بدھ، 28 اکتوبر، 2020

فرض نماز کے بعد طویل دعا واذکار کا حکم

سوال :

مفتی صاحب! جن فرض نمازوں کے بعد سنت مؤکدہ ہے کیا ان نمازوں میں دعا اور اذکار کی وجہ سے سنت مؤکدہ میں تاخیر کرنا مکروہ ہے؟ اور کیا اگر کسی نے طویل دعا مانگی یا فرض نماز کے بعد ذکر کرنے کے بعد سنت پڑھی تو سنت، بغیر سنت کے ادا ہوگی؟
(المستفتی : نبیل احمد، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : جن فرض نمازوں کے بعد سنتیں نہیں ہیں، ان کے بعد دعائیں اور وظائف اور دینی گفتگو جتنی چاہیں لمبی کرسکتے ہیں، قابل غور بات ان نمازوں کے بارے میں ہے، جن کے بعد سنتیں ہوتی ہیں، تو احادیث صحیحہ سے یہ بات ثابت ہے کہ ان نمازوں کے بعد بھی حضرت سید الکونین علیہ الصلاۃ والسلام سے اذکار اور ادعیہ ماثور ومنقول ہیں، بعض اذکار اور دعائیں مختصر ثابت ہیں اور بعض طویل بھی ہیں، اسی طرح دعاؤں اور اذکار سے فراغت کے بعد آپ ﷺ گھر تشریف لے جاکر سنتیں پڑھا کرتے تھے، یہی صحابہ رضی اﷲ عنہم اور تابعین وتبع تابعین اور ائمہ مجتہدین سے ثابت ہے، اذکار اور وظائف کے بعد گھر جاکر سنتیں پڑھنا مسنون ہے، چاہے گھر مسجد سے دور ہی کیوں نہ ہو، لیکن آج کل کے زمانہ میں ہمتیں کمزور ہوگئیں، جس کی بنا پر مسجد سے باہر نکلنے کے بعد بجائے سنتوں میں مشغول ہونے کے دوسرے مشاغل میں مشغول ہوجانے کا زیادہ اندیشہ ہے، اس لئے عام لوگوں کو مسجد ہی میں سنتیں پڑھ لینی چاہئیں اور خواص جن سے سنتیں چھوٹ جانے کا خطرہ نہ ہو، ان کے لئے آج بھی یہی مسنون ہے کہ اپنی رہائش گاہ میں جاکر سنن ونوافل میں مشغول ہوجائیں، اب رہی لمبی لمبی دعائیں اور ذکر واذکار کے ذریعہ سے طویل فصل کرنا، پھر سنت پڑھنا تو اس میں دیکھا جائے کہ طویل فصل سے کیا مراد ہے؟ اگر بہت زیادہ فصل ہے جو دیکھنے والا خود سمجھ سکتا ہے، تو خلاف اولیٰ ہے۔ اور اگر بہت زیادہ فصل نہیں ہے، بلکہ چار پانچ منٹ کا فصل ہے، تو کوئی حرج نہیں ہے۔ (مستفاد: کفایت المفتی ۳/ ۳۶۵، ۳۰۷، جدید زکریا ۳/ ۳۵۳، ۳۵۴، زکریا مطول ۴/ ۷۹، فتاوی دارالعلوم ۴/ ۲۰۹، ۲۱۱)

فتاوی قاسمیہ میں ہے :
جن نمازوں کے بعد سنن ونوافل کا ثبوت ہے، ان فرض نمازوں کے بعد سنتوں سے پہلے تھوڑی دیر کے لئے اپنی جگہ بیٹھ کر ذکر ودعا اور اوراد وظائف پڑھنا حدیث سے ثابت ہے اور اس میں اتنی شدت نہیں ہے کہ فرض نماز سے فراغت کے بعد فوراً سنتیں پڑھی جائیں، بلکہ اوراد ووظائف کے ذریعہ فاصلہ کرنا حدیث شریف سے فضیلت کے ساتھ ثابت ہے۔

چنانچہ ایک حدیث شریف میں آیا ہے کہ ’’حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص مغرب کی فرض نماز کے بعد اپنی جگہ سے منتقل ہونے سے پہلے : ’’لا إلہ إلا اﷲ وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک، ولہ الحمد بیدہ الخیر یحیي ویمیت، وھو علی کل شيء قدیر‘‘ دس مرتبہ پڑھے گا، تو ہر مرتبہ پڑھنے کے مقابلہ میں دس نیکیاں لکھی جائیں گی، دس گناہ معاف ہوں گے، اور دس درجات بلند ہوں گے اور ہر ناگوار امور سے حفاظت میں رہے گا اور شیطان مردود کے مکر وفریب سے حفاظت میں رہے گا۔

اس کلمہ کو دس مرتبہ پڑھتے پڑھتے دوسرا آدمی آسانی کے ساتھ دو سنتیں پڑھ سکتا ہے۔ اور یہ حدیث شریف مغرب کی نماز کے بارے میں ہے، جس کے بعد سنتیں ہوتی ہیں، اسی طرح مسجد سے فرض پڑھنے کے بعد پیدل چل کر گھر پہنچنے کے ذریعہ سے فرض وسنت کے درمیان میں فاصلہ کرنا حدیث سے ثابت ہے، حالانکہ بہت سے صحابہ کرام کی رہائش مسجد نبوی سے کافی دوری پر تھی، جہاں تک پہنچنے میں دس دس، پندرہ پندرہ منٹ کی ضرورت پڑتی تھی، چنانچہ حدیث شریف سے یہ بھی ثابت ہے کہ ایک دفعہ حضور ﷺ نے ایسی فرض نماز ادا فرمائی کہ جس کے بعد سنتیں ہیں اور اس نماز میں حضرت ابوبکر وعمر رضی اﷲ عنہما بھی موجود تھے۔ اور ایک شخص حضور ﷺ کے ساتھ تکبیر اولیٰ میں شریک ہوگئے، جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دونوں طرف سلام پھیرا تو وہ شخص سنتوں کے لئے کھڑے ہوگئے، تو حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے اس شخص کے مونڈھے پکڑ کر کھینچ کر بٹھا دیا اور فرمایا کہ تم سے پچھلی امتیں اسی وجہ سے ہلاک ہوگئیں کہ وہ فرض اور سنتوں کے درمیان میں فاصلہ نہیں کرتی تھیں۔ حضور اکرم ﷺنے فرمایا: اے عمر! بہت اچھا کیا۔

اسی طرح فرض نمازوں کے بعد سنتوں سے پہلے حضور ﷺ سے مختلف انداز کے مختلف اوراد ووظائف اور ذکر ودعا کا پڑھنا ثابت ہے، اس لئے اگر کوئی شخص اتنی دیر کے لئے بیٹھ کر کچھ وظائف پڑھتا ہے کہ جس میں دوسرا آدمی دو رکعت سنت پڑھ سکتا ہے، تو کوئی حرج نہیں ہے۔

معلوم ہوا کہ فرض نماز کے بعد ذکر ودعا میں مشغولی کی وجہ سے عام طور پر لوگوں سے جو چار پانچ منٹ تک جو تاخیر ہوتی ہے اس میں کوئی قباحت نہیں ہے، اس سلسلے میں بعض لوگوں کی طرف سے جو شدت برتی جاتی یا ٹوکا جاتا ہے ان کا یہ عمل مزاج شریعت کے خلاف ہے۔ البتہ دس پندرہ منٹ تاخیر کرنا یا بلا ضرورت دنیاوی باتوں اور اعمال میں مشغول ہوجانے کی وجہ سے سنت کا ثواب کا کم ہوجائے گا۔

عن عبدالرحمن بن غنم، عن النبي ﷺ أنہ قال: من قال قبل أن ینصرف ویثني رجلہ من صلاۃ المغرب والصبح: ’’لا إلہ إلا اﷲ وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک، ولہ الحمد بیدہ الخیر یحیي ویمیت، وہو علی کل شيء قدیر‘‘ عشر مرات، کتب لہ بکل واحدۃ عشر حسنات، ومحیت عنہ عشر سیئات، ورفع لہ عشر درجات، وکانت حرزا من کل مکروہ، وحرزا من الشیطان الرجیم۔ (مسند أحمد ۴/ ۲۲۷، رقم: ۱۸۱۵۳)

عن أبي أیوب رضي اﷲ عنہ قال: قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: من قال دبر صلاتہ إذا صلی: ’’لا إلہ إلا اﷲ وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک، ولہ الحمد وہو علی کل شيء قدیر‘‘ عشر مرات، کتب لہ بہن عشر حسنات، ومحی عنہ بہن عشر سیئات، ورفع لہ بہن عشر درجات، وکن لہ عتق عشر رقاب، وکن لہ حرسا من الشیطان حتی یمسي، ومن قالہن حین یمسي کان لہ مثل ذلک حتی یصبح۔ (صحیح ابن حبان، ذکر التی الذی یقول لمن قالہ بعد صلاۃ الغداۃ والمغرب … دارالفکر ۳/ ۱۸۵، رقم: ۲۰۲۱)

عن الأرزق بن قیس، قال: صلی بنا إمام لنا، یکني أبا رمثۃ، فقال: صلیت ہذہ الصلوۃ، أو مثل ہذہ الصلوۃ مع النبي ﷺ قال: وکان أبوبکر وعمر یقومان في الصف المقدم عن یمینہ، وکان رجل قد شہد التکبیرۃ الأولی من الصلاۃ، فصلی نبي اﷲ ﷺ، ثم سلم عن یمینہ، وعن یسارہ، حتی رأینا بیاض خدیہ، ثم انفتل کانفتال أبي رمثۃ، یعني نفسہ، فقام الرجل الذی أدرک معہ التکبیرۃ الأولی من الصلاۃ یشفع، فوثب إلیہ عمر، فأخذ بمنکبہ فہزہ، ثم قال: اجلس، فإنہ لم یہلک أہل الکتاب إلا أنہم لم یکن بین صلواتہم فصل، فرفع النبي ﷺ بصرہ، فقال: أصاب اﷲ بک یا ابن الخطاب۔ (أبوداؤد شریف، الصلاۃ، باب في الرجل یتطوع فی مکانہ الذی صلی فیما المکتوبۃ، النسخۃ الہندیۃ ۱/ ۲۸۵، دارالسلام، ۱۰۰۷، السنن الکبری للبیہقي، کتاب الصلاۃ، باب الإمام یتحول عن مکانہ إذا اراد أن یتطوع في المسجد، دارالفکر جدید ۳/ ۲۱، رقم: ۳۱۲۹، المعجم الکبیر للطبراني، دار إحیاء التراث العربي ۲۲/ ۲۸۴، رقم: ۷۲۸)

ولو تکلم بین السنۃ والفرض لایسقطہا، ولکن ینقص ثوابہا الخ۔ (التنویر مع الدر المختار / باب الوتر والنفل، ۲؍۴۶۱، زکریا)

قال الحلواني : لا بأس بالفصل بالأوراد، واختارہ الکمال۔ (الدر المختار / باب صفۃ الصلاۃ، ۲؍۲۴۷، زکریا)
مستفاد : فتاوی قاسمیہ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
10 ربیع الاول 1442

منگل، 27 اکتوبر، 2020

قرض خواہ کا انتقال ہوجائے تو رقم کسے دی جائے؟

سوال :

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ ایک آدمی نے قرض لیا اور قرض دینے والے کا انتقال ہوگیا تو اس رقم کیا کیا جائے؟ غرباء ومساکین کو دی جائے یا پھر وارثین کو؟مدلل جواب دے کر عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : مبین الدین، گیا، بہار)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : قرض دینے والے کا انتقال ہوجائے تو اس کا مال اس کے وارثین کا ہوجاتا ہے۔ لہٰذا قرض خواہ کے وارثین مثلاً والدین، اولاد یا بھائی بہن وغیرہ میں سے کسی کو یہ رقم لوٹائی جائے گی۔ وارثین کے ہوتے ہوئے اس رقم کا صدقہ کردینا کافی نہ ہوگا، بلکہ یہ رقم قرضدار کے ذمہ باقی رہ جائے گی۔ البتہ اگر وارثین بھی نہ ہوں تو یہ رقم قرض دینے والے کی طرف سے صدقہ کردینے سے ذمہ ساقط ہوجائے گا۔

فإن جاء صاحبھا و إلا تصدق بھا إیصالا للحق إلی المستحق وھو واجب بقدر الإمکان و ذلک بإیصال عینھا عند الظفر بصاحبھا ، و إیصال العوض و ھو الثواب علی اعتبار اجازتہ التصدق بھا و إن شاء امسکھا رجاء الظفر بصاحبھا قال : فإن جاء صاحبھا یعنی بعد ما تصدق بھا فھو بالخیار إن شاء أمضی الصدقۃ ولہ ثوابھا ۔۔۔ و إن شاء ضمن الملتقط۔ (ھدایہ : ۲/۶۱۵)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
09 ربیع الاول 1442

اتوار، 25 اکتوبر، 2020

نماز میں مقتدی سلام کب پھیرے؟

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ نماز میں مقتدی تکبیرات کب کہے اور سلام کب پھیرے؟ کیا امام کے دونوں سلام پھیرنے کے بعد مقتدی کا سلام پھیرنا ضروری ہے؟ مدلل مفصل جواب عنایت فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : محمد شاہد، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مقتدی تکبیرات اور سلام میں بھی امام کی مقارنت کرے گا، یعنی امام کے ساتھ ساتھ ہی تکبیرات بھی کہے گا اور سلام بھی پھیرے گا۔

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
افضل یہی ہے کہ جیسے ہی امام سلام کی ابتداء کرے مقتدی بھی اس سے متصلاً شروع کردے۔ درمختار میں ہے : ثم یسلّم عن یمینہ ویسار․․․ مع الإمام ․․․ کالتحریمة مع الإمام وقالا: الأفضل فیہما بعدہ۔ (۲/۲۳۸ط: زکریا)۔ (رقم الفتوی : 155526)

لیکن چونکہ امام کے ساتھ ساتھ تکبیرات کہنے میں اس بات کا اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں ایک رکن سے دوسرے رکن میں جانے میں مقتدی امام سے سبقت نہ کرلے یعنی امام سے پہلے نہ چلا جائے، لہٰذا بہتر یہ ہے کہ مقتدی امام سے معمولی سی تاخیر کرے، (بالخصوص تکبیرِ تحریمہ میں کیونکہ اگر مقتدی کی تحریمہ امام سے پہلے ہوگئی تو اس کی نماز ہی نہیں ہوگی) لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ امام پورے طور پر رکوع یا سجدے میں چلا جائے اس کے بعد مقتدی رکوع یا سجدے میں جائے۔ اسی طرح سلام میں بھی یہی حکم ہے۔ البتہ امام کے دونوں طرف سلام پھیرنے کے بعد سلام پھیرنا بھی اگرچہ جائز ہے، لیکن اسے ضروری سمجھنا یا اسے ہی صحیح کہنا درست نہیں ہے۔

وَقَوْلُهُ مَعَ الْإِمَامِ بَيَانٌ لِلْأَفْضَلِ يَعْنِي الْأَفْضَلَ لِلْمَأْمُومِ الْمُقَارَنَةُ فِي التَّحْرِيمَةِ وَالسَّلَامِ عِنْدَ أَبِي حَنِيفَةَ وَعِنْدَهُمَا الْأَفْضَلُ عَدَمُهَا لِلِاحْتِيَاطِ وَلَهُ أَنَّ الِاقْتِدَاءَ عَقْدُ مُوَافَقَةٍ وَأَنَّهَا فِي الْقِرَانِ لَا فِي التَّأْخِيرِ، وَإِنَّمَا شَبَّهَ السَّلَامَ بِالتَّحْرِيمَةِ؛ لِأَنَّ الْمُقَارَنَةَ فِي التَّحْرِيمَةِ بِاتِّفَاقِ الرِّوَايَاتِ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ، وَأَمَّا فِي السَّلَامِ فَفِيهِ رِوَايَتَانِ لَكِنَّ الْأَصَحَّ مَا فِي الْكِتَابِ كَمَا فِي الْخُلَاصَةِ۔ (البحر الرائق شرح : ١/٣٥٢)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
07 ربیع الاول 1442

حمل کے دوران صحبت کرنے کا حکم

سوال :

حالت حمل میں جماع کا‌ حکم کیا ہے؟ جبکہ عورت ۵/٦ مہینہ کی حاملہ ہو، ہمارے معاشرے میں ‌افواہ ہے کہ اگر جماع کیا تو ہونے والی اولاد کے منہ پر‌ جاتا ہے۔ آپ شریعت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : ابرار الحق قریشی، احمد نگر)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں مذکور افواہ کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ کیونکہ حمل کے ایام میں شروع سے لے کر اخیر تک کسی بھی وقت بیوی سے جماع کرنا جائز اور درست ہے، شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ بلکہ فقہاء نے تو اس کے فوائد بھی بیان کیے ہیں کہ حالتِ حمل میں جماع کرنے سے بچے کے بال بڑھتے ہیں اور اس کی بینائی اور سماعت بھی تیز ہوتی ہے۔ البتہ اگر کسی عذر کی وجہ سے کوئی دِین دار اور ماہر طبیب یا ڈاکٹر احتیاط کا مشورہ دے تو الگ بات ہے، ایسی صورت میں اس کے مشورہ پر عمل کیا جائے گا۔

لِئَلَّا يَسْقِيَ مَاءَهُ زَرْعَ غَيْرِهِ إذْ الشَّعْرُ يَنْبُتُ مِنْهُ
(قَوْلُهُ: إذْ الشَّعْرُ يَنْبُتُ مِنْهُ) الْمُرَادُ ازْدِيَادُ نَبَاتِ الشَّعْرِ لَا أَصْلُ نَبَاتِهِ، وَلِذَا قَالَ فِي التَّبْيِينِ وَالْكَافِي؛ لِأَنَّ بِهِ يَزْدَادُ سَمْعُهُ وَبَصَرُهُ حِدَةً كَمَا جَاءَ فِي الْخَبَرِ. اهـ.
وَهَذِهِ حِكْمَتُهُ، وَإِلَّا فَالْمُرَادُ الْمَنْعُ مِنْ الْوَطْءِ لِمَا فِي الْفَتْحِ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «لَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاَللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَسْقِيَ مَاءَهُ زَرْعَ غَيْرِهِ» يَعْنِي إتْيَانَ الْحُبْلَى رَوَاهُ أَبُو دَاوُد وَالتِّرْمِذِيُّ وَقَالَ حَدِيثٌ حَسَنٌ. اهـ. شُرُنْبُلَالِيَّةٌ۔ (الدر المختار مع رد المحتار : ٣/٤٩)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
07 ربیع الاول 1442

ہفتہ، 24 اکتوبر، 2020

میلاد النبی ﷺ کے موقع پر جھنڈی لگانے والی روایت کی تحقیق

سوال :

مفتی صاحب درج ذیل روایت سوشل میڈیا پر گردش میں ہے، براہ کرم اس کی تحقیق فرمادیں کہ یہ صحیح ہے یا نہیں؟ اور کیا اس کی وجہ سے بارہ ربیع الاول پر جھنڈی لگانا ثواب کا کام کہلائے گا؟

حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے دیکھا کہ تین جھنڈے نصب کئے گئے، ایک مشرق میں، دوسرا مغرب میں، تیسرا کعبے کی چھت پر، اور حضور اکرم ﷺ کی ولادت ہوگئی۔
(المستفتی : محمد اسعد، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں مذکور روایت کو علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے کہ : میں نے اپنی اس کتاب میں اس سے زیادہ منکر روایت کوئی بھی بیان نہیں کی۔ (خصائص الکبری، 1/ 83، دارالکتب العلمیہ بیروت/دلائل النبوة لأبي نعيم الأصبهاني : 1/610 رقم 555)

اس کے راوی یحیی بن عبداللہ کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔ (تقریب التہذیب: 7585) اور (تہذیب التہذیب: ج11،ص240 رقم: 393)

یحییٰ بن عبد اللہ کا استاد ابوبکر بن ابی مریم بھی ضعیف راوی ہے۔ اسے امام احمد، ابوداود، ابو حاتم، ابو زرعۃ، یحیی بن معین، دارقطنی، النسائی رحمھم اللہ علیھم اجمعین اور اس کے علاوہ بھی کئی دیگر محدثین نے ضعیف و مجروح قرار دیا ہے۔ (تقریب التہذیب : 7974) اور دیکھئے : (تہذیب التہذیب: 12/28 رقم: 139/مستفاد :تحقیق شیخ طلحہ بلال منیار مدظلہ)

معلوم ہوا کہ آپ کی ارسال کردہ روایت غیرمعتبر ہے، چنانچہ اس سے میلاد النبی ﷺ کے موقع پر جھنڈیاں لگانے پر استدلال کرنا صحیح نہیں ہے، کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو ہمیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے حالات میں اس عمل کا ثبوت ملتا، جبکہ معتبر روایات میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے، لہٰذا اسے ثواب کی چیز سمجھنا بدعت اور گمراہی ہے، جس سے بچنا لازم ہے۔

عن العرباض بن ساریۃ رضي اللّٰہ عنہ قال : قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ذات یوم في خطبتہ…: إیاکم ومحدثات الأمور، فإن کل محدثۃ بدعۃ، وکل بدعۃ ضلالۃ۔ (سنن أبي داؤد : ۲؍۶۳۵)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
05 ربیع الاول 1442

جمعرات، 22 اکتوبر، 2020

کیا شوہر کے انتقال یا طلاق دینے کے بعد بھی سسر محرم ہوگا؟

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ بیٹے کے انتقال کے بعد بہو سسر کے لئے محرم رہے گی یا نہیں؟
(المستفتی : عبدالرحمن انجینئر، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : کسی آدمی سے نکاح ہوجانے کے بعد اس عورت کے لیے اس کے شوہر کے باپ دادا نصّ قطعی یعنی قرآن کریم رُو سے ہمیشہ کے لیے محرم بن جاتے ہیں۔ اب اس عورت کا ان سے نکاح کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے، خواہ شوہر انتقال کرجائے یا طلاق دے دے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں شوہر کے انتقال کے بعد بھی بہو سسر کے لیے محرم ہے۔ البتہ اگر خدانخواستہ فتنہ اندیشہ ہوتو پھر اس سے پردہ لازم ہے۔

حُرِّمَتْ عَلَیْکُمْ اُمَّہٰتُکُمْ وَبَنٰتُکُمْ وَاَخَوٰتُکُمْ وَعَمّٰتُکُمْ وَخٰلٰتُکُمْ وَبَنٰتُ الْاَخِ وَبَنٰتُ الْاُخْتِ وَاُمَّہٰتُکُمُ الّٰتِیْٓ اَرْضَعْنَکُمْ وَاَخَوٰتُکُمْ مِّنَ الرَّضَاعَۃِ وَاُمَّہٰتُ نِسَآئِکُمْ وَرَبَآئِبُکُمُ الّٰتِیْ فِیْ حُجُوْرِکُمْ مِّنْ نِسَآئِکُمُ الّٰتِیْ دَخَلْتُمْ بِہِنَّ فَاِنْ لَّمْ تَکُوْنُوْا دَخَلْتُمْ بِہِنَّ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْکُمْ وَحَلَآئِلُ اَبْنَآئِکُمُ الَّذِیْنَ مِنْ اَصْلاَبِکُمْ ، وَاَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الْاُخْتَیْنِ اِلاَّ مَا قَدْ سَلَفَ ، اِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُوْراً رَّحِیْماً۔ (سورۃ النساء : آیت ۲۳)

حرم تزوج أمہ وبنتہ وإن بعدتا ، وأختہ وبنتہا وبنت أخیہ وعمتہ وخالتہ وأم امرأتہ وبنتہا إن دخل بہا ، وامرأۃ أبیہ وابنہ وإن بعدا ، والکل رضاعًا والجمع بین الأختین ۔ (البحر الرائق : ۳/ ۹۲-۹۵)

والثالثة حليلة الابن وابن الابن وابن البنت وإن سفلوا دخل بها الابن أم لا ولا تحرم حليلة الابن المتبنى على الأب المتبني هكذا في محيط السرخسي۔ (الفتاویٰ الھندیۃ : ۲۷۴/۱)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
04 ربیع الاول 1442

عدت کے ایام میں گھر سے نکلنا

سوال :

مفتی صاحب! ایک سوال پیش خدمت ہے۔
شوہر کی وفات کے بعد عدت میں ایک خاتون کو بیٹھنا ہوگا، لیکن اس خاتون کا کوئی رشتہ دار نہیں ہے اور یہ خاتون اسلامی اسکول میں معلمہ ہیں تو کیا انکا معمول کے مطابق اسکول آکر پڑھانا اور ضروری اشیاء خریدنے کے لئے گھر سے باہر نکلنا جائز ہوگا؟
ملاحظہ : دونوں میاں بیوی فلپائن سے تھائی لینڈ کام کرنے آئے تھے۔ اب خاتون اپنی کم عمر اولاد کے ساتھ رہتی ہیں اور آمدنی کا صرف ایک ہی ذریعہ رہ گیا ہے۔ براہ مہربانی جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : محمد عمر، تھائی لینڈ)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : عدت کے ایام میں شریعتِ مطہرہ کا حکم یہی ہے کہ عورت گھر میں عدت کے ایام گزارے اور بلاضرورت گھر سے نہ نکلے۔ البتہ بوقت ضرورت دن دن میں گھر سے باہر نکلنے کی اجازت دی گئی ہے۔ مثلاً گھر میں کوئی کمانے والا نہ ہو تو وہ معاش کے لیے دن میں باہر جاسکتی ہے اور رات ہونے سے پہلے گھر واپس لوٹ جائے۔

صورتِ مسئولہ میں اگر خاتون اسکول نہ جائیں تو ان کا ذریعہ معاش ختم ہوجانے کا اندیشہ ہوتو ان کے معمول کے مطابق اسکول جانے کی گنجائش شریعت میں موجود ہے۔ چونکہ بچے بھی چھوٹے ہیں اس لیے گھر میں لگنے والی ضروری اشیاء کی خریدی کے لیے بھی ان کا نکلنا شرعاً جائز اور درست ہے، گو کہ پردہ بہر صورت ضروری ہوتا ہے خواہ عدت کے ایام ہوں یا عام حالات۔

وتعتدان أي معتدۃ طلاق وموت في بیت وجبت فیہ، ولا یخرجان منہ إلا أن تخرج أو ینہدم المنزل أو تخاف إنہدامہ أو تلف مالہا أو لا تجد کراء البیت ونحو ذٰلک من الضرورات، فتخرج لأقرب موضع إلیہ۔ (الدر المختار مع الشامي، باب العدۃ / فصل في الحداد ۵؍۲۲۵)

(ومعتدة موت تخرج في الجديدين وتبيت) أكثر الليل (في منزلها) لأن نفقتها عليها فتحتاج للخروج، حتى لو كان عندها كفايتها صارت كالمطلقة فلا يحل لها الخروج فتح. وجوز في القنية خروجها لإصلاح ما لا بد لها منه كزراعة ولا وكيل لها۔ (درمختار مع رد المحتار، فصل في  الحداد : ٣/٥٣٥)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
04 ربیع الاول 1442

بدھ، 21 اکتوبر، 2020

خواتین کی نماز کا مکمل طریقہ

سوال :

عورتوں کی نماز کا مکمل طریقہ کیا ہے؟ بیان فرمائیں۔
(المستفتی : حافظ عبداللہ، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نماز شروع کرتے وقت باوضو ہوکرکسی پاک جگہ قبلہ رخ کھڑی ہوجائے، پاؤں کا رخ بھی قبلے کی طرف رکھے، سینہ یا سرنہ جھکائے بلکہ جسم مکمل طور پر سیدھا رکھے، اور اپنی نظر سجدے کی جگہ کی طرف رکھے اور دونوں پاؤں قریب قریب رکھے۔ اسی طرح نماز سے پہلے کسی موٹی چادر یا دوپٹے وغیرہ سے سر، بال، گردن، سینہ، بازو ، کلائی، پنڈلی، ٹخنے اور دیگر بدن کو اچھی طرح چھپا لے۔ نمازشروع کرنے سے پہلے نماز کی نیت کرے، دل میں نیت کرلینا کافی ہے، زبان سے نیت کے الفاظ ادا کرنا ضروری نہیں البتہ اگر کوئی زبان سے بھی نیت کرلے تب بھی درست ہے۔ پھر تکبیرِتحریمہ کے لیے کندھوں تک ہاتھ اٹھائے، البتہ ہاتھ اٹھاتے وقت دوپٹے سے ہاتھ باہر نہ نکالے بلکہ اندر ہی اندر دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھائے، پھر اللہ اکبر کہتے ہوئے سینے پر ہاتھ اس طرح رکھے کہ دائیں ہاتھ کی ہتھیلی بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کی پشت پر آجائے، مردوں کی طرح ہاتھ نہ باندھے۔
پھر ثَنا یعنی : سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِكَ وَتَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالٰى جَدُّكَ وَلَا إلٰهَ غَيْرُكَ پڑھے۔
پھر تعوذ یعنی : أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
اور پھر تسمیہ یعنی : بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ پڑھے۔
پھر سورتِ فاتحہ اور پھر اس کے بعد کوئی اور سورت پڑھے۔یہاں تک قیام پورا ہوگیا۔ پھر رکوع کرے، جس کا طریقہ یہ ہے کہ رکوع کے لیے جاتے وقت تکبیر کہے اس طرح کہ جھکتے ہوئے تکبیر شروع کرے اور رکوع میں پہنچ کر تکبیر ختم کرے۔رکوع میں پوری طرح نہ جھکے بلکہ تھوڑا سا جھک جائے، وہ بھی صرف اس قدر کہ ہاتھ گھٹنوں تک پہنچ جائیں،اور خوب سمٹ کر رکوع کرے کہ بازووں کو پہلووں (یعنی کہنیوں کو پسلیوں) سے مِلا لے، گھٹنوں کو سیدھا نہ رکھے بلکہ تھوڑا سا آگے جھکا لے (یعنی ذرا سا خم دے دے)، ہاتھوں سے گھٹنے نہ پکڑے بلکہ ہاتھ گھٹنوں پر رکھ لے اور انگلیاں آپس میں مِلالے، نظر پاؤں کی طرف رکھے، اور دونوں پاؤں آپس میں ملا لے۔ رکوع خوب اطمینان سےکرے کہ کم از کم تین بار سُبْحَانَ رَبِّي الْعَظِيم اطمینان سے پڑھ سکے۔ رکوع سے اٹھتے ہوئےتسمیع یعنی : سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ اس طرح کہے کہ رکوع سے اٹھتے ہوئے شروع کرے اور کھڑے ہوتے ہی ختم کرے۔ رکوع کے بعد خوب سیدھا ہوکر اطمینان سے کھڑی ہوجائے اور تحمید یعنی : رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ کہے۔ پھر سجدہ کرے جس کا طریقہ یہ ہے کہ سجدے کے لیے جاتے ہوئےتکبیر کہے اس طرح کہ جھکتے ہوئے شروع کرے اور سجدے میں پہنچ کر ختم کرے۔ سجدے میں جاتے ہوئے سینہ آگے کو جھکاتے ہوئے جائے، زمین پر پہلے اپنے گھٹنے رکھے، پھر ہاتھ، پھر ناک اور پھر پیشانی رکھے، اور ہاتھوں کی انگلیاں مِلاکر قبلہ رخ رکھے، اور خوب سمٹ کر اور دَب کر سجدہ کرے کہ پیٹ رانوں سے مل جائے، کہنیاں زمین پر بچھا دے اور سینے (یعنی پہلو) سے بھی لگا دے، دونوں پاؤں کو دائیں طرف نکال کر زمین پر بچھا دے، اور جتنا ہوسکے پاؤں کی انگلیوں کو قبلہ رخ رکھے۔سجدہ خوب اچھی طرح کرے جس میں اطمینان سے کم از کم تین بار سُبْحَانَ رَبِّي الْأَعْلٰى پڑھ سکے۔ سجدے سے اٹھتے وقت پہلے پیشانی اٹھائے، پھر ناک اور پھر ہاتھ اٹھائے، سجدے سے اٹھتے ہوئے تکبیر شروع کرے اور بیٹھتے ہی ختم کرے۔ سجدے سے اٹھنے کے بعد بیٹھنے کا طریقہ یہ ہے کہ دونوں پاؤں دائیں طرف نکال کر بائیں سُرین پر بیٹھ جائے، دائیں پنڈلی کو بائیں پنڈلی پر رکھے، دونوں ہاتھ رانوں پر رکھ کر انگلیاں ملالے، اور نظر اپنی گود کی طرف رکھے۔ پھر دوسرا سجدہ اسی طرح کرے جس طرح پہلا سجدہ کیا گیا، دوسرا سجدہ کرکے دوسری رکعت کے لیے اٹھ جائے، اٹھتے وقت بلا ضرورت زمین کا سہارا نہ لے، اور اٹھتے ہوئے تکبیر شروع کرے اور کھڑے ہوتے ہی ختم کردے۔ یہ پہلی رکعت مکمل ہوئی۔ دوسری رکعت بھی اسی طرح ادا کرنی ہے جس طرح پہلی رکعت ادا کی گئی، البتہ دوسری رکعت میں پہلے بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ پڑھے، پھر فاتحہ اور سورت۔ دوسری رکعت ادا کرکے قعدہ میں بیٹھ جائے، اور التحیات سے شروع کرے، پھر تشہد پڑھتے ہوئے شہادت کی انگلی سے اشارہ کرے، اشارہ کرتے وقت دائیں ہاتھ کی درمیان والی بڑی انگلی اور انگوٹھے کے سِروں کو ملاکر گول سا حلقہ بنائے اور کنارے کی چھوٹی انگلی (یعنی چھنگلی) اور اس کے ساتھ والی انگلی کو بند کرلے، اور لَا إِلٰهَ پر شہادت کی انگلی کو اوپر اٹھا کرقبلہ کی طرف اشارہ کرے، اور إلَّا اللهُ کہتے وقت اس کو جھکا دے اور آخر تک ہاتھ کو اسی طرح رہنے دے۔ تشہد کے بعد درود شریف اور پھر دعا پڑھ کر دونوں طرف سلام پھیر لے، سلام پھیرتے وقت کندھے کی طرف نگاہ رکھے۔ یہ دو رکعت نماز کا طریقہ مکمل ہوچکا۔

(رد المحتار، فتاوی عالمگیری، بہشتی زیور،نمازیں سنت کے مطابق پڑھیں، خواتین کا طریقہ نماز از حضرت مفتی عبدالرؤف سکھروی صاحب، مرد اور عورت کی نماز میں فرق کا ثبوت از مفتی محمد رضوان صاحب، بحوالہ خواتین کی نماز کا سنت طریقہ، مفتی مبین الرحمن)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
03 ربیع الاول 1442