منگل، 11 اگست، 2020

قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا

سوال :

مفتی صاحب ! امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔
مجھ سے میرے جاننے والوں نے ایک مدت کے لیے قرض‌ لیا تھا۔ جب بھی میں ان‌ سے اپنی ضروریات کی‌ بنا پر اپنے پیسوں کا تقاضہ کرتا ہوں وہ کسی نہ کسی عذر کو پیش کر کے معذرت کرتے ہیں۔ اور یہ مدت مہینوں سے سالوں‌ ہو گئی ہے۔ اسکے علاوہ میں نے بظاہر محسوس کیا کہ قرض کی مدت گذرنے کے بعد ان افراد نے ‌‌نئے  کاروبار شروع کیے۔ میرا‌ سوال یہی ہے کہ قرض ادا نہ کرکے اسطرح  کاروبار کرنا کتنا صحیح ہے؟ جبکہ بظاہر ان کے لائف اسٹائیل دیکھ کر مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں اس بات کا حقدار ہوں کہ مجھے اپنے پیسے واپس مل جائیں۔ اس لین دین کے معاملات میں شرعی رہنمائی کریں۔ جزاک اللہ
(المستفتی : ت۔ شاھد، مالیگاؤں)
-------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں جبکہ آپ نے انہیں قرض دیا ہے اور اسے باقاعدہ معاف نہیں کیا ہے تو آپ کو شرعاً اس بات کا حق ہے کہ آپ اپنی قرض دی ہوئی رقم ان سے طلب کریں۔ اور اس رقم کا واپس کرنا مقروض افراد پر ضروری ہے۔ قرض خواہ کے مطالبہ کے باوجود قرض کی ادائیگی میں بلاعذر تاخیر اور ٹال مٹول کرنا سخت گناہ کی بات ہے، چنانچہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا مالدار شخص کا قرضہ ادا کرنے میں تاخیر کرنا ظلم ہے۔ (بخاری ومسلم)

حضرت شرید کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا مستطیع شخص کا ادائیگی قرض میں تاخیر کرنا اس کی بے آبروئی اور اسے سزا دینے کو حلال کرنا ہے۔ ابن مبارک فرماتے ہیں کہ ایسے شخص کی بے آبروئی کا حلال ہونا یہ ہے کہ اسے ملامت کی جائے اور اسے سزا دینا یہ ہے کہ اس کو قید کر دیا جائے۔ (ابوداؤد، نسائی)

مطلب یہ ہے کہ جو شخص صاحب استطاعت اور مالدار ہونے کے باوجود بلاعذر اپنے قرض خواہ کا قرض ادا نہ کرے تو اس کی آبروریزی بھی مباح ہے، اور اس کو سزا دینا بھی درست ہے کیونکہ اس کی طرف سے بلاعذر ادائیگی قرض میں ٹال مٹول اور تاخیر ایک طرح کا ظلم ہے۔ آبروریزی کا مطلب تو یہ ہے کہ اسے سرزنش کی جائے اور اسے برا بھلا کہا جائے اور اس کو سزا دینے کا مطلب یہ ہے کہ حاکم وعدالت سے چارہ جوئی کر کے اسے قید خانہ میں ڈلوا دیا جائے۔ (مشکوٰۃ مترجم)

پھر ایسے لوگوں کو اس بات کا بھی خیال رہنا چاہیے کہ زندگی کا کیا بھروسہ؟ کب اللہ تعالیٰ کی طرف سے بلاوا آجائے اور تمام مال و اسباب چھوڑ کر ایک لمحے کی تاخیر کے بغیر اس دارِ فانی سے دارِ بقا کی طرف کوچ کرجانا پڑے۔ اور اگر قرضدار ہونے کی حالت میں انتقال ہوجائے تو پھر آخرت میں بڑے سخت حالات سے دوچار ہونا پڑے گا، اس پر متعدد احادیثِ مبارکہ میں بڑی سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، اگر کوئی ان کا دل کی آنکھوں سے مطالعہ کرلے تو قوی امید ہے کہ اس سنگین گناہ سے حتی الامکان پرہیز کرے گا۔

حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ جب رسول کریم ﷺ کے سامنے کسی ایسے شخص کا جنازہ لایا جاتا جس پر قرض ہوتا تو آپ ﷺ پہلے پوچھتے کہ کیا یہ شخص اپنا قرض ادا کرنے کے لئے کچھ مال چھوڑ کر مرا ہے؟ اگر یہ بتایا جاتا کہ یہ شخص اتنا مال چھوڑ کر مرا ہے جس سے اس کا قرض ادا ہو سکتا ہے تو آپ ﷺ اس کی نماز جناہ پڑھ لیتے اور اگر یہ معلوم ہوتا کہ کچھ بھی چھوڑ کر نہیں مرا ہے تو پھر (آپ ﷺ اس کی نماز جنازہ خود نہ پڑھتے بلکہ) مسلمانوں سے فرماتے کہ تم اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھ لو پھر جب اللہ تعالیٰ نے فتوحات کے دروازے کھول دئیے اور مشرکین وکفار سے جنگ کے بعد غنیمت کی صورت میں مال و زر میں وسعت و کشادگی نصیب ہوئی ) تو آپ ﷺ ایک دن خطبہ کے لئے کھڑے ہوئے اور مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ میں دین ودنیا کے تمام امور میں مسلمانوں پر ان کی جانوں سے زیادہ حق رکھتا ہوں لہذا جو مسلمان اس حالت میں مرے کہ اس پر قرض ہو ( اور اس نے اتنا مال نہ چھوڑا ہو جس سے اس کا قرض ادا ہو سکے) تو اس کے قرض کو ادا کرنے میں، میں ذمہ دار ہوں اور جو مسلمان مال چھوڑ کر مرے تو اس مال سے اس کا قرض ادا کرنے کے بعد جو کچھ بچے وہ اس کے وارثوں کا حق ہے۔ (بخاری ومسلم)

حضرت ابوقتادہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! مجھے بتائیے اگر میں اللہ کی راہ میں مارا جاؤں اس حال میں کہ میں صبر کرنیوالا اور ثواب کا خواہش مند ہوں (یعنی میں دکھانے سنانے کی غرض سے نہیں بلکہ محض اللہ تعالیٰ کی رضا وخوشنودی کی خاطر اور ثواب کی طلب میں جہاد کروں) اور اس طرح جہاد کروں کہ میدان جنگ میں دشمن کو پیٹھ نہ دکھاؤں بلکہ ان کے سامنے سینہ سپر رہوں (یہاں تک کہ میں لڑتے لڑتے مارا جاؤں) تو کیا اللہ تعالیٰ میرے گناہوں کو معاف کر دے گا؟ رسول اللہ ﷺ نے جواب دیا کہ ہاں ! پھر جب وہ شخص اپنے سوال کا جواب پا کر واپس ہوا تو آپ ﷺ نے اسے آواز دی اور فرمایا کہ ہاں اللہ تعالیٰ تمہارے گناہ یقینًا معاف کر دے گا مگر قرض کو معاف نہیں کرے گا مجھ سے جبرائیل نے یہی کہا ہے۔ (مسلم)

حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا مؤمن کی روح اپنے قرض کی وجہ سے اس وقت تک معلق رہتی ہے جب تک کہ اس کا قرض ادا نہ ہو جائے (یعنی جب کوئی شخص قرضدار مرتا ہے تو اس کی روح اس وقت تک بندگان صالح کی جماعت میں داخل نہیں ہوتی جب تک کہ اس کا قرض ادا نہ ہو جائے۔ (ترمذی، ابن ماجہ)

حضرت ابوموسی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کبیرہ گناہ جن سے اللہ نے منع فرمایا ہے اللہ کے نزدیک ان کے بعد عظیم ترین گناہ کہ جس کا مرتکب ہو کر بندہ اللہ سے ملے یہ ہے کہ کوئی شخص اس حالت میں مرے کہ اس پر قرض کا بوجھ ہو اور اس نے اپنے پیچھے اتنا مال نہ چھوڑا ہو جس سے اس کا قرض ادا ہو جائے۔ (ابوداؤد)

حضرت براء بن عازب کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا قرض دار اپنے قرض کی وجہ سے محبوس کر دیا جائے گا ( یعنی جنت میں داخل ہونے اور بندگان صالح کی صحبت میں پہنچنے سے روک دیا جائے گا) چنانچہ وہ قیامت کے دن اپنے پروردگار سے اپنی تنہائی کی شکایت کرے گا۔ (شرح السنۃ)

لہٰذا جو لوگ باوجود استطاعت اور قدرت کے قرض ادا نہیں کررہے ہیں، اور آپ کے مطالبہ کے باوجود قرض کی ادائیگی میں بلاعذر تاخیر اور ٹال مٹول کررہے ہیں، انہیں درج بالا احادیث سے عبرت حاصل کرکے اس حرکت سے باز آجانا چاہیے۔ ورنہ بروزِ حشر ان کی گرفت لازمی ہے، پھر سوائے حسرت وافسوس کے اور کوئی چارہ نہ ہوگا۔

عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال : قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من مات وعلیہ دِینارٌ أو درہم قُضيَ من حسناتہ، لیس ثم دینارٌ ولا درہم۔ (سنن ابن ماجۃ، رقم : ۲۴۱۴)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
20 ذی الحجہ 1441

5 تبصرے: