اتوار، 21 اپریل، 2024

خشخشی داڑھی رکھنے والے کی امامت کا حکم


سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین درمیان اس مسئلہ کہ زید کو اللہ تعالیٰ نے حفظ قرآن کی دولت لازوال سے نوازا ہے اور الحمدللہ زید تراویح میں قرآن پاک کے سنانے کا بھی اہتمام کرتا ہے، لیکن دریافت طلب امر یہ ہے کہ زید شرعی حلیہ کو ترجیح نہیں دیتا ہے، داڑھی کے بال ترشواتا ہے، بالکل خشخشی داڑھی رکھتا ہے۔ اور شرٹ پینٹ (ٹی شرٹ، جنس پینٹ) بھی پہنتا ہے اب آپ از روئے شرع بیان کریں کہ زید کا تراویح کی امامت کرنا کیسا ہے؟ اور ہاں اس سے قبل (گزشتہ سال) زید سے کچھ گفت و شنید بھی ہوئی تھی اور اسے اس شنیع عمل پر تنبیہ بھی کی گئی جس پر زید نے آئندہ داڑھی کو نا کٹوانے اور مزاج شریعت کے مطابق دکھنے کی یقین دہانی بھی کروائی تھی لیکن وہ اپنی بات پر قائم نہیں رہا سابقہ رویہ کو ہی اپنا شیوا بنایا رہا۔
(المستفتی : حافظ عبداللہ، مالیگاؤں)
--------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : صحیح احادیث میں مطلقاً داڑھی بڑھانے کا حکم وارد ہوا ہے۔

بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اپنی مونچھیں کترواؤ اور داڑھیاں بڑھاؤ ۔

البتہ بعض حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا معمول داڑھی ایک مشت سے بڑھ جانے پر کٹا دینے کا تھا، جیسے حضرت عبداللہ ابن عمر اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہم وغیرھم۔

اس لئے ائمہ اربعہ امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی امام احمد رحمہم اﷲ کے نزدیک ایک مشت داڑھی رکھنا واجب ہے، اور اس سے پہلے کٹانا ناجائز اور حرام ہے۔ ایک مشت سے زائد ہونے پر کاٹنے کی گنجائش ہے۔

درج بالا تفصیلات سے معلوم ہوا کہ سوال نامہ میں مذکور زید کا ایک مشت سے کم اور خشخشی داڑھی رکھنا یہ ناجائز اور حرام ہے۔ اسی طرح پینٹ شرٹ اور ٹی شرٹ پہننا بھی منصب امامت کے منافی عمل ہے۔ داڑھی منڈوانے والا فاسق ہے خواہ حافظ قرآن ہو یا غیر حافظ، دونوں کے لیے حکم ایک جیسا ہے۔ ایسے شخص کو تراویح اور غیر تراویح میں امام بنانا مکروہ تحریمی ہے۔ اور زید کو اس سے قبل جب تنبیہ کی جاچکی ہے اور اس کے بعد بھی اگر داڑھی اب بھی ویسی ہی غیرشرعی ہے، یعنی کٹی ہوئی اور ایک مشت سے کم ہے تو انہیں تراويح پڑھانے کے لیے نہ لگایا جائے۔


قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم انہکوا الشوارب واعفوا اللحیٰ۔ (بخاري شریف ۲/۸۷۵، رقم:۵۶۶۴)

وکان ابن عمر إذا حج، أو اعتمر قبض علی لحیتہ فما فضل أخذہ ۔ (بخاري شریف، کتاب اللباس، باب تقلیم الاظفار ۲/۸۷۵، رقم: ۵۶۶۳)

عن أبي ذرعۃ کان أبو ہریرۃؓ یقبض علی لحیتہ، ثم یأخذ ما فضل عن القبضۃ۔ (مصنف ابن أبي شیبۃ۱۳/۱۱۲، رقم:۲۵۹۹۲)

عن الحسن قال کانوا یرخصون فیما زاد علی القبضۃ من اللحیۃ أن یؤخذ منہا۔ (مصنف ابن أبي شیبۃ، مؤسسہ علوم القرآن بیروت ۱۳/۱۱۲، رقم:۲۵۹۹۵)

واما قطع مادون ذلک فحرام اجما عاً بین الا ئمۃ رحمھم اﷲ ۔ (ج۴ ص ۳۸۰ باب اعفآء اللحی، فیض الباری)

وأما الأخذ منہا وہي دون القبضۃ کما یفعلہ بعض المغاربۃ ومخنثۃ الرجال فلم یبحہ أحد وأخذ کلہا فعل الیہود ومجوس الأعاجم۔ (الدر المختار مع الشامي ۳؍۳۹۸ زکریا)

أو تطویل اللحیۃ إذا کانت بقدر المسنون وہو القبضۃ۔ (الدر المختار۲؍۴۱۷ کراچی)

إمامة الفاسق مکروهة تحریماً۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/٨٥)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
21 رجب المرجب 1445 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں