جمعرات، 22 اکتوبر، 2020

عدت کے ایام میں گھر سے نکلنا

سوال :

مفتی صاحب! ایک سوال پیش خدمت ہے۔
شوہر کی وفات کے بعد عدت میں ایک خاتون کو بیٹھنا ہوگا، لیکن اس خاتون کا کوئی رشتہ دار نہیں ہے اور یہ خاتون اسلامی اسکول میں معلمہ ہیں تو کیا انکا معمول کے مطابق اسکول آکر پڑھانا اور ضروری اشیاء خریدنے کے لئے گھر سے باہر نکلنا جائز ہوگا؟
ملاحظہ : دونوں میاں بیوی فلپائن سے تھائی لینڈ کام کرنے آئے تھے۔ اب خاتون اپنی کم عمر اولاد کے ساتھ رہتی ہیں اور آمدنی کا صرف ایک ہی ذریعہ رہ گیا ہے۔ براہ مہربانی جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : محمد عمر، تھائی لینڈ)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : عدت کے ایام میں شریعتِ مطہرہ کا حکم یہی ہے کہ عورت گھر میں عدت کے ایام گزارے اور بلاضرورت گھر سے نہ نکلے۔ البتہ بوقت ضرورت دن دن میں گھر سے باہر نکلنے کی اجازت دی گئی ہے۔ مثلاً گھر میں کوئی کمانے والا نہ ہو تو وہ معاش کے لیے دن میں باہر جاسکتی ہے اور رات ہونے سے پہلے گھر واپس لوٹ جائے۔

صورتِ مسئولہ میں اگر خاتون اسکول نہ جائیں تو ان کا ذریعہ معاش ختم ہوجانے کا اندیشہ ہوتو ان کے معمول کے مطابق اسکول جانے کی گنجائش شریعت میں موجود ہے۔ چونکہ بچے بھی چھوٹے ہیں اس لیے گھر میں لگنے والی ضروری اشیاء کی خریدی کے لیے بھی ان کا نکلنا شرعاً جائز اور درست ہے، گو کہ پردہ بہر صورت ضروری ہوتا ہے خواہ عدت کے ایام ہوں یا عام حالات۔

وتعتدان أي معتدۃ طلاق وموت في بیت وجبت فیہ، ولا یخرجان منہ إلا أن تخرج أو ینہدم المنزل أو تخاف إنہدامہ أو تلف مالہا أو لا تجد کراء البیت ونحو ذٰلک من الضرورات، فتخرج لأقرب موضع إلیہ۔ (الدر المختار مع الشامي، باب العدۃ / فصل في الحداد ۵؍۲۲۵)

(ومعتدة موت تخرج في الجديدين وتبيت) أكثر الليل (في منزلها) لأن نفقتها عليها فتحتاج للخروج، حتى لو كان عندها كفايتها صارت كالمطلقة فلا يحل لها الخروج فتح. وجوز في القنية خروجها لإصلاح ما لا بد لها منه كزراعة ولا وكيل لها۔ (درمختار مع رد المحتار، فصل في  الحداد : ٣/٥٣٥)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
04 ربیع الاول 1442

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں