جمعہ، 24 مئی، 2019

تکبیراتِ انتقالیہ کہنے کا حکم

*تکبیراتِ انتقالیہ کہنے کا حکم*

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ کیا مقتدیوں کے لیے تکبیرات انتقالیہ  کہنا واجب ہے؟
(المستفتی : صغير احمد، جلگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نماز میں ایک رکن سے دوسرے رکن کی طرف منتقل ہوتے وقت تکبیراتِ انتقالیہ یعنی اللہ اکبر کہنا امام، مقتدی اور منفرد سب کے لیے مسنون ہے، واجب نہیں۔ لہٰذا اگر کسی سے کوئی تکبیر فوت ہوجائے تو اس کی وجہ سے سجدہ سہو واجب نہیں ہوگا۔ البتہ قصداً ترک کرنا خلافِ سنت ہے۔ اسی طرح امام کے لیے سمع اللہ لمن حمدہ اور مقتدی کے لیے ربنا لک الحمد اور منفرد کے لیے دونوں کہنا مسنون ہیں، اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے مواظبت فرمائی ہے، اور پوری امت کا اس پر عمل رہا ہے۔

وثانی عشرہا التکبیرات التي یؤتی بہا فی خلال الصلاۃ عند الرکوع والسجود والرفع منہ والنہوض من السجود أو القعود إلی القیام وکذا التسمیع ونحوہ فہی مشتملۃٌ علی ست سنن کما تری۔ (بدائع الصنائع : ۱/۴۸۳)

عن أبي موسیٰ الأشعري وأبي ہریرۃؓ عن النبي ﷺ أنہ قال: إنما جعل الإمام لیؤتم بہ فلا تختلفوا علیہ فإذا کبر فکبروا… وإذا قال: سمع اللہ لمن حمدہ فقولوا: ربنا لک الحمد ۔(طحطاوی :۱؍۲۲۰)

ولایجب السجود إلا بترک واجب - إلی قولہ - ولا یجب بترک التعوذ وتکبیرات الانتقال إلا في تکبیرۃ رکوع الرکعۃ الثانیۃ من صلوۃ العید۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ۱/۱۲۶)

ترک السنۃ لا یوجب فسادا ولا سہوا بل إساءۃ لو عامدا ۔(الدر المختار، ۱/۳۱۸)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
18 رمضان المبارک 1440

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں