اتوار، 28 اپریل، 2024

قرآن مجید خریدتے وقت اس کی قیمت کم کروانا


سوال :

محترم مفتی صاحب  جب ہم دکاندار سے کوئی چیز خریدتے ہیں مثلا جوتا کپڑا چپل وغیرہ وغیرہ اور دکاندار سے ہم قیمت کم کرانے کا سوچتے ہیں۔ اسی طرح قرآن پاک کو خریدنا اور اس پر قیمت کم کرانا اس کا کیا حکم ہے؟ کیا اس میں کوئی گناہ کی بات ہے یا دکاندار جتنا کہے اسے اتنی قیمت دے دینا چاہیے؟
(المستفتی : ارشاد ناظم، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : کسی بھی چیز کی خرید و فروخت کے وقت سمجھداری سے کام لینا، تجربہ کار لوگوں کے مشورہ سے فائدہ اٹھانا تاکہ دھوکہ نہ کھائے، اور مول بھاؤ کرنا شریعت کے اصولوں سے ثابت اور شرعاً مطلوب ہے۔ لہٰذا قرآن مجید بھی خریدتے وقت اگر مول بھاؤ کیا جائے اور قیمت میں کچھ کمی کی بات کی جائے تو شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ جو لوگ اس وقت مول بھاؤ کرنے کو ناجائز سمجھتے ہیں وہ غلطی پر ہیں، انہیں اپنی غلطی درست کرلینا چاہیے۔


قال : البيع ينعقد بالإيجاب والقبول إذا كانا بلفظي الماضي، مثل أن يقول أحدهما: بعت، والآخر: اشتريت؛ لأن البيع إنشاء تصرف، والإنشاء يعرف بالشرع والموضوع للإخبار قداستعمل فيه فينعقد به. ولاينعقد بلفظين أحدهما لفظ المستقبل والآخر لفظ الماضي، بخلاف النكاح، وقد مر الفرق هناك. وقوله: رضيت بكذا أو أعطيتك بكذا أو خذه بكذا، في معنى قوله: بعت واشتريت؛ لأنه يؤدي معناه، والمعنى هو المعتبر في هذه العقود، ولهذا ينعقد بالتعاطي في النفيس والخسيس هو الصحيح؛ لتحقق المراضاة۔ (ہدایہ : ٣/١٨)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی 
18 شوال المکرم 1445 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں