ہفتہ، 30 دسمبر، 2023

دوا کھانے کی دعا؟


سوال :

محترم مفتی صاحب دوائیں کھانے سے پہلے ہمارے یہاں جو پڑھا جاتا ہے بسم اللہ، اللہ شافی، اللہ کافی کیا یہ واقعی میں دوا کھانے کی دعا ہے؟ اگر نہیں تو دوائیں کھانے سے پہلے کونسی دعائیں پڑھنا مسنون ہیں؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : مدثر انجینئر، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : دوا کھانے سے پہلے کسی مخصوص دعا کا پڑھنا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت نہیں ہے۔ لہٰذا یہاں بھی یہی کہا جائے گا کہ جس طرح ہر کام کے شروع میں چونکہ بسم اللہ پڑھنا خیر وبرکت کا باعث ہوتا ہے، پس دوا کھانے سے پہلے بھی بسم اللہ پڑھنا مسنون ہوگا تاکہ دوا میں برکت ہو اور اللہ کے نام کی برکت سے جلد صحت یابی ملے۔

سوال نامہ میں مذکور الفاظ "بسم اللہ، اللہ شافی، اللہ کافی" ترجمہ : اللہ کے نام سے (دوا کھاتا ہوں)، اللہ ہی شفاء دینے والا اور اللہ ہی کافی ہے۔" پڑھنا جائز تو ہے، تاہم اسے سنت نہ سمجھا جائے۔

عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا أَکَلَ أَحَدُکُمْ فَلْيَذْکُرْ اسْمَ اللَّهِ تَعَالَی فَإِنْ نَسِيَ أَنْ يَذْکُرَ اسْمَ اللَّهِ تَعَالَی فِي أَوَّلِهِ فَلْيَقُلْ بِسْمِ اللَّهِ أَوَّلَهُ وَآخِرَهُ۔ (سنن أبي داود، رقم : ٣٦٦٧)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
16 جمادی الآخر 1445

بدھ، 27 دسمبر، 2023

استاد کی مار جہنم کی آگ سے بچاؤ؟


سوال :

مفتی صاحب آپ سے ایک استفتاء عرض ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایک قول مشہور ہے کہ بدن کہ جس حصہ پر استاذ کی مار لگے اس پر جہنم کی آگ اثر نہیں کرے گی یہ قول کہاں تک درست ہے؟ یا پھر جاہلانہ باتیں ہیں؟ تحقیق مطلوب ہے امید ہے کہ موقع پاکر جواب مرحمت فرمائیں گے۔
(المستفتی : زکریا، پالنپور)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : بدن کے جس حصے پر استاد کی مار لگے گی وہ حصہ جہنم کی آگ سے محفوظ رہے گا، ایسی کوئی حدیث نہیں ہے۔ کسی نے بچوں کو صبر اور تسلی دینے کے لیے ایسا کہہ دیا ہوگا، ورنہ یہ حدیث نہیں ہے، بلکہ بچوں کو مارنے کے سلسلے میں اعتدال قائم رکھنا ضروری ہے، بلاضرورت مارنا یا حد سے زیادہ مارنا ناجائز اور گناہ کی بات ہے۔

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
قرآن وحدیث یا کسی معتبر کتاب میں ہمیں یہ بات نہیں ملی کہ جسم کے جس حصہ پر استاذ کی قمچی لگتی ہے، اس حصہ پر دوزخ کی آگ حرام ہوجاتی ہے۔ (رقم الفتوی : 156983)

جامعہ بنوریہ کراچی کا فتوی ہے :
تلاش اور تتبع کے باوجود مذکورہ بات ہمیں حدیث کی کسی بھی  کتاب میں نہیں مل سکی؛ اس لیے اس کی نسبت آپ ﷺ کی طرف نہ کی جائے۔ (رقم الفتوی : 144001200415)

لہٰذا سوال نامہ میں مذکور بات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف منسوب کرنا اور اس کا بیان کرنا درست نہیں ہے۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ کَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ۔ (صحیح البخاری، رقم : ١١٠)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
13 جمادی الآخر 1445

پیر، 25 دسمبر، 2023

کراٹے میں ایک دوسرے کو جھک کر سلام کرنا


سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ کراٹا شروع کرنے سے پہلے جو ایک دوسرے کو جھک کر سلام یا آداب کیا جاتا ہے؟ اس کا کیا حکم ہے؟ جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : محمد عبداللہ، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : فن کراٹے کا مظاہرہ کرنے سے پہلے جو ایک دوسرے کے سامنے جھکا جاتا ہے اسے باؤ (bow) کرنا کہتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کے سامنے سلام یا تعظیم کے لیے اس طرح جھکنا جو رکوع کے مشابہ ہوجائے شرعاً ناجائز اور حرام ہے، اور اگر سامنے والے کی تعظیم مقصود نہ ہو تب بھی یہ عمل سخت مکروہ ہے، احادیث میں اس طرح جھکنے سے منع فرمایا گیا ہے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم، ہم میں سے کوئی جب اپنے مسلمان بھائی یا اپنے دوست سے ملاقات کرے تو کیا وہ جھک جائے؟ آپ نے فرمایا : نہیں۔ اس شخص نے کہا کہ کیا اس سے گلے ملے اور اس کو بوسہ دے؟ آپ نے فرمایا : نہیں۔ اس نے کہا تو کیا اس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لے کر اس سے مصافحہ کرے؟ آپ نے فرمایا : ہاں۔

لہٰذا کراٹے وغیرہ میں باؤ جیسے عمل سے بچنا ضروری ہے، البتہ اگر بہت معمولی سا جھکے جس میں رکوع کا شائبہ بالکل نہ ہوتو اس کی گنجائش ہوگی۔

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ : قَالَ رَجُلٌ : يَا رَسُولَ اللَّهِ الرَّجُلُ مِنَّا يَلْقَى أَخَاهُ أَوْ صَدِيقَهُ أَيَنْحَنِي لَهُ؟ قَالَ:  «لَا»، قَالَ: أَفَيَلْتَزِمُهُ وَيُقَبِّلُهُ؟ قَالَ : «لَا»، قَالَ: أَفَيَأْخُذُ بِيَدِهِ وَيُصَافِحُهُ؟ قَالَ: نَعَمْ۔ (سنن الترمذی، رقم : ٢٧٢٨)

الِانْحِنَاءُ لِلسُّلْطَانِ أَوْ لِغَيْرِهِ مَكْرُوهٌ لِأَنَّهُ يُشْبِهُ فِعْلَ الْمَجُوسِ كَذَا فِي جَوَاهِرِ الْأَخْلَاطِيِّ. وَيُكْرَهُ الِانْحِنَاءُ عِنْدَ التَّحِيَّةِ وَبِهِ وَرَدَ النَّهْيُ كَذَا فِي التُّمُرْتَاشِيِّ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٥/٣٦٩)

وَقَدْ يَكُونُ مُحَرَّمًا، كَالاِنْحِنَاءِ تَعْظِيمًا لإِِنْسَانٍ أَوْ حَيَوَانٍ أَوْ جَمَادٍ. وَهَذَا مِنَ الضَّلاَلاَتِ وَالْجَهَالاَتِ. وَقَدْ نَصَّ الْفُقَهَاءُ عَلَى أَنَّ الاِنْحِنَاءَ عِنْدَ الاِلْتِقَاءِ بِالْعُظَمَاءِ كَكِبَارِ الْقَوْمِ وَالسَّلاَطِينِ تَعْظِيمًا لَهُمْ - حَرَامٌ بِاتِّفَاقِ الْعُلَمَاءِ. لأَِنَّ الاِنْحِنَاءَ لاَ يَكُونُ إِلاَّ لِلَّهِ تَعَالَى تَعْظِيمًا لَهُ، وَلِقَوْلِهِ لِرَجُلٍ قَال لَهُ: يَا رَسُول اللَّهِ، الرَّجُل مِنَّا يَلْقَى أَخَاهُ أَوْ صَدِيقَهُ أَيَنْحَنِي لَهُ؟ قَال صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لاَ.أَمَّا إِنْ كَانَ ذَلِكَ الاِنْحِنَاءُ مُجَرَّدَ تَقْلِيدٍ لِلْمُشْرِكِينَ، دُونَ قَصْدِ التَّعْظِيمِ لِلْمُنْحَنَى لَهُ فَإِنَّهُ مَكْرُوهٌ، لأَِنَّهُ يُشْبِهُ فِعْل الْمَجُوسِ. قَال ابْنُ تَيْمِيَّةَ: الاِنْحِنَاءُ لِلْمَخْلُوقِ لَيْسَ مِنَ السُّنَّةِ، وَإِنَّمَا هُوَ مَأْخُوذٌ مِنْ عَادَاتِ بَعْضِ الْمُلُوكِ وَالْجَاهِلِينَ۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ : ٦/ ٦٣٧)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
11 جمادی الآخر 1445

ہفتہ، 23 دسمبر، 2023

اذان کے وقت سر پر دوپٹہ رکھنا


سوال :

اذان کے وقت عورتوں كا سر پر دوپٹہ اسکارف پہننا ضروری ہے یا نہیں؟ اگر اذان کے وقت عورتوں نے دوپٹہ اسکارف وغیرہ سر پر نہ رکھا تو کیا وہ گنہگار ہوں گی؟
(المستفتی : صغیر احمد، پونا)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اذان کے احترام اور ادب میں سر پر دوپٹہ رکھ لینا بہتر ہے۔ اور بغیر دوپٹہ کے نامحرم مردوں کے سامنے آنا ناجائز اور گناہ ہے۔

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
عورت کو عام حالات میں بھی سر پر دوپٹہ رکھنا چاہیے کیوں کہ پردہ جہاں تک ممکن ہو، اچھی بات ہے، اذان کے وقت سر پر دوپٹہ اوڑھنا اگرچہ ضروری نہیں، لیکن احترام اذان کی وجہ سے اس کا اہتمام کرلینا برا نہیں، بلکہ اچھی عادت ہے۔ (رقم الفتوی : 19499)

معلوم ہوا کہ اگر اذان کے وقت کوئی عورت سر پر دوپٹہ یا اسکارف نہ رکھے تو وہ گناہ گار نہیں ہوگی، کیونکہ ایسا کرنا شرعاً فرض یا واجب نہیں ہے۔ البتہ نماز تو بہرحال ادا کرنا ہے۔ اذان کے وقت سر پر صرف دوپٹہ رکھ لینے کو دین سمجھنا اور اصل حکم ومقصدِ اذان یعنی نماز ترک کردینا بڑی حماقت اور سخت گناہ کی بات ہے۔

يُرَخَّصُ لِلْمَرْأَةِ كَشْفُ الرَّأْسِ فِي مَنْزِلِهَا وَحْدَهَا فَأَوْلَى أَنْ يَجُوزَ لَهَا لُبْسِ خِمَارٍ رَقِيقٍ يَصِفُ مَا تَحْتَهُ عِنْدَ مَحَارِمِهَا كَذَا فِي الْقُنْيَةِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٥/٣٣٣)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
09 جمادی الآخر 1445

منگل، 19 دسمبر، 2023

حسام الحرمین کیا ہے؟

✍️ مفتی محمد عامر عثمانی ملی
    (امام وخطیب مسجد کوہ نور)

قارئین کرام ! شہر کے ایک مقرر نے ایک جلسہ میں حسام الحرمین نامی کتاب کا نام لیا اور یہ کہا کہ سو سوا سال پہلے پانچ غنڈوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو گالی دی تھی، اس گالی پر علماء حرمین شریفین نے انہیں کافر کہا تھا۔ اس فتوی کو ان کے امام (احمد رضا خان) نے کتابی شکل میں شائع کیا تھا۔ اس کے بعد سے کئی لوگوں کے یہ سوال آچکے ہیں کہ یہ حسام الحرمین کس بلا کا نام ہے؟ تو آئیے آج ہم اس کتاب اور اس کے پس منظر کے بارے میں آسان الفاظ میں بتانے کی کوشش کریں گے۔

محترم قارئین ! آپ نے بریلی کے احمد رضا خان صاحب کا نام تو سنا ہی ہوگا۔ جنہیں مسلمانوں کا ایک طبقہ اپنا امام اور پیشوا مانتا ہے۔ انہوں نے ایک ایسا بڑا اور بے بنیاد جھگڑا اس امت میں پیدا کردیا جو آج تک جاری ہے۔ اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ یہ جھگڑا جلد از جلد عافیت کے ساتھ ختم ہوجائے۔ آمین

ہاں تو احمد رضا خان صاحب نے ایک کتاب” حسام الحرمین“ لکھی، جس کا پورا نام ہے ” حُسَامُ الْحَرَمَیْنِ عَلیٰ مَنْحَرِ الْکُفْرِ وَالْمَیْنِ“ یعنی فسق اور کفر کی گردن پر حرمین کی تلوار۔ احمد رضاخان صاحب (متوفیٰ 1340ھ) 1323 ھ مطابق 1906ء حج کے لیے مکہ مکرمہ گئے۔ علماء حرمین یعنی مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ (زاد ھما اللہ شرفاً وکرماً) کے سامنے علماء اہل السنۃ والجماعۃ دیوبند کے چار اکابر علماء کی عبارات کو غلط انداز میں پیش کیا۔ ان میں پانچواں نام مراز غلام احمد قادیانی کا ہے جو بالاتفاق امت ملعون، مردود اور کافر تھا۔ یعنی اس کے کفر میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔

معاملہ ہمارے چار اکابر رحمھم اللہ کا ہے۔ ان میں حضرت اقدس مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ (م1297ھ) پر الزام لگایا کہ انہوں نے” تحذیر الناس“ میں لکھا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی زمانہ میں کوئی نبی آسکتا ہے یعنی حضرت نانوتوی علیہ الرحمۃ نے ختم نبوت زمانی کا انکار کیا ہے۔

حضرت اقدس مفتی رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ (م1323ھ) پرالزام لگایا کہ انہوں نے” فتاویٰ رشیدیہ“ میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ جھوٹ بولتے ہیں۔

حضرت اقدس مولاناخلیل احمد سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ (م1346ھ) پر الزام لگایا کہ انہوں نے” براہین قاطعہ“ میں لکھا ہے کہ ابلیس کا علم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے علم سے زیادہ ہے۔

حضرت اقدس مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ (م1362ھ) پر الزام لگایا کہ انہوں نے ”حفظ الایمان“ میں لکھا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جتنا علم تھا اتنا علم تو ہر آدمی حتیٰ کہ پاگل اور جانور کے پاس بھی ہے۔ اُدھر معاملہ یہ تھا کہ علماء حرمین اردو نہیں جانتے تھے کہ اصل کتاب دیکھ لیتے اور ان حضرات سے متعارف بھی نہ تھے کہ ان سے براہ راست معلوم فرما لیتے۔ لہٰذا انہوں نے لکھ دیا کہ انہوں نے اگر یہ لکھا ہے تو یہ کافر ہیں۔
بس احمد رضا خان نے یہ فتویٰ لیا اور” حسام الحرمین“ کے نام سے ہندوستان میں چھاپ دیا۔ جب اس ساری صورت حال کا علم حضرت اقدس شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ (م1377ھ) کو ہوا تو حضرت مدنی نے علماءِ حرمین سے اس پر تفصیلی گفتگو فرمائی۔ علماء حرمین نے چھبیس سوالات لکھ کردیے کہ آپ علماء دیوبند اس بارے میں اپنا نقطہ نظر واضح کریں۔ ان چھبیس سوالات کے جوابات حضرت اقدس مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ نے ”اَلْمُہَنَّدْ عَلَی الْمُفَنَّدْ“ کی صورت میں تحریر فرمائے۔ ”المہند“ کا معنی ہے ”ہندی تلوار“ اور ”المفند“ کا معنی ہے ” خطا کار اور جھوٹا“ ۔ گویا کتاب کے نام کا مطلب ہوا ”جھوٹے آدمی پر ہندی تلوار“
اس وقت حضرت اقدس مولانا رشید احمد گنگوہی اور حضرت اقدس مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہما انتقال فرما چکے تھے اس لیے ان دونوں حضرات کی تصدیقات ان جوابات پر نہیں ہیں۔ البتہ ان کے صاحبزادوں؛ مولانا محمد احمد فرزندِ حضرت نانوتوی اور مولانا محمد مسعود احمد گنگوہی فرزندِ حضرت گنگوہی کی تصدیقات موجود ہیں۔ (مضمون مولانا الیاس گھمن)

اس مضمون میں ہم بطور مثال حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اﷲ کی طرف منسوب کیے گئے ایک جھوٹ اور بہتان کا پردہ فاش کریں گے۔ علامہ تھانوی رحمہ پر یہ الزام ہے کہ انہوں نے حفظ الایمان میں یہ لکھا ہے کہ ’’غیب کی باتوں کا علم جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کو ہے ایسا ہر بچہ ہر پاگل بلکہ ہر جانور ہر چارپایہ کو حاصل ہے۔‘‘ (نعوذ باﷲ)

بلاشبہ یہ حضرت تھانوی رحمہ اللہ پر بہتان اور الزام ہے، ان الفاظ کے ساتھ علامہ تھانوی رحمہ کی کوئی تحریر نہیں ہے، نہ حفظ الایمان نامی کتاب میں، نہ ہی کہیں اور۔ خود حضرت تھانوی رحمہ اﷲ سے اس کے بارے میں سوال کیا گیا، حضرت نے جو جواب دیا وہ بسط البنان اور السحاب المدرار میں طبع ہوچکا ہے جو درج ذیل ہے۔

بخدمت اقدس حضرت مولانا المولوی الحافظ الحاج الشاہ اشرف علی صاحب مدت فیو ضکم العالیہ۔
بعد سلام مسنون عرض ہے کہ مولوی احمد رضا خاں صاحب بریلوی یہ بیان کرتے ہیں اور حسام الحرمین میں آپ کی نسبت یہ لکھتے ہیں کہ آپ نے حفظ الایمان میں اس کی تصریح کی ہے کہ غیب کی باتوں کا علم جیسا کہ جناب رسول اللہ ﷺ کو ہے ایسا ہر بچے اور ہر پاگل بلکہ ہر جانور اور ہر چار پائے کو حاصل ہے اس لئے امور ذیل دریافت طلب ہیں۔

۱) آیا آپ نے حفظ الا یمان میں یا کسی کتاب میں ایسی تصریح کی ہے؟

۲) اگر تصریح نہیں کی تو بطریق لزوم بھی یہ مضمون آپ کی کسی عبارت سے نکل سکتا ہے۔

۳) آیا ایسا مضمون آپ کی مراد ہے؟

۴) اگر آپ نے نہ ایسے مضمون کی تصریح فرمائی نہ اشارۃ مفاد عبارت ہے، نہ آپ کی مراد ہے تو ایسے شخص کو جو یہ اعتقاد رکھے یا صراحۃً یا اشارۃً کہے اسے آپ مسلمان سمجھتے ہیں یا کافر؟ بینوا توجروا۔
بندہ محمد مرتضیٰ حسن عفی اﷲ عنہ۔

الجواب : مشفق مکرم سلمہم اﷲ تعالیٰ… السلام علیکم
آپ کے خط کے جواب میں عرض کرتا ہوں کہ میں نے یہ خبیث مضمون (غیب کی باتوں کا علم جیسا کہ جناب رسول اللہ ﷺ کو ہے ایسا ہر بچہ کو اور ہر پاگل بلکہ ہر جانور اور ہر چار پائے کو حاصل ہے) کسی کتاب میں نہیں لکھا اور لکھنا تو در کنار میرے قلب میں بھی اس مضمون کا کبھی خطرہ (خیال) نہیں گذرا۔

۲) میری کسی عبارت سے یہ مضمون لازم نہیں آتا، چنانچہ اخیر میں عرض کروں گا۔

٣) جب میں اس مضمون کو خبیث سمجھتا ہوں اور میرے دل میں کبھی اس کا خطرہ نہیں گذرا جیسا کہ اوپرمعروض (عرض کیا گیا) ہوا تو میری مراد کیسے ہوسکتا ہے؟

۴) جو شخص ایسا اعتقاد رکھے یا بلا اعتقاد صراحۃً یا اشارۃً یہ بات کہے میں اس شخص کو خارج از سلام سمجھتا ہوں کہ وہ تکذیب کرتا ہے نصوص قطعیہ کی اور تنقیص کرتا ہے حضور سرور عالم فخر نبی آدم کی۔ یہ تو جواب ہوا آپ کے سوالات کا … الی قولہ … میرا میرے سب بزرگوں کا عقیدہ اور قول ہمیشہ سے آپ ﷺ کے افضل المخلوقات فی جمیع الکمالات العلمیہ والعملیہ ہونے کے باب میں یہ ہے۔ بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر۔ (لبسط البنان مع حفظ الایمان : ۱۰۹)

معزز قارئین ! اگر بالفرض یہ مان بھی لیا جائے کہ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کی کتاب کی مختلف عبارتوں کو ملاکر اگر کوئی غلط معنی نکلتا ہوتو جس کے دماغ میں ایسا فاسد خیال آیا تھا اس کا سب سے پہلا کام یہ تھا کہ وہ مکہ مدینہ جاکر فتوی لانے کے بجائے براہ راست اپنے پڑوس تھانہ بھون علامہ تھانوی رحمہ اللہ سے رابطہ کرکے ان کی مراد معلوم کرلیتا۔ لیکن نہیں۔ ان کو تو دوسروں کو گستاخِ رسول اور کافر قرار دے کر بڑا کارہائے نمایاں انجام دینا تھا۔ اس لیے انہوں نے خود اپنے دماغ سے اوپر مذکور عبارت بنائی اور علماء حرمین سے فتوی لے لیا۔

جبکہ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کی سوانح حیات اگر اٹھاکر دیکھ لی جائے تو معلوم ہوگا کہ آپ کی زندگی شریعت وسنت، عشق رسول اور دین متین کی نشر واشاعت سے لبریز تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی شان اقدس میں ادنی سی گستاخی کا آپ رحمہ اللہ سے صدور ہونا ایسا ہی ناممکن ہے جیسا کہ دودھ کا واپس تھن میں جانا۔ اور جب انہوں نے بذاتِ خود اپنی زندگی میں ہی اس کی وضاحت کردی تھی کہ جو شخص ایسا عقیدہ رکھے وہ مسلمان ہی نہیں ہے تو پھر سارا قصہ ہی ختم ہو جاتا ہے۔ لیکن ناجانے کیوں امت کا ایک طبقہ اپنے امام کے بنائے ہوئے جھوٹ کو اپنے سینے سے لگائے ہوئے بیٹھا ہے اور بس اس کے علاوہ کوئی بات سمجھنا ہی نہیں چاہتا۔

ہم تو یہی دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت اور عقل سلیم سے نوازے کہ وہ کافر کافر کھیلنے سے توبہ کرکے دین کی اصل تعلیمات کو سمجھیں اور اس نشر واشاعت میں اپنی طاقتوں کو لگائیں۔ آمین یا رب العالمین

پیر، 18 دسمبر، 2023

مخصوص نام رکھنے کی منت ماننا


سوال :

میری اہلیہ حاملہ ہیں اور ولادت کا وقت قریب ہے۔ میں نے اس کے متعلق اللہ سے دعا کی تھی کہ اگر اللہ ربّ العزت اولاد نرینہ سے نوازیں گے تو نبی اٰخرالزماں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحب زادہ حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کے نام پر ابراہیم رکھوں گا۔ مسئلہ یہ ہے کہ اگر اللہ نے اولاد نرینہ سے نوازا تو ابراہیم نام رکھنا منّت کے دائرہ میں آئے گا یا ارادے کے؟ رہنمائی فرما دیں۔
(المستفتی : ذکی عثمانی، مظفر نگر، یوپی)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : جس چیز کی منت مانی جارہی ہے ضروری ہے کہ وہ چیز عبادتِ مقصودہ کے قبیل سے فرض و واجب کے جنس یعنی نماز، روزہ، صدقہ وغیرہ میں سے ہو، تب کام کے پورا ہوجانے پر ایسی منت کا پورا کرنا واجب ہوتا ہے، منت پورا نہ کرنے کی صورت میں ایسا شخص گنہگار ہوتا ہے۔

صورتِ مسئولہ میں آپ نے جو اپنے ہونے والے بیٹے کا نام "ابراہیم" رکھنے کی منت مانی ہے، یہ عبادتِ مقصودہ نہیں ہے، لہٰذا یہ منت شرعاً منعقد نہیں ہوئی ہے، پس آپ اپنے ہونے والے بیٹے کا نام رکھنے کے سلسلہ میں آزاد ہوں گے، چاہیں تو "ابراہیم" نام رکھیں، یا اور کوئی اچھا نام رکھیں، شرعاً آپ پر کوئی گناہ نہیں ہوگا۔

وَمَنْ نَذَرَ نَذْرًا مُطْلَقًا أَوْ مُعَلَّقًا بِشَرْطٍ وَكَانَ مِنْ جِنْسِهِ وَاجِبٌ) أَيْ فَرْضٌ كَمَا سَيُصَرِّحُ بِهِ تَبَعًا لِلْبَحْرِ وَالدُّرَرِ (وَهُوَ عِبَادَةٌ مَقْصُودَةٌ) خَرَجَ الْوُضُوءُ وَتَكْفِينُ الْمَيِّتِ (وَوُجِدَ الشَّرْطُ) الْمُعَلَّقُ بِهِ (لَزِمَ النَّاذِرَ) لِحَدِيثِ «مَنْ نَذَرَ وَسَمَّى فَعَلَيْهِ الْوَفَاءُ بِمَا سَمَّى» (كَصَوْمٍ وَصَلَاةٍ وَصَدَقَةٍ) وَوَقْفٍ (وَاعْتِكَافٍ) وَإِعْتَاقِ رَقَبَةٍ وَحَجٍّ وَلَوْ مَاشِيًا فَإِنَّهَا عِبَادَاتٌ مَقْصُودَةٌ، وَمِنْ جِنْسِهَا وَاجِبٌ لِوُجُوبِ الْعِتْقِ فِي الْكَفَّارَةِ وَالْمَشْيِ لِلْحَجِّ عَلَى الْقَادِرِ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ۔ (شامی : ٣/٧٣٥)

(وَلَمْ يَلْزَمْ) النَّاذِرَ (مَا لَيْسَ مِنْ جِنْسِهِ فَرْضٌ كَعِيَادَةِ مَرِيضٍ وَتَشْيِيعِ جِنَازَةٍ وَدُخُولِ مَسْجِدٍ)۔ (شامی : ٣/٧٣٦)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
04 جمادی الآخر 1445

جمعہ، 15 دسمبر، 2023

چندے کے بڑھتے اسٹال اور ویران مساجد

✍️ مفتی محمد عامرعثمانی ملی
    (امام وخطیب مسجد کوہ نور)

قارئین کرام ! شہر کے مضافات کی ایک وسیع مسجد کی ویڈیو واٹس اپ پر وائرل ہے جس میں امام صاحب نماز پڑھا رہے ہیں اور ان کی اقتداء میں صرف ایک مصلی نماز پڑھ رہا ہے۔ اس ویڈیو اور شہر میں مساجد کی تعمیر میں تعاون کے لیے لگائے جانے والے چندے کے بڑھتے ہوئے اسٹال دیکھنے کے بعد کچھ باتیں ذہن میں آرہی ہیں جسے آپ حضرات کی بصارتوں اور بصیرتوں کے حوالے کرنا ضروری سمجھتے ہیں تاکہ ہر کوئی اپنی استطاعت کے مطابق اس میں حصہ لے سکے۔

محترم قارئین ! ہمارے شہر میں مساجد کی تعمیر میں تعاون کے لئے جمعہ کے دن شہر کی مشہور سڑکوں اور چوک چوراہوں پر صبح دس بجے کے آس پاس اسٹال لگایا جاتا ہے جو رات میں دس بجے کے آس پاس اٹھایا جاتا ہے جس میں لاؤڈ-اسپیکر کا بھرپور استعمال ہوتا ہے۔ چند سالوں پہلے ہم نے اس پر ایک فتوی بھی لکھا تھا جو درج ذیل ہے، اس کے بعد ہم اس سلسلے میں مزید کچھ قباحتیں عرض کریں گے۔

فتوی ملاحظہ فرمائیں :
مسجد و مدرسہ کے بنانے اور اس کے اخراجات کی تکمیل کے سلسلے میں تعاون کرنا یا کروانا بڑا نیک عمل ہے، ہر مسلمان بقدر استطاعت اس میں حصہ لینا اپنی سعادت سمجھتا ہے، لیکن ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ چندے کی وصولی میں دن بدن بے احتیاطی اور شرعی حدود و قیود سے تجاوز پایا جارہا ہے، ایسے حالات میں آپ کا سوال بڑی اہمیت کا حامل ہے جس پر شرعی رہنمائی وقت کی اہم ضرورت ہے۔

جیسا کہ ذکر کیا گیا کہ مسجد و مدرسے کا کسی بھی درجہ میں تعاون کرنا ہر مسلمان اپنی سعادت سمجھتا ہے، لہٰذا نوجوانوں کے اس جذبہ کا فائدہ اٹھاکر بعض مساجد ومدارس کے ذمہ داروں نے علماء کرام سے مشورہ کئے بغیر ان نوجوانوں کو چندے کے اسٹال مع لاؤڈ-اسپیکر پر بٹھا دیا، یا پھر ان نوجوانوں نے ہی لاعلمی میں اس طریقہ کار کو اختیار کرلیا ہے۔

چوک چوراہوں پر چندے کے اسٹال جن میں لاؤڈ-اسپیکر کا استعمال لازمی ہوتا ہے اگر اس کا شریعت مطہرہ کی روشنی میں جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس میں متعدد قباحتیں موجود ہیں، جن میں سرفہرست ایذائے مسلم کا گناہ لازماً پایا جاتا ہے، ظاہر ہے جب دن دن بھر کان پھاڑنے والے لاؤڈ-اسپیکر کے ذریعے مسلسل حمد، نعت اور دیگر اشعار پڑھے جائیں اور چندے کی اپیل کی جائے گی تو کوئی کب تک بشاشت کو باقی رکھ سکتا ہے؟ بلاشبہ ہر انسان کو اس سے تکلیف ہوگی، بالخصوص اطراف کے گھروں اور مساجد میں نماز، تلاوت، اور ذکر میں مشغول مسلمانوں اور مریضوں کو سخت ذہنی اذیت سے گذرنا پڑتا ہے۔ لہٰذا اس طرح چندہ کرنے والے حضرات یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ مسجد و مدرسہ کا چندہ کرنا بلاشبہ اجرِ عظیم ہے لیکن اس میں اس بات کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے کہ اس کی وجہ سے لوگو‌ں کو تکلیف نہ ہو، اس لئے بغیر لاؤڈ-اسپیکر کے چندہ کیا جائے اس صورت میں جتنا چندہ جمع ہوجائے اسی پر اکتفاء کیا جائے، اس سے زیادہ کے آپ مکلف نہیں ہیں، زیادہ چندے کی امید پر شریعت کے دیگر اہم احکام کی پامالی قطعاً جائز نہیں ہے، ورنہ آپ کی نیکی برباد گناہ لازم آئے گا۔ بطور خاص یہ بھی ملحوظ رہے کہ ذمہ داران بلاضرورت اور معقول انتظام کے بغیر تعمیری کام شروع ہی نہ کریں۔

اسی طرح بچوں کے ذریعے چندہ کرانے کی صورت میں ایک قباحت تو یہ ہے کہ بچے ناسمجھی کی وجہ سے کسی بھی راہ گیر سے لگ لپٹ کر چندے کا مطالبہ کرنے لگتے ہیں، جس کی وجہ سے راہ گیر شرما حضوری میں چندہ دے دیتا ہے، اس طرح چندہ وصول کرنا شرعاً درست نہیں ہے، دوسرے یہ کہ بعض بچے تربیت کی کمی اور شعور کی ناپختگی کی وجہ سے چندے کی رقم میں خیانت بھی کر بیٹھتے ہیں جس کا مشاہدہ بھی ہے۔ یا پھر ٹریفک کی وجہ سے کسی سواری کی زد میں آکر خدانخواستہ ان کا نقصان بھی ہوسکتا ہے۔ لہٰذا حتی الامکان بچوں سے مذکورہ کام لینے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ (فتوی مکمل ہوا)

بعض اسٹالوں میں عصر بعد سے ہی یہ اعلان ہونے لگتا ہے کہ پانچ ہزار ہونے میں چار ہزار باقی ہے، یعنی ابھی کئی گھنٹوں میں صرف ایک ہزار ہی چندہ ہوا ہے۔ اس طرح کے اعلانات سے بلاشبہ مسجد مدرسہ کی اہمیت کم ہوتی ہے اور بہت ہلکا پن محسوس ہوتا ہے۔ اگر یہ باتیں کوئی غیرمسلم سنے گا تو کیا سوچے گا؟

ان اسٹالوں میں آپ کو اناؤنسر عموماً پیشہ ور ملیں گے، جو اپنے فن کا مظاہرہ کرکے لوگوں کو پریشان کرتے رہتے ہیں، ان میں ایک بندہ تو مفتی اسماعیل صاحب کی آواز میں اپیل کرکے راہ گیروں کو کنفیوز کرتا رہتا ہے، اسی طرح بعض پنڈالوں سے بھائی ابو سفیان ایم آر کی آواز آتی رہتی ہے، ہوسکتا ہے کوئی ان کی بھی نقل کرتا ہے یا پھر ان کی ریکارڈنگ چلائی جارہی ہوتی ہے۔ میں تو کہتا ہوں کہ انہیں ایسے لوگوں پر کاپی رائٹ کا مقدمہ کرنا چاہیے۔ ☺️

ان چندوں کے اسٹالوں میں آپ کو ایک مخصوص طبقہ کے اسٹال بھی بڑی تعداد میں ملیں گے جو اپنے یہاں اجتماعی قربانی کے بینر پر یہ جملہ لکھنا نہیں بھولتے کہ اجتماعی قربانی صرف "فلاں فلاں" کے لیے، تو اپنے چندوں کے اسٹال میں یہ کیوں نہیں لکھتے اور اعلان کرتے ہیں کہ چندہ صرف "فلاں فلاں" دیں اور فلاں فلاں دور رہیں۔ یہی وہ طبقہ ہے جو پہلے سے موجود مساجد کے بغل میں ہی دوسری تین چار سو اسکوائر فٹ کی مسجد بنا لیتا ہے جہاں روزآنہ نماز سے زیادہ پابندی سے لاؤڈ-اسپیکر پر ان کے مخصوص پروگرام کا اہتمام ہوتا ہے جو اہلیان محلہ کے لیے گویا درد سر بن جاتا ہے۔

لہٰذا ہمارا کہنا یہی ہے کہ لاؤڈ-اسپیکر کی تیز آواز اور ٹرافک جام کرکے لوگوں کو تکلیف دے کر چندہ کرنے والا یہ سلسلہ مکمل طور پر بند کیا جائے اور ہمارے یہاں جو طریقہ پہلے سے رائج ہے اسی پر عمل کیا جائے مثلاً مساجد کی تعمیر میں خصوصی تعاون کرنے اور کروانے کی کوشش کی جائے، ایک فرد یا ایک فیملی کی طرف سے پوری مسجد کی تعمیر کا خرچ مل جائے اس کی کوشش کریں، شہر میں ایسی متعدد مساجد ہیں جو صرف ایک فرد یا ایک فیملی کی تعمیر کی ہوئی ہیں۔ اس میں شفافیت بھی رہتی ہے۔ اور باہر ملکوں اور شہروں میں اسی طرح عموماً مساجد تعمیر ہوتی ہیں، ہماری طرح چندے کے اسٹال آپ کو کہیں اور دیکھنے کو نہیں ملیں گے۔

اسی طرح جمعہ کے دن دیگر مساجد سے تعاون کی اپیل کرکے وہاں سے چندہ وصول کرنا، اہلیانِ محلہ کی میٹنگیں لے کر انہیں ہفتہ واری یا ماہانہ ان کی بشاشت اور استطاعت کے مطابق ان سے تعاون کی درخواست کی جائے کیونکہ مسجد تعمیر کی اصل ذمہ داری اہلیانِ محلہ کی ہے۔ اور بستی غریب طبقہ کی ہے جہاں گھر کچے اور پترے کے ہیں تو وہاں گاؤں بھر سے چندہ کرکے مسجد پچاس لاکھ، ستر لاکھ اور ایک کروڑ کی بنانا ضروری نہیں ہے، بلکہ فی الحال بستی کی پوزیشن کے حساب سے پترے کی بنالی جائے تو کیا غلط ہوجائے گا؟ شہر میں ایسی بستیوں میں پچاسوں مساجد ایسی بنی ہوئی ہیں۔

بہت سے اہل خیر حضرات صرف مسجد میں بور کروانے میں ہی دلچسپی رکھتے ہیں، ایسا گمان ہوتا ہے کہ وہ صرف بور کروانے کو ہی صدقہ جاریہ سمجھتے ہیں، جبکہ اخلاص کے ساتھ مسجد میں لگا ہوا آپ کا ایک ایک روپیہ ان شاءاللہ صدقہ جاریہ بنے گا۔ اس لیے آپ نے جو بور کروانے کا پیسہ رکھا ہوا ہے وہ آپ کسی زیرِ تعمیر مسجد میں لگادیں ان شاءاللہ آپ کو وہی ثواب ملے گا، اسی طرح بہت سے افراد دو پانچ لاکھ لے کر اس بات کی خواہش رکھتے ہیں کہ ان کے مرحومین کے نام سے مسجد بن جائے تو انہیں بھی چاہیے کہ نئی مسجد کی کوشش کرنے کے بجائے ضرورت کی جگہوں پر زیر تعمیر مساجد میں یہ رقم لگا دیں تو آپ کو اور آپ کے مرحومین کو وہی ثواب ملے گا جو نئی مسجد کی تعمیر میں ملے گا۔ ان شاءاللہ

چندوں کے بڑھتے ہوئے اسٹال اور ویران مساجد دیکھنے کے بعد یہ بات کھل کر سامنے آرہی ہے کہ مساجد کی تعمیر میں ہم لوگ اعتدال سے آگے بڑھ چکے ہیں، کیونکہ جس مسجد کی ویڈیو وائرل ہوئی ہے وہاں کے امام صاحب کا کہنا ہے کہ اطراف میں بستی نہ ہونے اور کئی مساجد ہونے کی وجہ سے یہاں ایسا ہوتا رہتا ہے۔ اس لیے ہماری اہلیانِ شہر سے مؤدبانہ، مخلصانہ اور عاجزانہ درخواست ہے کہ نئی مساجد کی تعمیر اور تعمیر جدید کے سلسلے میں بہت سوچ سمجھ کر قدم اٹھائیں، ضرورت کی جگہوں پر ہی مساجد تعمیر کریں، مساجد کی تعمیر اور تزئین کاری سے زیادہ اس کی آبادی کی فکر کریں، نیز اس میں خدمت کرنے والے ائمہ، مؤذنین اور خادمین کی تنخواہوں کا معقول نظم کریں کہ یہ اصل دین اور کرنے کا کام ہے۔ ورنہ ہم پر یہ شعر صادق آئے گا کہ
مسجد تو بنادی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا

اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے اور ترجیحات کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین