری ہے، اور انہیں ایذا وتکلیف پہنچانا دنیا و آخرت میں سخت خسارے کا سبب ہے۔ کسی دنیوی وشخصی غرض کی وجہ سے کسی عالمِ دین سے بغض رکھنا فسق وفجور ہے، علماء انبیاء کے وارث ہیں، ان کی تذلیل و تنقیص انتہائی خطرناک اور مبغوض عمل ہے۔ لہٰذا مسئولہ صورت میں جو مصلیان بلاعذرِ شرعی امام صاحب کو برطرف کرنے کے درپے ہیں انہیں اس سے باز آجانا چاہیے۔ اور اپنے اس مبغوض عمل سے توبہ و استغفار کرکے نیز امام صاحب معافی تلافی کرکے اپنا معاملہ صاف کرلینا چاہیے، ورنہ عنداللہ ان کی گرفت یقینی ہوگی۔
عن عمر و بن الحارث بن المصطلق قال: کان یقال أشد الناس عذابا یوم القیامۃ إثنان امرأۃ عصت زوجہا ، وإمام قوم وہم لہ کارہون، قال ہناد: قال جریر: قال منصور: فسألنا عن أمر الإمام فقیل لنا: إنما عنی بہذا الأئمۃ الظلمۃ ، فأما من أقام السنۃ ، فإنما الإثم علیٰ من کرہہ۔(سنن الترمذی، الصلاۃ ، باب ماجاء فی من أم قوماً وہم لہ کارہون، رقم: ۳۵۹)
ولوأم قوماً وہم لہ کارہون ، أن الکراہۃ لفساد فیہ ، أو لأنہم أحق بالإمامۃ منہ کرہ لہ ذلک تحریماً( إلیٰ قولہ ) وإن ہو أحق لا، والکراہۃ علیہم الخ۔ (درمختار، کتاب الصلاۃ ، باب الإمامۃ، ۲/۲۹۸)
وفی جامع الفصولین بغض عالمًا او فقیہًا بلا سبب ظاہر خیف علیہ الکفر۔ (جامع الفصولین، الباب الثامن والثلثون فی مسائل کلمات الکفر، ۲/۳۰۹)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
09 محرم الحرام 1442