ہفتہ، 29 اگست، 2020

مصلیان کا بلاعذرِ شرعی امام کو معزول کرنے کا مطالبہ کرنا

سوال :

محترم مفتی صاحب کیا فرماتے ہیں اس مسئلہ میں کہ شہر مالیگاؤں کی ایک مسجد کے امام جو عالم اور نیک و صالح ہیں اور شرعاً کوئی وجہ ایسی نہیں پائی جاتی جس سے ان کی امامت پر اعتراض کیا جاسکے لیکن کچھ مخصوص لوگ ذمہ داروں پر ان کو برطرف کرنے کے لئے بہت زیادہ دباؤ ڈال رہے ہیں اور یہ وجہ پیش کررہے ہیں کہ لوگ مطمئن نہیں ہیں جبکہ مسجد کے ذمہ داران امام صاحب کو برطرف کرنے کے لئے رضا مند نہیں ہیں، اس لئے کہ کوئی شرعی وجہ موجود نہیں ہے۔ تو کیا چند لوگوں کا امام صاحب کے خلاف اس طرح محاذ کھڑا کرنا درست ہے؟ اور کیا ان لوگوں کے مطالبہ پر ذمہ داران مسجد کو امام صاحب کو برطرف کردینا چاہیے؟ اور ایسے علماء کو تکلیف پہونچانے والے لوگوں کا کیا انجام ہے؟ شریعت مطہرہ کی روشنی میں راہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : شمس العارفین ملی، کسمباروڈ، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں جبکہ امام صاحب عالم اور نیک صالح ہیں، نیز انہیں معزول کرنے کی کوئی شرعی وجہ بھی نہیں ہے تو بلاشبہ ان چند مصلیان کا امام صاحب کو برطرف کرنے کے لیے ذمہ دارانِ مسجد پر دباؤ بنانا ناجائز اور سخت گناہ کی بات ہے۔

ترمذی شریف کی روایت میں ہے :
مصطلق سے عمرو نے کہا کہ کہا جاتا تھا کہ سب سے زیادہ عذاب دو شخصوں کے لئے ہے اس عورت کے لئے جو شوہر کی نافرمانی کرے اور وہ امام جو مقتدیوں کے ناراض ہونے کے باوجود امامت کرے۔ جریر منصور کے متعلق کہتے ہیں کہ ہم نے ان سے امام کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا اس سے مراد ظالم امام ہے پس اگر وہ سنت پر قائم ہو تو مقتدی گناہگار ہوں گے یعنی جو اس سے بیزار ہوں گے۔

اس روایت سے معلوم ہوا کہ امام صاحب سے بلاعذرِ شرعی ناراض ہونے والے مصلیان بذات خود گناہ گار ہورہے ہیں۔ لہٰذا ایسے غیرشرعی مطالبہ کا پورا کرنا بھی ذمہ داران پر ضروری نہیں ہے۔

علماء کرام کا مقام و مرتبہ بہت بلند ہے اور بروز حشر ان کے درجات بہت اعلی و ارفع ہوں گے۔قرآن کریم و احادیث مبارکہ میں کثرت سے ان کے فضائل بیان کئے گئے ہیں۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
يَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ ۙ وَالَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ ۭ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ۔
ترجمہ : اللہ تم میں سے ان لوگوں کے جو ایمان رکھنے والے ہیں اور جن کو علم بخشا گیا ہے درجے بلند فرمائے گا۔ (سورہ مجادلہ، آیت: 11)

دوسری جگہ اللہ تعالٰی فرماتے ہیں :
إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ۔
ترجمہ : اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو علم رکھنے والے ہیں. (سورہ فاطر، آیت 28)

ایک جگہ اللہ تعالٰی نے ببانگ دہل قرآن مجید میں یہ وضاحت فرمادی ہے کہ عالم اور جاہل بہرصورت برابر نہیں ہوسکتے۔
قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ۔
ترجمہ : اے نبی ! آپ کہہ دیجئے کہ کیا علم والے اور بے علم برابر ہوسکتے ہیں۔ (سورۃ الزمر، آیت: 9)

متعدد احادیث میں علماء کرام کے مقام و مرتبہ کو بیان کیا گیا ہے، اور ان کی شان میں گستاخی اور ان سے دشمنی و عداوت رکھنے کو ہلاکت کا باعث بتایا گیا ہے۔

بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کو دین کی سمجھ عطا کرتا ہے۔ (بخاری)

ایک جگہ آپ علیہ السلام کا ارشاد مبارک ہے کہ جو شخص ہمارے بڑوں کی تعظیم نہ کرے، ہمارے بچوں پر رحم نہ کرے، اور جو ہمارے عالِم کا حق نہ پہچانے وہ میری اُمت میں سے نہیں ہے۔ (صَحِيح التَّرْغِيبِ وَالتَّرْهِيب : 101)

ایک روایت میں آتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : عالم بنو یا طالب علم بنو یا بات کو غور سے سننے والے بنو یا ان سے محبت کرنے والے بنو، پانچویں شخص نہ بننا ورنہ تم ہلاکت کا شکار ہوجاؤ گے۔ (شعب الإيمان للبیھقی، 1709)

حدیث شریف میں پانچویں قسم سے ہونے سے جو منع کیا گیا ہے تو وہ علماء دین سے بغض و عداوت رکھنے والے لوگوں کی قسم ہے۔

مذکورہ بالاآیات و احادیث سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ علماء کرام کی عزت و احترام ہم سب پر لازم اور ضروری ہے، اور انہیں ایذا وتکلیف پہنچانا دنیا و آخرت میں سخت خسارے کا سبب ہے۔ کسی دنیوی وشخصی غرض کی وجہ سے کسی عالمِ دین سے بغض رکھنا فسق وفجور ہے، علماء انبیاء کے وارث ہیں، ان کی تذلیل و تنقیص انتہائی خطرناک اور مبغوض عمل ہے۔ لہٰذا مسئولہ صورت میں جو مصلیان بلاعذرِ شرعی امام صاحب کو برطرف کرنے کے درپے ہیں انہیں اس سے باز آجانا چاہیے۔ اور اپنے اس مبغوض عمل سے توبہ و استغفار کرکے نیز امام صاحب معافی تلافی کرکے اپنا معاملہ صاف کرلینا چاہیے، ورنہ عنداللہ ان کی گرفت یقینی ہوگی۔

عن عمر و بن الحارث بن المصطلق قال: کان یقال أشد الناس عذابا یوم القیامۃ إثنان امرأۃ عصت زوجہا ، وإمام قوم وہم لہ کارہون، قال ہناد: قال جریر: قال منصور: فسألنا عن أمر الإمام فقیل لنا: إنما عنی بہذا الأئمۃ الظلمۃ ، فأما من أقام السنۃ ، فإنما الإثم علیٰ من کرہہ۔(سنن الترمذی، الصلاۃ ، باب ماجاء فی من أم قوماً وہم لہ کارہون، رقم: ۳۵۹)

ولوأم قوماً وہم لہ کارہون ، أن الکراہۃ لفساد فیہ ، أو لأنہم أحق بالإمامۃ منہ کرہ لہ ذلک تحریماً( إلیٰ قولہ ) وإن ہو أحق لا، والکراہۃ علیہم الخ۔ (درمختار، کتاب الصلاۃ ، باب الإمامۃ، ۲/۲۹۸)

وفی جامع الفصولین بغض عالمًا او فقیہًا بلا سبب ظاہر خیف علیہ الکفر۔ (جامع الفصولین، الباب الثامن والثلثون فی مسائل کلمات الکفر، ۲/۳۰۹)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
09 محرم الحرام 1442

منگل، 25 اگست، 2020

آگرہ روڈ کی تعمیر یا مسئلۂ کشمیر؟

محمد عامر عثمانی ملی

قارئین کرام ! شہرِ عزیز مالیگاؤں میں مسائل کی کمی نہیں ہے۔ یہاں تعلیم سے لے کر روزگار تک، بنیادی سہولیات سے لے کر تفریحی انتظامات تک۔ ہر شعبہ میں آپ کو مسائل ہی مسائل نظر آئیں گے؟ پھر بھی یہاں کی جفاکش عوام صبر وشکر کے ساتھ زندگی گزار رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ ایک طبقہ ان کے صبر کا حد سے زیادہ غلط فائدہ اُٹھا رہا ہے۔ اور آخری حد تک عوام کا استحصال کیا جارہا ہے۔

محترم قارئین ! گزشتہ چند سالوں سے آگرہ روڈ جیسی انتہائی اہم اور مصروف ترین شاہراہ کی تعمیر کا مسئلہ شیطان کی آنت کی طرح لمبا ہوتا چلا جارہا ہے۔ یہ مسئلہ گویا مسئلہ کشمیر بنا ہوا ہے کہ حل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اس کی تعمیر کی ذمہ داری کس کی ہے؟ کمشنر یا میئر؟ ایم ایل اے یا کارپوریٹرس؟ یا پھر ٹھیکہ داروں کی غفلت کی وجہ سے یہ روڈ اپنی بدحالی کے دن پورے نہیں کرپارہی ہے؟ ہمیں تو بس اتنا معلوم ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت رکھنے والے اس شہر میں جبکہ انتظامیہ میں بھی اکثر تعداد مسلمانوں کی ہی ہے، جس کی وجہ سے اس بات کا قوی امکان ہے کہ اس روڈ کی درستی کی ذمہ داری بھی مسلمانوں میں سے ہی کسی کی ہے، اس کے باوجود یہ روڈ اپنی خستہ اور بدحالی میں اپنی مثال آپ بنی ہوئی ہے۔ جبکہ احادیث میں آیا ہے کہ راستے سے تکلیف دہ چیزوں کو ہٹادیا جائے اور خود دوسروں کو تکلیف دینے سے حتی الامکان بچا جائے، دوسروں کو تکلیف پہنچانا ناجائز اور حرام کام ہے، جس کا خمیازہ دنیا وآخرت میں ضرور بھگتنا پڑے گا۔ ہم اور آپ اندازہ بھی نہیں کرسکتے کہ اس روڈ کی تعمیر کے ذمہ داران اپنی غفلت کی وجہ سے اپنے نامۂ اعمال میں کتنے گناہ جمع کررہے۔ اور روزآنہ ہزاروں راہگیروں کی آہوں اور بد دعاؤں کا تو کوئی حساب ہی نہیں ہے۔

ابھی چار پانچ دن پہلے کی بات ہے ہمارے دوست اور مسجد حُرمت بی کے امام حافظ ابو رضوان اس روڈ کے قاتل گڑھوں کی زد میں آکر سخت زخمی ہوئے ہیں، اس طرح کے واقعات اس روڈ پر روزآنہ ہورہے ہیں، اس کے باوجود انتظامیہ کے کانوں پر جُوں تک نہیں رینگ رہی ہے۔

کچھ دِن پہلے اس روڈ پر لطیفوں کا ٹرینڈ چلا تھا، جس کا اثر یہ ہوا تھا کہ اس روڈ کے کچھ حصوں کی تعمیر کرکے عوام کو لالی پاپ تھمادیا گیا۔ پھر وہی چال بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے۔

پرسوں دیکھنے میں آیا کہ عصر بعد اس روڈ کے ایک حصے کی درستی کے نام پر ڈامر کی چِپّی لگانے کا کام چل رہا تھا جو انتہائی ناقص اور غیرمعیاری تھا، بلکہ اسے سڑا ہوا کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا، جسے دیکھ کر خون کھول اٹھا، ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے عوام کے جذبات سے کھیلا جارہا ہے اور ان کے احتجاج کا بھیانک مذاق اڑایا جارہا ہے۔ اس تحریر کے وجود میں آنے کا سبب یہی واقعہ ہے۔

آخر کون ہے جو اس روڈ کی مکمل اور بہتر تعمیر کروائے گا؟ عوام کی نگاہیں اس مسیحا کی تلاش میں ہیں۔

یا خود عوام کو اس کے لیے کوئی سخت قدم اُٹھانا؟

اپنے تاثرات اچھے انداز میں کمنٹ باکس میں لکھیں۔

شرعی مسافت کی ابتداء اور انتہا؟

سوال :

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ میں کہ ہمارے شہر جنتور سے پاتھری کی طرف جانے کےلئے تین راستے ہیں، 
1) پربھنی کی طرف سے جس کا فاصلہ اسّی پچاسی کلو میٹر ہے، 2 سیلو کی طرف سے بہتّر، تہتر کلو میٹر ہے۔ 3 بالور کی طرف سے پچپن چھپن کلو میٹر ہے۔
دریافت طلب بات یہ ہے کہ اب نماز میں قصر کرنا یا پوری نماز پڑھنا؟
اور کلو میٹر سرکاری حساب سے بس اسٹینڈ سے شمار ہوگا یا لب شہر سے؟
آج کل بہت سارے شہر بس اسٹینڈ سے ایک دیڑھ کلو میٹر باہر ہیں۔
(المستفتی : مسیّب رشید خان، جنتور)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : راستہ چلنے والا جس راستے سے سفر کرے گا اس کا اعتبار ہوگا۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر جنتور سے پاتھری جانا ہو اور پربھنی والا راستہ اختیار کیا جائے جس میں 82 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا پڑے تو ایسا شخص جنتور شہر کی حدود سے نکلتے ہی مسافر ہوجائے گا اور نمازوں میں قصر کرے گا۔ اس کے علاوہ بقیہ راستوں کے اختیار کرنے کی صورت میں چونکہ شرعی مسافت 82 کلومیٹر فاصلہ نہیں پایا جائے گا، لہٰذا اس صورت میں نمازیں مکمل پڑھی جائیں گی۔

سفر کی مسافت کا اعتبار اپنے شہر کی آبادی اور حدود کے ختم ہونے کے بعد سے کیا جاتا ہے نہ کہ بس یا ریلوے اسٹیشن سے۔ نیز جس مقام کی طرف سفرکر رہا ہے اُس شہر کی حدود کی ابتداء کا اعتبار ہوگا نہ کہ اس مقام اور محلہ کا جہاں اسے جانا ہے اور نہ ہی اس مقام کے ریلوے یا بس اسٹیشن کا۔ لہٰذا جس شہر کی طرف سفر کر رہا ہے، اس کی حدود میں اور اس کے اپنے شہر کی حدود کے درمیان شرعی مسافت 82 کلومیٹر کا فاصلہ ہوگا تو ایسا شخص مسافر ہوگا ورنہ نہیں۔

(من خرج من عمارۃ موضع اقامتہ) من جانب خروجہ وان لم یجاوز من الجانب الاخر۔ (الدر المختار : ۱۲۱/۲)

(قولہ من جانب خروجہ الخ) قال فی شرح المنیۃ : فلا یصیر مسافراً قبل ان یفارق عمران ماخرج منہ من الجانب الذی خرج حتی لو کان ثمۃ محلۃ منفصلۃ عن المصر وقد کانت متصلۃ بہ لایصیر مسافراً مالم یجاوزھا، ولوجاوز العمران من جھۃ خروجہ وکان بحذائہ محلۃ من الجانب الاخر یصیر مسافراً اذ المعتبر جانب خروجہ۔ (شامي : ۱۲۱/۲)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
05 محرم الحرام 1442

ہفتہ، 22 اگست، 2020

پیشاب کی تھیلی لگی ہونے کی صورت میں نماز کا حکم

سوال :

آپریشن کی وجہ سے مستقل کئی روز تک پیشاب کی نلی لگنی ہے، ایسی صورت میں نماز کی کیا ترتیب ہوگی؟
بینوا وتوجروا۔
(المستفتی : حافظ اقبال، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : پیشاب کی تھیلی لگانے کی صورت میں چونکہ تھوڑے تھوڑے وقفے سے پیشاب کے قطرے ٹپکتے رہتے ہیں، لہٰذا ایسی حالت میں حکم یہ ہے کہ اگر تھیلی اُتارنے میں مریض کو نقصان نہ ہو اور ڈاکٹر حضرات اس کی اجازت دیں تو مریض کو نماز کے وقت تھیلی اُتار کر وضو کرکے نماز ادا کرنا ہوگا۔ اور اگرتھیلی اُتارنے میں نقصان ہو اور ڈاکٹر حضرات نے اس سے منع کیا ہو تو ایسی صورت میں مریض معذور کے حکم میں ہوگا، اور معذور کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ ہر فرض نماز کے لیے نیا وضو کرے اور اس نماز کے وقت میں فرض، سنن و نوافل میں سے جو چاہے یا اس کے علاوہ دیگر عبادات مثلاً قرآن کریم کی تلاوت کرنا چاہے تو کرسکتا ہے۔ اس وقت میں مزید پیشاب کے قطرے آنے سے وضو نہیں ٹوٹے گا، البتہ اس کے علاوہ دیگر نواقضِ وضو میں سے کوئی پایا جائے مثلاً ریح خارج ہوگئی تو اس سے وضو جاتا رہے گا۔ اسی طرح جیسے ہی نماز کا وقت ختم ہوگا اس کا وضو ٹوٹ جائے گا۔ نیز ایسا شخص تھیلی کے ساتھ مسجد نہ آئے بلکہ گھر پر ہی نماز ادا کرلیا کرے۔

وصاحب عذر من بہ سلسل بول، أو استطلاق بطن، أو انفلات ریح إن استوعب عذرہ تمام وقت صلوۃ مفروضۃ، بأن لایجد في جمیع وقتها زمناً یتوضاً ویصلي فیہ خالیا عن الحدث، وحکمہ الوضوء لکل فرض، ثم یصلي فیہ فرضاً ونفلاً، فإذا خرج الوقت بطل۔ (الدر المختار علی الرد المحتار، الصلاۃ / باب صلاۃ المریض، ۱/۵۰۴)

وکرہ تحریماً إدخال نجاسۃ فیہ، وفي الشامي : وإدخال نجاسۃ فیہ یخاف منہا التلویث، ومفادہ الجواز لوجافۃ لکن في الہندیۃ : لایدخل المسجد من علی بدنہ نجاسۃ۔ (الدر المختار علی الرد المحتار، الصلاۃ / باب صلاۃ المریض، ۲؍۴۲۸)فقط
وﷲ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
02 محرم الحرام 1442

جمعہ، 21 اگست، 2020

کالا لباس پہننے کا شرعی حکم

سوال :

کالا لباس محرّم اور غیر محرّم میں استعمال کرنا شرعاً کیسا ہے؟ جبکہ بعض علماء و ائمہ کو دیکھا گیا کہ وہ پورا کالا جبّہ بھی پہنتے ہیں عام دنوں میں۔ رہنمائی فرما کر شکریہ کا موقع دیں۔
(المستفتی : محمد شرجیل ملی، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : کالا لباس پہننا شرعاً جائز اور درست ہے۔ اس لیے کہ خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے کالے رنگ کی چادر زیب تن کی ہے، جسے ام المؤمنين حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کالے رنگ میں رنگا تھا۔ البتہ محرّم کے ایام میں چونکہ کالا لباس پہننا شیعوں کا شعار بن چکا ہے۔ لہٰذا ان کی مشابہت سے بچنے کے لیے محرّم کے ایام میں کالا لباس پہننے سے احتراز کرنا چاہیے۔

معلوم ہوا کہ مسئولہ صورت میں علماء و ائمہ کا عام دنوں میں کالا جُبّہ پہننا جائز ہے۔

عن عائشۃؓ، قالت : صبغت للنبي صلی اﷲ علیہ وسلم بردۃ سوداء فلبسہا۔ (سنن أبي داؤد، باب في السواد، رقم: ۴۰۷۴)

وفي الحدیث جواز لبس السواد وہو متفق علیہ۔ (بذل المجہود، باب في السواد، ۱۲/۱۰۱)

عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال : قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : من تشبہ بقوم فہو منہم۔ (سنن أبي داود، کتاب اللباس، باب في لبس الشہرة، رقم : ۴۰۳۱)

”من تشبہ بقوم“أي : من شبہ نفسہ بالکفار مثلاً في اللباس وغیرہ أو بالفساق أو الفجار الخ (مرقاة المفاتیح : ٨/۲۲۲)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامرعثمانی ملی
01 محرم الحرام 1442

منگل، 18 اگست، 2020

پینٹ فولڈ کرکے نماز پڑھنے پر تفصیلی اور تحقیقی جواب

سوال :

محترم جناب مفتی صاحب! پینٹ فولڈ کرکے نماز پڑھنا کیسا ہے؟ کیا ایسی صورت میں نماز ہوجائے گی؟ نیز بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر پائجامہ یا پینٹ ٹخنوں سے نیچے ہوں تو اوپر سے لپیٹنا چاہیے، نیچے سے فولڈ کرنے سے نماز نہیں ہوتی۔
(المستفتی : افضال احمد ملی، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : متعدد احادیث میں ٹخنوں سے نیچے ازار لٹکانے کی ممانعت اور وعید وارد ہوئی ہے۔

بخاری شریف کی روایت میں ہے :
رسول کریم ﷺ نے فرمایا ۔" از قسم ازار (یعنی پائجامہ وغیرہ ) کا جو حصہ ٹخنوں سے نیچے ہوگا وہ دوزخ میں ڈالا جائے گا۔

مطلب یہ کہ ٹخنوں سے نیچے پیر کے جتنے حصہ پر تہبند وغیرہ لٹکا ہوا ہوگا وہ پورا حصہ دوزخ میں ڈالا جائے گا۔

ابوداؤد شریف کی روایت میں ہے :
نبی کریم ﷺ نے فرمایا تین آدمی وہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے روز نہ ان سے گفتگو فرمائیں گے نہ ان کی طرف (نظر رحمت سے) دیکھیں گے اور نہ انہیں گناہوں سے پاک صاف کریں گے اور ان کے لئے دردناک عذاب ہوگا۔ میں نے عرض کیا کہ وہ کون لوگ ہیں یا رسول اللہ ﷺ وہ تو بیشک ناکام ونامراد ہوگئے. حضور اکرم ﷺ نے تین مرتبہ ان الفاظ کا اعادہ فرمایا۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ وہ کون لوگ ہیں بیشک وہ تو ناکام ونامراد ہوگئے؟ فرمایا کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا۔ احسان کرکے جتانے والے اور جھوٹی وناجائز قسمیں کھا کر سامان فروخت کرنے والا۔

ابوداؤد اور ترمذی شریف میں ہے :
حضرت ابوسعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ " ایک مؤمن کے تہبند و پائجامہ کی سب سے بہتر صورت تو یہ ہے کہ وہ آدھی پنڈلیوں تک ہو اور آدھی پنڈلیوں سے ٹخنوں تک (کے درمیان ) ہونے میں (بھی) کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن اس (ٹخنے ) سے نیچے جو حصہ (لٹکا ہوا) ہوگا وہ دوزخ کی آگ میں لے جائے گا ۔ حضرت ابوسعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے یہ الفاظ تین بار فرمائے ۔ اور (پھر فرمایا کہ ) اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس شخص کو (رحمت و عنایت کی نظر سے ) نہیں دیکھے گا جو غرور و تکبر سے اپنے تہبند و پائجامہ کو (ٹخنوں سے) نیچے لٹکائے گا۔

درج بالا روایات سے معلوم ہوا کہ عزیمت یعنی اولیٰ درجہ یہ ہے کہ ازار یعنی تہبند و پائجامہ کو نصف پنڈلی تک رکھا جائے کیونکہ آپ ﷺ اپنا تہبند نصف پنڈلی ہی تک رکھتے تھے، البتہ رخصت یعنی اجازت و آسانی کا درجہ ٹخنوں تک ہے کہ تہبند و پائجامے کو زیادہ سے زیادہ ٹخنوں تک رکھا جا سکتا ہے۔ اورتکبر کی وجہ سے پاجامہ پینٹ وغیرہ ٹخنوں سے نیچے لٹکانا ناجائز اور حرام ہے اور ایسا شخص حدیث شریف میں مذکور وعید کا مستحق ہوگا، اسی طرح بلاتکبر بھی ایسا کرنا مکروہ تحریمی ہے۔ چنانچہ اگر ٹخنوں سے نیچے لباس ہونے کی حالت میں نماز پڑھ لی جائے  تو نماز بھی مکروہ ہوتی ہے۔ لہٰذا سب سے پہلے تو یہ کوشش ہونی چاہیے کہ ہمارا پائجامہ وغیرہ اس طرح سِلا ہو کہ ہمیشہ اور ہر حالت میں ٹخنوں کے اوپر رہے۔ لیکن اگر کسی نے اس کا خیال نہیں کیا اور اس کا پینٹ یا پائجامہ ٹخنوں سے نیچے ہے تو نماز کے وقت اسے اوپر سے موڑ کر اوپر کرلے یا پھر پائنچے موڑکر بھی ٹخنوں سے اوپر کرسکتا ہے، اس طرح کرلینے سے کراہت ختم ہوجاتی ہے، اور نماز بھی مکروہ نہیں ہوگی۔

پائنچے موڑنے کو مکروہ تحریمی قرار دیکر اس سے نماز کو واجب الاعادہ قرار دینا اور بخاری شریف کی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ والی روایت : عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم  قال : أُمِرْتُ أنْ أسْجُدَ عَلیٰ سَبْعَةٍ، لاَ أکُفُّ شَعْراً وَلاَ ثَوْباً۔
            حضرت عبداللہ ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ نبیِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں سات اعضاء پر سجدہ کروں، اور نہ بالوں کو سمیٹوں اور نہ کپڑوں کو۔ (بخاری، کتاب الصلاة، باب لا یکف ثوبه فی الصلاة، حدیث نمبر : 816) سے پائنچہ موڑنے  کی ممانعت پہ استدلال کرنا ناواقفیت پر مبنی ہے، کیونکہ اس حدیث میں "کف ثوب" (یعنی کپڑے سمیٹنے) سے مراد "ازار" کے علاوہ قمیص اور چادر وغیرہ سمیٹنا ہے۔
         
  ”وَالْحِکْمَةُ فِيْ ذٰلِکَ أَنَّه اذَا رَفَعَ ثَوْبَه وَشَعْرَہ عَنْ مُبَاشَرَةِ الْأَرْضِ أشْبَه الْمُتَکَبِّرَ“ (فتح الباری : ۲/۳۷۷، کتاب الصلوة، باب السجود علی سبعة اعظم)

اور حکمت اس میں یہ ہے کہ جب وہ اپنے کپڑے اور بالوں کو مٹی لگنے کے ڈر سے اٹھائے گا، تو اس میں متکبرین کے ساتھ مشابہت پیدا ہوگی۔

بلکہ بخاری شریف کی ایک روایت سے پائنچے موڑنے کی تائید ہوتی ہے :
          
عن أبي جُحَیفة قال: ․․․․ فرأیتُ رسولَ اللّٰه صلی اللہ علیہ وسلم خَرَجَ في حُلَّةٍ مُشَمِّراً، فَصَلّٰی رَکْعَتَیْنِ إلی الْعَنَزَةِ۔
ترجمہ : حضرت ابو جحیفة فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسے لباس میں تشریف لائے، جس میں ازار کو نیچے سے اٹھائے ہوئے تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت نماز پڑھائی۔ (بخاری، کتاب الصلوة، باب التشمر فی الثیاب، حدیث نمبر:5786)

اس حدیث میں لفظ ”مُشَمِّراً“ تشمیر الثوب سے ماخوذ ہے جس کے معنی آستین چڑھانا، پائینچے موڑنا، پاجامہ ٹخنوں سے اوپر کرنا ہیں۔ علامہ ابن حجر نے اس کی تشریح  ”رَفَعُ أسْفَلِ الثَّوْبِ“ (کپڑے کے سب سے نچلے حصے کو اٹھانا) سے کی ہے۔ (فتح الباری : ۲/۳۱۵)

احادیث وفقہی نصوص ومتون میں جہاں کہیں بھی "کفّ ثوب" کی ممانعت وارد ہوئی ہے اس سے مراد "ازار" کے علاوہ قمیص اور چادر وغیرہ ہے۔ پائنچے موڑنا  "کَفِّ ثوب" کی ممانعت کے تحت داخل نہیں ہے۔

عن أبي ہریرۃؓ، عن النبي صلی الله علیہ وسلم قال: ما أسفل من الکعبین من الإزارفي النار۔ (صحیح البخاري، کتاب الصلاۃ، رقم :۵۵۵۹)

عن أبي ذرؓ، عن النبي صلی الله علیہ وسلم، أنہ قال: ثلاثۃ لایکلمہم الله ولاینظر إلیہم یوم القیامۃ، ولایزکیہم ولہم عذاب ألیم، قلت من ہم یا رسول الله فقد خابوا وخسروا فأعادہا ثلثا، قلت من ہم یا رسول الله فقد خابوا وخسروا، قال : المسبل، والمنان، والمنفق سلعۃ بالحلف الکاذب، أو الفاجر۔ (ابوداؤد شریف، کتاب اللباس،باب ماجاء في الاسبال الإزار، رقم :۴۰۸۷)

وعن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : إزرة المؤمن إلى أنصاف ساقيه لا جناح عليه فيما بينه وبين الكعبين ما أسفل من ذلك ففي النار، قال ذلك ثلاث مرات، ولا ينظر الله يوم القيامة إلى من جر إزاره بطرا۔ (رواه أبو داود وابن ماجه)

وینبغي أن یکون الإزار فوق الکعبین۔ (ہندیۃ، کتاب الکراہۃ، الباب التاسع في اللبس، ۵/۳۳۳)
مستفاد : ٹخنوں سے نیچے ازار لٹکانے کی ممنوع شکلیں، از مفتی شکیل منصور قاسمی)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
27 ذی الحجہ 1441

پیر، 17 اگست، 2020

بارات میں مسجد کے پاس پٹاخہ پھوڑنے پر مسجد والوں کا جُرمانہ لینا

سوال :

مفتی صاحب ! آج ایک مسجد میں نکاح تھا اور اسی مسجد کے پاس باراتیوں نے پٹاخہ پھوڑا تو مسجد والوں نے جرمانہ 500 روپے لیے تو کیا ان کا یہ جرمانہ لینا صحیح ہے؟
(المستفتی : حافظ رضوان الرحمن، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : پٹاخے پھوڑنا ایک ایسا گناہ ہے جس میں ایذائے مسلم، فضول خرچی، اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے اور غیرقوموں سے مشابہت جیسے بڑے بڑے گناہ پائے جاتے ہیں، پھر مسجد کے پاس پھوڑنا تو اس گناہ کی سنگینی کو مزید بڑھا دیتا ہے۔ لہٰذا ایسے لوگوں کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ لیکن چونکہ مالی جُرمانہ لینے کی شرعاً اجازت نہیں ہے، اس لیے مسجد والوں کا ان سے جُرمانہ لینا جائز نہیں ہے۔ اور یہ پیسے مسجد میں استعمال کرنا یا کسی اور کا اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں ہے، بلکہ اس پیسے کا واپس کردینا ضروری ہے۔ اس میں مزید قباحت یہ بھی ہے کہ جُرمانہ لینے سے یہ بُرائی بجائے ختم ہونے کے بڑھ بھی سکتی ہے، کیونکہ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ پانچ سو مسجد والوں کو دے کر پھر دھوم سے پٹاخے پھوڑے جائیں گے، لہٰذا جُرمانہ لینے کے بجائے انہیں پٹاخہ پھوڑنے کی قباحت اچھی طرح سمجھائی جائے، یا انہیں باز رکھنے کے لیے کوئی جائز طریقہ اختیار کیا جائے۔

وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ۔ (سورہ بقرہ، آیت : 195)

إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا۔ (سورہ بنی اسرائیل، آیت : 27)

عن أبي هريرة، عن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم قال: المسلم من سلم الناس من لسانه ويده، والمؤمن من أمنه الناس على دمائهم وأموالهم۔ (سنن النسائي:۲؍۲۶۶، رقم الحدیث: ۴۹۹۵)

التعزیر بالمال جائز عند أبی یوسف، وعندہما وعند الأئمۃ الثلاثۃ لایجوز، وترکہ الجمہور للقرآن والسنۃ : وأما القرآن فقولہ تعالی :{فاعتدوا علیہ بمثل ما اعتدی علیکم} ۔ وأما السنۃ فإنہ علیہ السلام قضی بالضمان بالمثل ولأنہ خبر یدفعہ الأصول فقد أجمع العلماء علی أن من استہلک شیئاً لم یغرم إلا مثلہ أو قیمتہ ۔ (اعلاالسنن ، ۱۱/۷۳۳، باب التعزیر بالمال ، بیروت)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
26 ذی الحجہ 1441