ہفتہ، 3 اکتوبر، 2020

کریڈٹ کارڈ کا شرعی حکم

سوال :

مفتی صاحب! کریڈیٹ کارڈ استعمال کرنے کے متعلق شریعت کا کیا حکم ہے؟ مدلل رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی :اکرم ابوبکر، ایولہ)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : کاروباری ضرورت یا مالی تحفظ کی غرض سے بینک سے "کریڈٹ کارڈ" لینے اور اس کے استعمال کرنے کی اجازت ہے۔ البتہ اس میں انتہائی احتیاط برتی جائے کہ جاری کردہ بلوں کی قیمت مقررہ مدت کے اندر ادا کردینا چاہیے تاکہ ان پر جرمانہ (سود) لاگو نہ ہوسکے کیونکہ سود کا ادا کرنا حرام ہے۔

نیز کریڈٹ کارڈ کے لیے جو سالانہ فیس بینک کی طے کردہ اُجرت ہوتی ہے، جو کارڈ جاری کرانے اور اس کے لیے کی جانے والی کاررَوائی کاعوض ہے، یا ان مشینوں کے اخراجات کے مقابلے میں لی جاتی ہے، جس سے آدمی کو کہیں سے بھی کسی بھی چیز کا خریدنا آسان ہوجاتا ہے، جس کے نصب کرنے میں کثیر رقم خرچ ہوتی ہے، اس لئے اس فیس کا دینا بھی جائز ہے۔

کریڈٹ کارڈ سے متعلق ایک اور مسئلہ کی وضاحت دارالعلوم دیوبند کے ایک فتوی میں ملتی ہے، ملاحظہ فرمائیں :
کریڈٹ کارڈ بنواتے وقت انٹریسٹ دینے کا جو آپشن تسلیم کیا جاتا ہے، اس کے فارم پر دستخط کرتے وقت اگر غالب گمان یہ ہو کہ جاری کردہ بلوں کی قیمت مقررہ مدت کے اندر ادا کردی جائے گی اور عقد میں شرط پر دستخط کرنا ایک فرضی صورت ہو تو پھر کریڈٹ کارڈ کا استعمال جائز ہوگا اور اس شرط پر دستخط کرنے کی گنجائش بھی ہوگی، شرط تو شریعت کی رو سے باطل ہوجائے گی اور عقد صحیح ہوجائے گا۔ من اشترط شرطًا لیس في کتاب اللہ فہو باطل وإن کان مائة شرط۔ (مسلم شریف : ۱/۴۹۴، رقم الفتوی : 27209)

درج بالا تفصیلات سے معلوم ہوا کہ بوقت ضرورت کریڈٹ کارڈ کا استعمال کرنا جائز ہے، البتہ رقم کی ادائیگی میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے، تاخیر کی صورت میں زائد رقم دینے کی وجہ سود دینے کا گناہ ہوگا، جس پر احادیث میں لعنت وارد ہوئی ہے۔

نوٹ : کریڈیٹ کارڈ کے ذریعے نقد رقم نکالنے کی صورت میں بغیر کوئی مدت کے عموماً سود لاگو ہوجاتا ہے، لہٰذا شرعی عذر کے بغیر نقد رقم نکالنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

عن جابر قال : ’’ لعن رسول صلی اللہ علیہ وسلم للّٰہ ﷺ اٰکل الربا وموکلہ وکاتبہ وشاہدیہ ، وقال : ہم سواء ‘‘۔(۲/۲۷ ، مسلم، کتاب المساقات والمزارعۃ ، باب لعن آکل الربا وموکلہ)

قولہ : (وموکلہ) یعني : الذي یؤدي الربا إلی غیرہ، فإثم عقد الربا والتعامل بہ سواء في کل من الآخذ والمعطي ، ثم أخذ الربا أشدّ من الإعطاء لما فیہ من التمتع بالحرام۔ (موسوعۃ تکملۃ فتح الملہم، ۷/۵۷۴ ، تحت رقم :۴۰۶۸)

اعلم أن الإجارۃ عقد علی المنفعۃ بعوض ہو مال ۔ اہـ ۔ (۱۵/۸۶ ،المبسوط للسرخسي کتاب الإجارات ، بیروت)
(فتاویٰ دار العلوم دیوبند، رقم الفتویٰ : ۲۹۸۸۴)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
15 صفر المظفر 1442

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں