پیر، 19 اکتوبر، 2020

نماز میں پہلی صف کون سی ہوگی؟

سوال :

اکثر مساجد میں عام دنوں میں ایک صف اول ہوتی ہے، جب مصلی کم ہوتے ہیں۔ اسی کے ساتھ ایک اور چھوٹی صف بھی ہوتی ہے جو اس صف اول سے آگے ہوتی ہے جو کہ منبر کی وجہ سے مکمل نہ ہوتے ہوئے بیچ میں سے چھُوٹی ہوئی بھی ہوتی ہے، جب مصلی زیادہ ہوتے ہیں تو اس جگہ بھی صف لگ جاتی ہے۔ بہت سے پنج وقتہ  مصلی عموماً والی صف اول میں ہوتے ہیں اور پیچھے سے لوگ آکر اس سے آگے والی صف میں چلے جاتے ہیں۔ اس وقت صف اول میں کونسی صف شمار کی جائیگی؟
اور اکثر مساجد میں ایسی صفوں کے بیچ میں خلاء بھی ہوتا ہے۔ اس بارے میں رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : فیصل مدارن، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صفِ اول وہ صف ہے، جو امام کے پیچھے ہو، کسی مقتدی کے پیچھے نہ ہو، اگر صفِ اول منبر کی وجہ سے کٹ رہی ہو، تب بھی منبر کی دوسری جانب صف میں جو لوگ ہوں گے وہ بھی صفِ اول میں ہی شمار ہوں گے، اور انہیں بھی صفِ اول کا ثواب ملے گا، اس لیے کہ وہ امام کے پیچھے ہیں، اور ان کے آگے کوئی مقتدی نہیں ہے۔ فقہاء کرام نے پہلی صف کی جو تعریف بیان فرمائی ہے اس سے یہی ثابت ہوتا ہے۔

فتاوی رحیمیہ میں ہے :
صف اول وہ ہے جو امام کے قریب ہو۔ مؤذن اقامت کے لئے امام کے پیچھے کھڑا ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ مصلیوں کی جو صف ہے وہ صف اول ہے اگر یہ صف آگے بڑھ کر امام کے قریب ہوجائے اس وقت بھی وہ صف اول شمار ہوگی۔ پیچھے جماعت خانہ اور صحن میں اور اوپر بھی جگہ نہ ہوتو نمازیوں کو امام کے قریب ہوجانا بلا کراہت درست ہے جگہ ہوتے ہوئے امام کے ساتھ صف بنا لینا مکروہ تحریمی ہے۔

الزائد یقف خلفہ فلو توسط اثنتین کرہ تنریھا وتحریماً لو اکثرالخ (درمختار)قولہ وتحریماً لو اکثر)فاذا تقدم الا مام امام الصف واجب کم افادہ‘ فی الھدایۃ والفتح ۔

یعنی ایک سے زائد مقتدی ہوں تو وہ امام کے پیچھے کھڑے ہوں، اگر دو مقتدی ہوں اور امام ان کے درمیان کھڑا رہا تو مکروہ تنزیہی ہے اور اگر دو سے زائد ہوں تو مکروہ تحریمی ہے۔ (درمختار والشامی : ۱/۵۳۱، ھل الا ساء ۃ دون الکراھۃ أو ا فحش منھا)

نیز مقتدیوں کے امام کے ساتھ کھڑے ہونے میں جماعت نساء کے ساتھ بھی مشابہت لازم آتی ہے یہ بھی ایک وجہ کراہت ہے۔ صف اول کے سلسلہ میں جو لکھا گیا ہے شامی کی عبارت سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ (فتاوی رحیمیہ : ٥/٣٢)

صورتِ مسئولہ میں بعد میں آکر بغیر کسی کو تکلیف دئیے پہلی صف میں پہنچ جانے والے صفِ اول کے ثواب حقدار ہوں گے۔ البتہ کسی عذر کی وجہ سے یا دوسروں کے اکرام پچھلی صف میں رہ جانے والوں کو بھی امید ہے کہ صفِ اول کا ثواب مل جائے گا۔

ویعلم منہ بالأولی أن مثل مقصورۃ دمشق التي ہي في وسط المسجد خارج الحائط القبلي یکون الصف ما یلي الإمام في داخلہا ، وما اتصل بہ من طرفیہا خارجاً عنہا من أول الجدار إلی آخرہ ، فلا ینقطع الصف ببنائہا ، کما لا ینقطع بالمنبر الذي ہو داخلہا فیما یظہر ۔۔۔۔ ویؤخذ من تعریف الصف الأول بما ہو خلف الإمام : أي لا خلف مقتد آخر ، أن من یقام في الصف الثاني بحذاء باب المنبر یکون من الصف الأول ، لأنہ لیس خلف مقتد آخر۔ (شامي : کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في الکلام علی الصف الأول، ٢/٣١١)

ولکن العلماء اختلفوا في المراد من الصف الأول، فذہب جمہور الفقہاء إلی أن الصف الأول الممدوح الذي وردت الأحادیث بفضلہ، ہو الصف الذي یلي الإمام، سواء تخللہ منبر أو مقصورۃ أو أعمدۃ أو نحوہا۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ : صف، ۲۷/۳۸)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
01 ربیع الاول 1442

1 تبصرہ: