منگل، 6 اکتوبر، 2020

حضور اکرم ﷺ کے فضلات کا حکم

سوال :

مفتی صاحب ! بیان میں ایک بات ذکر کی جاتی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پیالہ میں پیشاب کیا اور کسی صحابی کو دیا کہ اس کو کہیں ڈال دو تو ان صحابی نے پیشاب پی لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا جہنم کی آگ حرام ہوگی تو وہ کون سے صحابی تھے جنہوں پیشاب پی لیا تھا؟ اور یہ بات درست ہے یا نہیں؟ اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا پیشاب پاک ہے یا ناپاک؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : لئیق احمد، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : شوافع اور حنفیہ کے نزدیک نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے جسم اطہر سے نکلنے والے تمام فضلات پاک ہیں۔

سوال نامہ میں جس روایت سے متعلق استفسار کیا گیا ہے وہ درج ذیل ہیں، ملاحظہ فرمائیں :
ابویعلیٰ، حاکم، دارقطنی، طبرانی اور ابونعیم رحمہم اللہ نے سند کے ساتھ حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے کہ : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے وقت مٹی کے پکے ہوئے ایک برتن میں پیشاب کیا، پس میں رات کو اُٹھی، مجھے پیاس تھی، میں نے وہ پیالہ پی لیا۔ صبح ہوئی تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا، پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا : تجھے پیٹ کی تکلیف کبھی نہ ہوگی! اور ابویعلیٰ کی روایت میں ہے کہ: آج کے بعد تم پیٹ کی تکلیف کی شکایت نہ کروگی۔

طبرانی اور بیہقی نے بسند صحیح حکیمہ بنت امیمہ سے اور انہوں نے اپنی والدہ حضرت امیمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے کہ : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں لکڑی کا ایک پیالہ رکھا رہتا تھا، جس میں شب کو گاہ و بے گاہ پیشاب کرلیا کرتے تھے، اور اسے اپنی چارپائی کے نیچے رکھ دیتے تھے، آپ ایک مرتبہ (صبح) اُٹھے، اس کو تلاش کیا تو وہاں نہیں ملا، اس کے بارے میں دریافت فرمایا، تو بتایا گیا کہ اس کو برہ نامی حضرت ام سلمہ کی خادمہ نے نوش کرلیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : اس نے آگ سے بچاوٴ کے لئے حصار بنالیا۔

ان روایات میں اگرچہ کلام ہے، تاہم ان کی تصحیح بھی کی گئی ہے، اور انہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی خصوصیات میں شمار کیا گیا ہے۔

حضرت مولانا مفتی یوسف صاحب لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ اس مسئلہ کو وضاحت کے ساتھ سمجھاتے ہوئے لکھتے ہیں، جنہیں تسہیل کے ساتھ یہاں پیش کیا جارہا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں :
حق تعالیٰ شانہ کے اپنی مخلوق میں عجائبات ہیں، جن کا کماحقہ سمجھنا بھی ہم لوگوں کے لئے مشکل ہے، اس نے اپنی قدرتِ کاملہ اور حکمتِ بالغہ سے بعض اجسام میں ایسی محیرالعقول خصوصیات رکھی ہیں جو دوسرے اجسام میں نہیں پائی جاتیں۔ وہ ایک کیڑے کے لعاب سے ریشم پیدا کرتا ہے، شہد کی مکھی کے فضلات سے شہد جیسی نعمت ایجاد کرتا ہے، اور پہاڑی بکرے کے خون کو نافہ میں جمع کرکے مشک بنادیتا ہے۔ اگر اس نے اپنی قدرت سے حضراتِ انبیاء کرام علیہم السلام کے اجسامِ مقدسہ میں بھی ایسی خصوصیات رکھی ہوں کہ غذا ان کے ابدانِ طیبہ میں تحلیل ہونے کے بعد بھی نجس نہ ہو، بلکہ اس سے جو فضلات ان کے ابدان میں پیدا ہوں وہ  پاک  ہوں تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے؟ اہل جنت کے بارے میں سبھی جانتے ہیں کہ کھانے پینے کے بعد ان کو پیشاب، پاخانہ کی ضرورت نہ ہوگی، خوشبودار ڈکار سے سب کا کھایا پیا ہضم ہوجائے گا، اور بدن کے فضلات خوشبودار پسینے میں تحلیل ہوجائیں گے۔ جو خصوصیت جنتیوں کو وہاں حاصل ہوگی، اگر حق تعالیٰ شانہ حضراتِ انبیاء علیہم الصلوٰة والتسلیمات کے پاک  اجسام کو وہ خاصیت دنیا ہی میں عطا کردیں تو اس میں کیا تردد ہوسکتا ہے؟ (آپ کے مسائل اور ان کا حل : ٩/٣٦)

البتہ ایک بات یہ بھی ملحوظ رہے کہ عوام کے سامنے ایسی باتیں بیان نہ کی جائیں جو ان کے سمجھ سے باہر ہوں، لہٰذا ان روایات کو بغیر ان کی تشریح کے عوام الناس میں بیان کرنا کوئی حکیمانہ بات نہیں ہے، کیونکہ اس سے انہیں غلط فہمی میں پڑنے کا اندیشہ ہے۔ نیز یہ کوئی ایسا مسئلہ بھی نہیں ہے کہ جس کا تعلق اعمال سے ہو، لہٰذا اسے بحث کا موضوع بھی نہ بنایا جائے۔

واخرج ابویعلیٰ والحاکم والدارقطنی والطبرانی وابونعیم عن ام ایمن قالت : قام النبی صلی الله علیہ وسلم من اللیل الیٰ فخارة فبال فیھا، فقمت من اللیل وانا عطشانة فشربت ما فیھا، فلما اصبح اخبرتہ، فضحک وقال: اما انک لا یتجعن بطنک ابدا! ولفظ ابی یعلیٰ: انک لن تشتکی بطنک بعد یومک ھذا ابدا!”

واخرج الطبرانی والبیھقی بسند صحیح عن حکیمة بنت امیمة عن امھا قالت: کان للنبی صلی الله علیہ وسلم قدح من عیدان یبول فیہ ویضعہ تحت سریرہ، فقام فطلبہ فلم یجدہ فسأل عنہ فقال: این القدح؟ قالوا: شربتہ برة خادمة ام سلمة التی قدمت معھا من ارض الحبشة۔ فقال النبی صلی الله علیہ وسلم: لقد احتظرت من النار بحظار!”

كان للنبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلم قدحٌ من عيدانِ يبولُ فيهِ ويضعهُ تحت سريرهِ فقام فطلبهُ فلم يجدْهُ فسأل عنه فقال : أينَ القدحُ قالوا : شربَتهُ برَّةُ خادمُ أمِّ سلمةَ التي قدِمَت معها من أرضِ الحبشةِ فقال النبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلم لقد احتَظرَتْ من النارِ بحِظَارٍ.

الراوي: أميمة مولاة النبي وقيل هي أم أيمن
المحدث: السيوطي
المصدر:  الخصائص الكبرى
الصفحة أو الرقم:  2/253
خلاصة حكم المحدث:  إسناده صحيح
   
صحح بعض أئمۃ الشافعیۃ طہارۃ بولہ ﷺ وسائر فضلاتہ، وبہ قال أبوحنیفۃ۔ (شامي، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، مطلب في طہارۃ بولہ صلی اللہ علیہ وسلم، ۱/ ۵۲۲)

قال بعض شراح البخاري: في بولہ ودمہ وجہان والألیق الطہارۃ۔ (عمدۃ القاري، کتاب الطہارۃ، باب الماء الذي یغسل بہ شعر الإنسان، ۲/ ۴۸۱)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامرعثمانی ملی
18 صفر المظفر 1442

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں