✍️ مفتی محمد عامر عثمانی ملی
(امام وخطیب مسجد کوہ نور)
قارئین کرام ! شہر کے ایک مقرر نے ایک جلسہ میں حسام الحرمین نامی کتاب کا نام لیا اور یہ کہا کہ سو سوا سال پہلے پانچ غنڈوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو گالی دی تھی، اس گالی پر علماء حرمین شریفین نے انہیں کافر کہا تھا۔ اس فتوی کو ان کے امام (احمد رضا خان) نے کتابی شکل میں شائع کیا تھا۔ اس کے بعد سے کئی لوگوں کے یہ سوال آچکے ہیں کہ یہ حسام الحرمین کس بلا کا نام ہے؟ تو آئیے آج ہم اس کتاب اور اس کے پس منظر کے بارے میں آسان الفاظ میں بتانے کی کوشش کریں گے۔
محترم قارئین ! آپ نے بریلی کے احمد رضا خان صاحب کا نام تو سنا ہی ہوگا۔ جنہیں مسلمانوں کا ایک طبقہ اپنا امام اور پیشوا مانتا ہے۔ انہوں نے ایک ایسا بڑا اور بے بنیاد جھگڑا اس امت میں پیدا کردیا جو آج تک جاری ہے۔ اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ یہ جھگڑا جلد از جلد عافیت کے ساتھ ختم ہوجائے۔ آمین
ہاں تو احمد رضا خان صاحب نے ایک کتاب” حسام الحرمین“ لکھی، جس کا پورا نام ہے ” حُسَامُ الْحَرَمَیْنِ عَلیٰ مَنْحَرِ الْکُفْرِ وَالْمَیْنِ“ یعنی فسق اور کفر کی گردن پر حرمین کی تلوار۔ احمد رضاخان صاحب (متوفیٰ 1340ھ) 1323 ھ مطابق 1906ء حج کے لیے مکہ مکرمہ گئے۔ علماء حرمین یعنی مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ (زاد ھما اللہ شرفاً وکرماً) کے سامنے علماء اہل السنۃ والجماعۃ دیوبند کے چار اکابر علماء کی عبارات کو غلط انداز میں پیش کیا۔ ان میں پانچواں نام مراز غلام احمد قادیانی کا ہے جو بالاتفاق امت ملعون، مردود اور کافر تھا۔ یعنی اس کے کفر میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔
معاملہ ہمارے چار اکابر رحمھم اللہ کا ہے۔ ان میں حضرت اقدس مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ (م1297ھ) پر الزام لگایا کہ انہوں نے” تحذیر الناس“ میں لکھا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی زمانہ میں کوئی نبی آسکتا ہے یعنی حضرت نانوتوی علیہ الرحمۃ نے ختم نبوت زمانی کا انکار کیا ہے۔
حضرت اقدس مفتی رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ (م1323ھ) پرالزام لگایا کہ انہوں نے” فتاویٰ رشیدیہ“ میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ جھوٹ بولتے ہیں۔
حضرت اقدس مولاناخلیل احمد سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ (م1346ھ) پر الزام لگایا کہ انہوں نے” براہین قاطعہ“ میں لکھا ہے کہ ابلیس کا علم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے علم سے زیادہ ہے۔
حضرت اقدس مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ (م1362ھ) پر الزام لگایا کہ انہوں نے ”حفظ الایمان“ میں لکھا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جتنا علم تھا اتنا علم تو ہر آدمی حتیٰ کہ پاگل اور جانور کے پاس بھی ہے۔ اُدھر معاملہ یہ تھا کہ علماء حرمین اردو نہیں جانتے تھے کہ اصل کتاب دیکھ لیتے اور ان حضرات سے متعارف بھی نہ تھے کہ ان سے براہ راست معلوم فرما لیتے۔ لہٰذا انہوں نے لکھ دیا کہ انہوں نے اگر یہ لکھا ہے تو یہ کافر ہیں۔
بس احمد رضا خان نے یہ فتویٰ لیا اور” حسام الحرمین“ کے نام سے ہندوستان میں چھاپ دیا۔ جب اس ساری صورت حال کا علم حضرت اقدس شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ (م1377ھ) کو ہوا تو حضرت مدنی نے علماءِ حرمین سے اس پر تفصیلی گفتگو فرمائی۔ علماء حرمین نے چھبیس سوالات لکھ کردیے کہ آپ علماء دیوبند اس بارے میں اپنا نقطہ نظر واضح کریں۔ ان چھبیس سوالات کے جوابات حضرت اقدس مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ نے ”اَلْمُہَنَّدْ عَلَی الْمُفَنَّدْ“ کی صورت میں تحریر فرمائے۔ ”المہند“ کا معنی ہے ”ہندی تلوار“ اور ”المفند“ کا معنی ہے ” خطا کار اور جھوٹا“ ۔ گویا کتاب کے نام کا مطلب ہوا ”جھوٹے آدمی پر ہندی تلوار“
اس وقت حضرت اقدس مولانا رشید احمد گنگوہی اور حضرت اقدس مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہما انتقال فرما چکے تھے اس لیے ان دونوں حضرات کی تصدیقات ان جوابات پر نہیں ہیں۔ البتہ ان کے صاحبزادوں؛ مولانا محمد احمد فرزندِ حضرت نانوتوی اور مولانا محمد مسعود احمد گنگوہی فرزندِ حضرت گنگوہی کی تصدیقات موجود ہیں۔ (مضمون مولانا الیاس گھمن)
اس مضمون میں ہم بطور مثال حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اﷲ کی طرف منسوب کیے گئے ایک جھوٹ اور بہتان کا پردہ فاش کریں گے۔ علامہ تھانوی رحمہ پر یہ الزام ہے کہ انہوں نے حفظ الایمان میں یہ لکھا ہے کہ ’’غیب کی باتوں کا علم جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کو ہے ایسا ہر بچہ ہر پاگل بلکہ ہر جانور ہر چارپایہ کو حاصل ہے۔‘‘ (نعوذ باﷲ)
بلاشبہ یہ حضرت تھانوی رحمہ اللہ پر بہتان اور الزام ہے، ان الفاظ کے ساتھ علامہ تھانوی رحمہ کی کوئی تحریر نہیں ہے، نہ حفظ الایمان نامی کتاب میں، نہ ہی کہیں اور۔ خود حضرت تھانوی رحمہ اﷲ سے اس کے بارے میں سوال کیا گیا، حضرت نے جو جواب دیا وہ بسط البنان اور السحاب المدرار میں طبع ہوچکا ہے جو درج ذیل ہے۔
بخدمت اقدس حضرت مولانا المولوی الحافظ الحاج الشاہ اشرف علی صاحب مدت فیو ضکم العالیہ۔
بعد سلام مسنون عرض ہے کہ مولوی احمد رضا خاں صاحب بریلوی یہ بیان کرتے ہیں اور حسام الحرمین میں آپ کی نسبت یہ لکھتے ہیں کہ آپ نے حفظ الایمان میں اس کی تصریح کی ہے کہ غیب کی باتوں کا علم جیسا کہ جناب رسول اللہ ﷺ کو ہے ایسا ہر بچے اور ہر پاگل بلکہ ہر جانور اور ہر چار پائے کو حاصل ہے اس لئے امور ذیل دریافت طلب ہیں۔
۱) آیا آپ نے حفظ الا یمان میں یا کسی کتاب میں ایسی تصریح کی ہے؟
۲) اگر تصریح نہیں کی تو بطریق لزوم بھی یہ مضمون آپ کی کسی عبارت سے نکل سکتا ہے۔
۳) آیا ایسا مضمون آپ کی مراد ہے؟
۴) اگر آپ نے نہ ایسے مضمون کی تصریح فرمائی نہ اشارۃ مفاد عبارت ہے، نہ آپ کی مراد ہے تو ایسے شخص کو جو یہ اعتقاد رکھے یا صراحۃً یا اشارۃً کہے اسے آپ مسلمان سمجھتے ہیں یا کافر؟ بینوا توجروا۔
بندہ محمد مرتضیٰ حسن عفی اﷲ عنہ۔
الجواب : مشفق مکرم سلمہم اﷲ تعالیٰ… السلام علیکم
آپ کے خط کے جواب میں عرض کرتا ہوں کہ میں نے یہ خبیث مضمون (غیب کی باتوں کا علم جیسا کہ جناب رسول اللہ ﷺ کو ہے ایسا ہر بچہ کو اور ہر پاگل بلکہ ہر جانور اور ہر چار پائے کو حاصل ہے) کسی کتاب میں نہیں لکھا اور لکھنا تو در کنار میرے قلب میں بھی اس مضمون کا کبھی خطرہ (خیال) نہیں گذرا۔
۲) میری کسی عبارت سے یہ مضمون لازم نہیں آتا، چنانچہ اخیر میں عرض کروں گا۔
٣) جب میں اس مضمون کو خبیث سمجھتا ہوں اور میرے دل میں کبھی اس کا خطرہ نہیں گذرا جیسا کہ اوپرمعروض (عرض کیا گیا) ہوا تو میری مراد کیسے ہوسکتا ہے؟
۴) جو شخص ایسا اعتقاد رکھے یا بلا اعتقاد صراحۃً یا اشارۃً یہ بات کہے میں اس شخص کو خارج از سلام سمجھتا ہوں کہ وہ تکذیب کرتا ہے نصوص قطعیہ کی اور تنقیص کرتا ہے حضور سرور عالم فخر نبی آدم کی۔ یہ تو جواب ہوا آپ کے سوالات کا … الی قولہ … میرا میرے سب بزرگوں کا عقیدہ اور قول ہمیشہ سے آپ ﷺ کے افضل المخلوقات فی جمیع الکمالات العلمیہ والعملیہ ہونے کے باب میں یہ ہے۔ بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر۔ (لبسط البنان مع حفظ الایمان : ۱۰۹)
معزز قارئین ! اگر بالفرض یہ مان بھی لیا جائے کہ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کی کتاب کی مختلف عبارتوں کو ملاکر اگر کوئی غلط معنی نکلتا ہوتو جس کے دماغ میں ایسا فاسد خیال آیا تھا اس کا سب سے پہلا کام یہ تھا کہ وہ مکہ مدینہ جاکر فتوی لانے کے بجائے براہ راست اپنے پڑوس تھانہ بھون علامہ تھانوی رحمہ اللہ سے رابطہ کرکے ان کی مراد معلوم کرلیتا۔ لیکن نہیں۔ ان کو تو دوسروں کو گستاخِ رسول اور کافر قرار دے کر بڑا کارہائے نمایاں انجام دینا تھا۔ اس لیے انہوں نے خود اپنے دماغ سے اوپر مذکور عبارت بنائی اور علماء حرمین سے فتوی لے لیا۔
جبکہ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کی سوانح حیات اگر اٹھاکر دیکھ لی جائے تو معلوم ہوگا کہ آپ کی زندگی شریعت وسنت، عشق رسول اور دین متین کی نشر واشاعت سے لبریز تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی شان اقدس میں ادنی سی گستاخی کا آپ رحمہ اللہ سے صدور ہونا ایسا ہی ناممکن ہے جیسا کہ دودھ کا واپس تھن میں جانا۔ اور جب انہوں نے بذاتِ خود اپنی زندگی میں ہی اس کی وضاحت کردی تھی کہ جو شخص ایسا عقیدہ رکھے وہ مسلمان ہی نہیں ہے تو پھر سارا قصہ ہی ختم ہو جاتا ہے۔ لیکن ناجانے کیوں امت کا ایک طبقہ اپنے امام کے بنائے ہوئے جھوٹ کو اپنے سینے سے لگائے ہوئے بیٹھا ہے اور بس اس کے علاوہ کوئی بات سمجھنا ہی نہیں چاہتا۔
ہم تو یہی دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت اور عقل سلیم سے نوازے کہ وہ کافر کافر کھیلنے سے توبہ کرکے دین کی اصل تعلیمات کو سمجھیں اور اس نشر واشاعت میں اپنی طاقتوں کو لگائیں۔ آمین یا رب العالمین