جمعرات، 15 اکتوبر، 2020

سانپ کو مارنے اور جلانے کا حکم

سوال :

مفتی صاحب سانپ کو مارنا کیسا ہے؟ اور مار کر اس کو جلانا چاہیے یا بغیر جلائے پھینک دینا چاہیے؟ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ جلانا چاہیے، نہیں جلائے تو اسکا جوڑی پریشان کرتا ہے۔
(المستفتی : مدثر احمد، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سانپ ان موذی اور تکلیف دہ جانداروں میں سے ہے جنہیں ہر جگہ بلکہ حرم میں بھی مارنے کی اجازت ہے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : پانچ موذی جاندار ہیں۔حل وحرم میں (جہاں بھی مل جا ئیں) مار دئے جا ئیں۔ سانپ، کوا (جس کے سر پر سفید نشان ہوتا ہے) چوہا ،پاگل کتا اور چیل۔

یہاں تک کہ احادیث میں سانپ کو نماز توڑکر مارنے کا بھی حکم وارد ہوا ہے۔ حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : نماز میں دو کالوں یعنی سانپ اور بچھو کو مار ڈالو۔

البتہ گھروں میں ملنے والے سانپوں سے متعلق مزید ایک ہدایت احادیث مبارکہ میں وارد ہوئی ہے کہ پہلے اسے تین مرتبہ گھر سے نکلنے کا حکم دیا جائے گا کیونکہ اس بات کا اندیشہ ہے کہ کسی جن نے سانپ کی شکل اختیار کرلی ہو۔

حضرت ابولبابہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سانپوں کو جو گھروں میں رہتے ہیں مارنے سے منع فرمایا ہے، سوائے ان کے جن کی پشت پر ( کالی یا سفید) دو دھاریاں ہوتی ہیں اور جن کی دم نہیں ہوتی۔ بلاشبہ یہ نظر زائل کر دینے اور عورتوں کا حمل گرا دینے کا باعث بنتے ہیں۔

نیز ابوداؤد کی ایک طویل روایت میں ہے :
ایک نوجوان کا واقعہ ہے، نئی نئی ان کی شادی ہوئی تھی، خندق سے اجازت لیکر گھر آیا تھا، بیوی کو گھر کے باہر دیکھا تو آگ بگولہ ہوگیا۔ بیوی نے کہا کہ گھر میں دیکھو کیا ہے؟ نوجوان گھر میں دیکھتا ہے تو دیکھا کہ ایک سانپ کنڈلی مارے بستر پر بیٹھا ہے۔ نوجوان نے سانپ کو نیزے میں پرولیا پھر گھر سے واپس نکلا تو وہ دوبارہ حملہ کرکے نوجوان کو مار دیا۔ اس واقعہ سے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے :
إِنَّ نَفَرًا مِنْ الْجِنِّ أَسْلَمُوا بِالْمَدِينَةِ فَإِذَا رَأَيْتُمْ أَحَدًا مِنْهُمْ فَحَذِّرُوهُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ إِنْ بَدَا لَکُمْ بَعْدُ أَنْ تَقْتُلُوهُ فَاقْتُلُوهُ بَعْدَ الثَّلَاثِ۔
ترجمہ : مدینہ میں جن رہتے ہیں، جو مسلمان ہو گئے ہیں پھر اگر تم سانپوں کو دیکھو تو تین مرتبہ ان کو خبردار کرو کہ اگر نکلو گے تو قتل ہو جاؤ گے پھر اگر وہ تین مرتبہ کے بعد تمہارے سامنے ظاہر ہو تو اسے قتل کردو۔

درج ذیل الفاظ کے ذریعے بھی انہیں خبردار کیا جاسکتا ہے۔

میں تجھ کو اس عہد کی قسم دیتا ہوں جو حضرت سلیمان بن داؤد علیہما السلام نے تجھ سے لیا تھا کہ ہم کو ایذا نہ دے اور ہمارے سامنے مت آ۔

تو گھیرے میں ہے اب نہ نکلنا اگر پھر نکلے گا تو ہم تجھ پر حملہ کریں گے اور تجھ کو مار ڈالیں گے۔

تین مرتبہ کہنے کے باوجود اگر سانپ گھر سے نہ نکلے یا نکل کر دوبارہ آجائے تو اسے مار دیا جائے گا۔ لیکن ابتر(وہ سانپ جس کی دم چھوٹی ہو) اور ذوالطفیتین (جس کی پشت پر دو سیاہ یا سفید لکیریں ہوں) ان دونوں قسم کے سانپوں کو ہر جگہ اور ہر حال میں بغیر کسی وارننگ کے مارا جائے گا۔

معلوم ہوا کہ مذکورہ بالا ہدایات کے مطابق سانپوں کو مارنا جائز ہے، البتہ انہیں مار کر جلانا ضروری نہیں۔ جلانے کی اجازت صرف اس لیے ہے کہ ان کے مرنے پر اطمینان ہوجائے، کیونکہ ڈنڈے وغیرہ کی مار سے بعض مرتبہ سانپ صرف بے ہوش ہوجاتے ہیں، مرتے نہیں ہیں۔ لہٰذا ان کے سر وغیرہ کو اچھی طرح کچل دیا جائے تاکہ ان کے مرنے کا اطمینان ہوجائے۔ جلانے سے احتراز کرنا بہتر ہے۔ اور اگر جلانے کو ضروری اس وجہ سے یہ سمجھا جائے کہ اگر نہیں جلایا گیا تو اس کا جوڑا بدلہ لینے آئے گا تو یہ بالکل باطل عقیدہ اور گناہ کی بات ہے جس کی تردید خود حدیث شریف میں وارد ہوئی ہے۔

حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :  جو شخص سانپوں کو ان کے انتقام کے ڈر سے چھوڑ دے یعنی انہیں نہ مارے وہ ہم میں سے نہیں ہے، جب سے ہماری ان سے لڑائی چھڑی ہے ہم نے ان سے کبھی بھی صلح نہیں کی ہے یعنی وہ ہمیشہ سے موذی رہے ہیں اور موذی کا قتل ضروری ہے۔

لہٰذا سوال نامہ میں مذکور اس باطل عقیدہ کا ترک کرنا ضروری ہے۔

خمسٌ فواسقٌ يُقتلْنَ في الحلِّ والحرمِ : الحيةُ ، والغرابُ الأبقعُ ، والفارةُ ، والكلبُ العقورُ ، والحُدَيَّا۔ (صحيح مسلم، رقم : 1198)

اقتلوا الأسوَدينِ في الصَّلاةِ الحيَّةَ والعقربِ۔ (سنن أبي داؤد، رقم :921)

أن رسولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم، نهى عن قتلِ الجِنَّان التي تكونُ في البيوتِ، إلا أن يكون ذا الطُّفْيَتَيْنِ، والأبترَ، فإنهما يخطفانِ البصرَ ويَطْرَحانِ ما في بطونِ النساءِ۔ (سنن أبي داود، رقم : 5253)

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ مُسْلِمٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ عِكْرِمَةَ يَرْفَعُ الْحَدِيثَ فِيمَا أَرَى إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ:‏‏‏‏ قال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مَنْ تَرَكَ الْحَيَّاتِ مَخَافَةَ طَلَبِهِنَّ فَلَيْسَ مِنَّا،‏‏‏‏ مَا سَالَمْنَاهُنَّ مُنْذُ حَارَبْنَاهُنَّ۔ (سنن ابی داؤد، رقم : 5250)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
27 صفر المظفر 1442

12 تبصرے:

  1. ماشاءاللہ مفتی صاحب اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے آمین

    جواب دیںحذف کریں
  2. ماشاء اللہ..... جزاکم اللہ خیراً کثیرا

    جواب دیںحذف کریں
  3. اور اگر جوڑا ایک ساتھ ہو تو مارسکتے ہو کہ نہیں

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. اگر جوڑا۔ ایک ساتھ ہو تو مار سکتے ھو کہ نہیں

      حذف کریں
  4. مطلب نر مادہ ایک ساتھ ہو تو
    میں نے کسی سے سنا ہے کہ جوڑا ایک ساتھ ہو تو اسے نہیں مارنا چاہیے ہے

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. اوپر کی ہدایت کی مطابق جوڑا ہو تب بھی مارنا چاہیے۔

      واللہ تعالٰی اعلم

      حذف کریں
    2. السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
      مفتی صاحب بعض کتابوں میں شاہ ولی اللہ کے بھائی کا واقعہ آتا انہوں نے سانپ کے بچے کو بغیر وارننگ مارڈالا کیا یہ واقعہ کی کچھ حقیقت ہے

      حذف کریں
    3. Agar sanp ghar me dikhe to use ek baar me teen martaba kahna hai na dikhne ka,
      ya teen alag martaba dikhne par
      kahna hai?

      حذف کریں
  5. ہ ماشاء اللہ بہت خوب جزاک اللہ ماشاءاللہ بہت خوب مفتی صاحب جزاک اللہ خیرا

    جواب دیںحذف کریں
  6. ماشا اللہ مفتی صاحب اللہ آپ کو اس کا اجر دے آمین ثم آمین یا رب العالمین

    جواب دیںحذف کریں
  7. Woh zaherele aur gair zaherele sanp jo kheton aur jangalon me rahete hain unka kya hukm hai

    جواب دیںحذف کریں