منگل، 12 نومبر، 2019

سورٹ (جوئے) کا شرعی حکم

*سورٹ (جوئے) کا شرعی حکم*

سوال :

قابل صد احترام مفتی صاحب! سورٹ بیچنے کا کیا حکم ہے؟ مثلاََ: پانچ روپیہ کا ایک گیم ہے جس میں ایک گھڑی نما چکری رکھی ہوگی، جس میں گیم کھیلنے والا ایک پانسا (بال) پھینکے گا یا گھڑی کا کانٹا گھمائے گا اور اگر 6 نمبر یعنی سب سے بڑا عدد آیا تو اسے  کچھ انعام دیا جائے گا بصورتِ دیگر کچھ نہیں ملے گا۔
جواب عنایت فرما کر عند اللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : عامر ملک، مالیگاؤں)
-------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : قمار عربی زبان کا لفظ ہے، عربی میں اس کا دوسرا نام”میسر“ہے، اِسے اُردو میں ”جوا“ اور انگریزی میں ”Gambling “ کہتے ہیں۔ اسی کی ایک قسم ہمارے شہر میں ”سورٹ“ کے نام سے متعارف ہے۔

قمار کی حقیقت یہ ہے کہ ہر وہ معاملہ جس میں کسی غیریقینی واقعے کی بنیاد پر کوئی رقم اس طرح داؤ پر لگائی گئی ہو کہ یا تو رقم لگانے والااپنی لگائی ہوئی رقم سے ہاتھ دھو بیٹھے یا اُسے اتنی ہی یا اس سے زیادہ ر قم کسی معاوضہ کے بغیر مل جائے۔

شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مد ظلہم نے ”قمار“ کی حقیقت درج ذیل الفاظ میں بیان کی ہے :

قمار ایک سے زائد فریقوں کے درمیان ایک ایسا معاہدہ ہے جس میں ہر فریق نے کسی غیریقینی واقعے کی بنیاد پر اپنا کوئی مال(یا تو فوری ادائیگی کرکے یا ادائیگی کا وعدہ کرکے) اس طرح داؤ پر لگایا ہو کہ وہ مال یا تو بلا معاوضہ دُوسرے فریق کے پاس چلا جائے گا یا دُوسرے فریق کا مال پہلے فریق کے پاس بلا معاوضہ آجائے گا۔ (اسلام اور جدید معاشی مسائل، 3/358)

قمارکے مفہوم کو علامہ شامیؒ نے اس طرح بیان کیا ہے :

الْقِمَارَ هُوَ الَّذِی یسْتَوِی فِیهِ الْجَانِبَانِ فِی احْتِمَالِ الْغَرَامَةِ
”قمار وہ معاملہ ہے جس میں دونوں فریقین کو نقصان پہنچنے کا احتمال برابر ہو۔“ (حاشیة ابن عابدین، 6/ 403)

اس کو مثال کے ذریعہ اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ مثلاً ایک شخص دوسرے سے کہے کہ اگر ہندوستان میچ جیت گیا تو میں تمہیں ایک ہزار روپے دُوں گا، لیکن اگر ہندوستان میچ ہار گیا تو تم مجھے ایک ہزار روپے دوگے، یا دو افراد کوئی کھیل کھیلیں اور آپس میں یہ شرط لگادیں کہ جو شخص کھیل جیتے گا وہ دوسرے سے ایک متعین رقم وصول کرےگا، یہ قمار (جوا)ہے۔

درج بالا تفصیلات سے وضاحت کے ساتھ معلوم ہوگیا کہ سوال نامہ میں مذکور صورتیں قمار اور جوئے پر مشتمل ہیں جس کا بیچنا خریدنا اور اس کی آمدنی سب ناجائز اور حرام ہے۔ اور اس حُرمت خود قرآن کریم میں بیان کی گئی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۔ (المائدہ : آیت، 90)
ترجمہ : اے ایمان والو ! شراب، جوا، بتوں کے تھان اور جوئے کے تیر، یہ سب ناپاک شیطانی کام ہیں، لہٰذا ان سے بچو، تاکہ تمہیں کامیابی حاصل ہو۔

لہٰذا مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ ایسے شیطانی کام سے مکمل طور پر اجتناب کریں اور بقدر استطاعت دوسروں کو روکنے کی کوشش بھی کریں۔

ثم عرفوہ بأنہ تعلیق الملک علی الخطر والمال في الجانبین۔ (قواعد الفقہ ۴۳۴)

قال اللّٰہ تعالیٰ : یَسْاَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ قُلْ فِیْہِمَا اِثْمٌ کَبِیْرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَاِثْمُہُمَا اَکْبَرُ مِنْ نَفْعِہِمَا۔ (البقرۃ، جزء آیت: ۲۱۹)

عن عبد اللّٰہ بن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن اللّٰہ حرّم علی أمتي الخمر والمیسر۔ (المسند للإمام أحمد بن حنبل ۲؍۳۵۱ رقم: ۶۵۱۱ دار إحیاء التراث، بیروت)
مستفاد : قمار کی حقیقت اور جدید صورتیں)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
14 ربیع الاول 1441

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں