پیر، 25 دسمبر، 2023

کراٹے میں ایک دوسرے کو جھک کر سلام کرنا


سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ کراٹا شروع کرنے سے پہلے جو ایک دوسرے کو جھک کر سلام یا آداب کیا جاتا ہے؟ اس کا کیا حکم ہے؟ جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : محمد عبداللہ، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : فن کراٹے کا مظاہرہ کرنے سے پہلے جو ایک دوسرے کے سامنے جھکا جاتا ہے اسے باؤ (bow) کرنا کہتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کے سامنے سلام یا تعظیم کے لیے اس طرح جھکنا جو رکوع کے مشابہ ہوجائے شرعاً ناجائز اور حرام ہے، اور اگر سامنے والے کی تعظیم مقصود نہ ہو تب بھی یہ عمل سخت مکروہ ہے، احادیث میں اس طرح جھکنے سے منع فرمایا گیا ہے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم، ہم میں سے کوئی جب اپنے مسلمان بھائی یا اپنے دوست سے ملاقات کرے تو کیا وہ جھک جائے؟ آپ نے فرمایا : نہیں۔ اس شخص نے کہا کہ کیا اس سے گلے ملے اور اس کو بوسہ دے؟ آپ نے فرمایا : نہیں۔ اس نے کہا تو کیا اس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لے کر اس سے مصافحہ کرے؟ آپ نے فرمایا : ہاں۔

لہٰذا کراٹے وغیرہ میں باؤ جیسے عمل سے بچنا ضروری ہے، البتہ اگر بہت معمولی سا جھکے جس میں رکوع کا شائبہ بالکل نہ ہوتو اس کی گنجائش ہوگی۔

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ : قَالَ رَجُلٌ : يَا رَسُولَ اللَّهِ الرَّجُلُ مِنَّا يَلْقَى أَخَاهُ أَوْ صَدِيقَهُ أَيَنْحَنِي لَهُ؟ قَالَ:  «لَا»، قَالَ: أَفَيَلْتَزِمُهُ وَيُقَبِّلُهُ؟ قَالَ : «لَا»، قَالَ: أَفَيَأْخُذُ بِيَدِهِ وَيُصَافِحُهُ؟ قَالَ: نَعَمْ۔ (سنن الترمذی، رقم : ٢٧٢٨)

الِانْحِنَاءُ لِلسُّلْطَانِ أَوْ لِغَيْرِهِ مَكْرُوهٌ لِأَنَّهُ يُشْبِهُ فِعْلَ الْمَجُوسِ كَذَا فِي جَوَاهِرِ الْأَخْلَاطِيِّ. وَيُكْرَهُ الِانْحِنَاءُ عِنْدَ التَّحِيَّةِ وَبِهِ وَرَدَ النَّهْيُ كَذَا فِي التُّمُرْتَاشِيِّ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٥/٣٦٩)

وَقَدْ يَكُونُ مُحَرَّمًا، كَالاِنْحِنَاءِ تَعْظِيمًا لإِِنْسَانٍ أَوْ حَيَوَانٍ أَوْ جَمَادٍ. وَهَذَا مِنَ الضَّلاَلاَتِ وَالْجَهَالاَتِ. وَقَدْ نَصَّ الْفُقَهَاءُ عَلَى أَنَّ الاِنْحِنَاءَ عِنْدَ الاِلْتِقَاءِ بِالْعُظَمَاءِ كَكِبَارِ الْقَوْمِ وَالسَّلاَطِينِ تَعْظِيمًا لَهُمْ - حَرَامٌ بِاتِّفَاقِ الْعُلَمَاءِ. لأَِنَّ الاِنْحِنَاءَ لاَ يَكُونُ إِلاَّ لِلَّهِ تَعَالَى تَعْظِيمًا لَهُ، وَلِقَوْلِهِ لِرَجُلٍ قَال لَهُ: يَا رَسُول اللَّهِ، الرَّجُل مِنَّا يَلْقَى أَخَاهُ أَوْ صَدِيقَهُ أَيَنْحَنِي لَهُ؟ قَال صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لاَ.أَمَّا إِنْ كَانَ ذَلِكَ الاِنْحِنَاءُ مُجَرَّدَ تَقْلِيدٍ لِلْمُشْرِكِينَ، دُونَ قَصْدِ التَّعْظِيمِ لِلْمُنْحَنَى لَهُ فَإِنَّهُ مَكْرُوهٌ، لأَِنَّهُ يُشْبِهُ فِعْل الْمَجُوسِ. قَال ابْنُ تَيْمِيَّةَ: الاِنْحِنَاءُ لِلْمَخْلُوقِ لَيْسَ مِنَ السُّنَّةِ، وَإِنَّمَا هُوَ مَأْخُوذٌ مِنْ عَادَاتِ بَعْضِ الْمُلُوكِ وَالْجَاهِلِينَ۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ : ٦/ ٦٣٧)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
11 جمادی الآخر 1445

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں