جمعرات، 11 اپریل، 2024

عید کے دن میت کے گھر تعزیت کے لیے جانا


سوال :

محترم مفتی صاحب ! ہمارے شہر میں ایک روایت یہ ہے کہ کسی کا انتقال ہوتا ہے اس سال عیدالفطر کے موقع پر اس کے رشتہ دار اور متعلقین تعزیت کے لیے اس کے گھر جاتے ہیں، جبکہ اس شخص کی وفات کو کئی مہینے گزر چکے ہیں، تو کیا اس طرح کا عمل شرعاً درست ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : جمیل احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : فقہاء نے صراحتاً لکھا ہے کہ تعزیت کا وقت موت کے بعد تین دن تک ہے، تین دن کے بعد میت کے اہل خانہ کو تعزیت وتسلی دینا مکروہ ہے، البتہ اگر میت کے اہلِ خانہ یا تعزیت کرنے والا وفات کے بعد تین دن تک موجود نہ ہو تو تین دن کے بعد بھی تعزیت کی گنجائش ہے۔ اسی طرح ایک مرتبہ تعزیت کے بعد دوبارہ تعزیت کرنا بھی صحیح نہیں۔ لہٰذا جب میت کے انتقال کو کئی دن بلکہ کئی مہینے گزر چکے ہیں تو عید کے دن اس کے گھر صرف اس نیت سے جانا کہ یہ پہلی عید ہے، اور اس کے اہل خانہ کا غم تازہ کرنا، رونا رلانا یہ جاہلانہ رسم ہے جو شرعاً بھی ناجائز ہے، لہٰذا اس سے بچنا ضروری ہے۔ ہاں عید کی خوشی میں شریک کرنے کے لیے میت کے گھر جانا درست ہے۔


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ کَثِيرٍ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَکْرِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ حَدَّثَنِي حُمَيْدُ بْنُ نَافِعٍ عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَةَ عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ بِنْتِ أَبِي سُفْيَانَ لَمَّا جَائَهَا نَعِيُّ أَبِيهَا دَعَتْ بِطِيبٍ فَمَسَحَتْ ذِرَاعَيْهَا وَقَالَتْ مَا لِي بِالطِّيبِ مِنْ حَاجَةٍ لَوْلَا أَنِّي سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ تُحِدُّ عَلَی مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثٍ إِلَّا عَلَی زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا۔(بخاری)

وَرَوَى الْحَسَنُ بْنُ زِيَادٍ إذَا عَزَّى أَهْلَ الْمَيِّتِ مَرَّةً فَلَا يَنْبَغِي أَنْ يُعَزِّيَهُ مَرَّةً أُخْرَى، كَذَا فِي الْمُضْمَرَاتِ. وَوَقْتُهَا مِنْ حِينِ يَمُوتُ إلَى ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ وَيُكْرَهُ بَعْدَهَا إلَّا أَنْ يَكُونَ الْمُعَزِّي أَوْ الْمُعَزَّى إلَيْهِ غَائِبًا فَلَا بَأْسَ بِهَا۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/١٦٧)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی
01 شوال المکرم 1445

1 تبصرہ: