پیر، 10 اگست، 2020

پٹاخوں کی فروختگی اور اسکے استعمال کا حکم

سوال :

ان دنوں برادران وطن کے تہواروں کا سلسلہ جاری ہے ان تہواروں کے موقع پر برادران وطن پٹاخے پھوڑ کرپھلجڑیاں جلا کر خوشی کا اظہار کرتے ہیں اور اسی کو دیکھ کر مسلم بچے بھی اس طرح کا فعل انجام دیتے ہیں تو
1) مسلم بچوں کا پٹاخہ اور پھلجڑیاں خریدنا اور اسے داغنا کیسا ہے؟
2) پٹاخے اور پھلجھڑیاں مسلم دکاندار کا مسلم علاقوں میں فروخت کرنا کیسا ہے؟
(المستفتی : عامر ایوبی، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : پٹاخے  پھوڑنا اور آتش بازی کرنا درج ذیل متعدد وجوہات کی بنا پر ناجائز اور حرام ہے۔

اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ۔(سورہ بقرہ، آیت : 195)
ترجمہ : اللہ کے راستے میں مال خرچ کرو، اور اپنے آپ کو خود اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ ڈالو اور نیکی اختیار کرو، بیشک اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔  (سورہ بقرہ، آیت : 195)
آتش بازی میں اکثر جان کی ہلاکت و زخمی ہونے کے واقعات پیش آتے ہیں ۔

فضول خرچی، اور وقت کا ضیاع ۔
دوسری جگہ اللہ تعالٰی ارشاد فرماتے ہیں :
إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا۔ (سورہ بنی اسرائیل، آیت : 27)
ترجمہ : بلاشبہ جو لوگ بےہودہ کاموں میں مال اڑاتے ہیں، وہ شیطان کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ناشکرا ہے۔ 

اسی طرح آتش بازی میں غیروں سے مشابَہت، اور دوسروں کو تکلیف دینا بھی پایا جاتا ہے۔ جس کی حدیث شریف میں ممانعت اور سخت وعید وارد ہوئی ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کو چاہیے کہ اِن برائیوں سے پوری طرح پرہیز کریں۔

صورتِ مسئولہ میں اگر بچے نابالغ ہیں تو ان کا گناہ ان کے والدین پر ہوگا، لہٰذا والدین پر ضروری ہے کہ بچوں کو سخت تنبیہ کریں کہ وہ اس طرح کے کاموں سے بالکل دور رہیں۔

2) پٹاخے اورآتش بازی  کے سامان کی تجارت تعاون علی المعصیت کی وجہ سے ناجائز اور گناہ ہے۔ اور اس سے حاصل شدہ آمدنی پر بھی مکروہ کا حکم ہے۔

قال اﷲ تعالیٰ : وَتَعَاوَنُوْا عَلٰی الْبِرِّ وَالتَّقْوَی وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلٰی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ۔ (سورۃ المائدۃ : ۲)

ومن حمل لذمي خمرا بأجر طاب لہ عند الإمام، وعندہما یکرہ للإعانۃ۔ (شامي، کتاب الحظر والإباحۃ، فصل في البیع، ۶/ ۳۹۲)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامرعثمانی ملی
04 ذی الحجہ 1440

4 تبصرے:

  1. اللہ آپ کو اس کا بہتر سے بہتر صلہ عطا فرمائے ، آمین آپ کے فتاویٰ بہت عام فہم اور اس کی جزئیات پر حاوی ہوتے ہیں

    جواب دیںحذف کریں
  2. Allah aap ke ilm me or izafa farmaye.

    جواب دیںحذف کریں