پیر، 15 اپریل، 2024

نذرانہ امام کو کم اور امام تراویح کو زیادہ دینا


سوال :

مفتی صاحب! دریافت طلب مسئلہ یہ ہے کہ ایک مسجد میں امام صاحب تقریباً پچیس سال سے امامت و خطابت کے فرائض بڑی پابندی سے انجام دے رہے ہیں، رمضان المبارک میں عموماً چھبیسویں روزہ کو امام مؤذن اور تراویح سنانے والے حافظ صاحب کو نذرانہ دیا جاتا ہے، تراویح امام جو صرف ایک مہینہ ہی خدمت انجام دیتے ہیں انہیں نذرانہ زیادہ اور امام صاحب جو پچیس سال سے خدمت انجام دے رہے ہیں انہیں نذرانہ کم دیا جاتا ہے، ذمہ داران کا یہ طریقہ اختیار کرنا ازروئے شرع کیسا ہے؟ یا صحیح طریقہ کیا ہو سکتا ہے؟ جواب عنایت فرما کر ممنون فرمائیں۔
(المستفتی : انیس احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : امام اور مؤذن کو جو نذرانہ رمضان المبارک میں دیا جاتا ہے وہ بلاشبہ جائز اور درست ہے، یہ امام کو سال بھر امامت کرنے اور مؤذن کو ان کی ذمہ داری ادا کرنے کی وجہ سے اکراماً دیا جاتا ہے، جسے عرفِ عام میں "حقِ رضا" یا "عید بونس" بھی کہا جاسکتا ہے۔ خواہ یہ چھبیسویں روزہ کو دیا جائے یا اس سے پہلے یا پھر بعد میں دیا جائے اور یہ رقم خصوصی طور پر چندہ کرکے دی جائے یا مسجد کی جمع شدہ رقم سے ہو شرعاً اس میں کوئی قباحت یا کراہت نہیں ہے اور یہ متفقہ مسئلہ ہے، اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ جبکہ جو امام صرف تراویح کی امامت کرتا ہو اسے نذرانہ دینے کے سلسلے میں اختلاف ہے، بعض علماء ناجائز لکھتے ہیں، اور بعض کے یہاں گنجائش ہے۔

معلوم ہونا چاہیے کہ سال بھر امامت کرنے والے امام کا مرتبہ اور اہمیت صرف تراویح پڑھانے والے امامِ تراویح سے بلاشبہ زیادہ ہے، اور جبکہ امام صاحب پچیس سال سے پابندی کے ساتھ اپنی خدمات بحسن وخوبی انجام دے رہے ہیں تو پھر ان کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ لہٰذا انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ سال بھر امامت کرنے والے امام صاحب کو امام تراویح سے زیادہ نذرانہ دینا چاہیے، کیونکہ امام صاحب کو نذرانہ دینے میں کوئی اختلاف بھی نہیں ہے۔ جبکہ امام تراویح کو نذرانہ دینے کے سلسلے میں اختلاف ہے، پس امام صاحب کو امام تراویح سے کم نذرانہ دینا غیرمعقول، انصاف کے تقاضوں کے خلاف اور شرعاً ناپسندیدہ عمل ہے۔ لہٰذا آئندہ ذمہ داران کو اس کا خیال رکھنا چاہیے۔


عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم : لَيْسَ مِنْ أُمَّتِي مَنْ لَمْ يُجِلَّ كَبِيرَنَا , وَيَرْحَمْ صَغِيرَنَا، وَيَعْرِفْ لِعَالِمِنَا حَقَّهُ۔ (صَحِيح التَّرْغِيبِ وَالتَّرْهِيب : 101)

عَنْ عَائِشَةَ رضی اللہ عنہا قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " أَنْزِلُوا النَّاسَ مَنَازِلَهُمْ "۔ (سنن ابی داؤد، رقم : ٤٨٤٢)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی 
05 شوال المکرم 1445

4 تبصرے:

  1. اس اہم مسئلے کی جانب پہلےہی سےدھیان دینےاورکرانےکی ضرورت تھی

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. مسئلہ پیدا ہونے سے پہلے ہی مفتی صاحب اپنی طرف سے مسئلہ بیان کر دیتے کیا

      حذف کریں
  2. یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں