منگل، 26 نومبر، 2019

حائضہ عورت کے احرام اور عمرہ کا مسئلہ

*حائضہ عورت کے احرام اور عمرہ کا مسئلہ*

سوال :

جناب مفتی صاحب! دریافت طلب امر یہ ہے کہ عورت عمرہ کی ادائیگی کے لئے روانہ ہونے سے پہلے یا روانگی کے وقت یا روانہ ہونے کے بعد عذر شرعی میں مبتلا ہو جائے تو مکہ پہنچنے کے بعد عذر ختم ہونے پر دوبارہ احرام کہاں سے باندھے گی قیام گاہ سے یا پھر مسجد عائشہ سے؟ نیز یہ دوسرا احرام ہی اصل احرام مانا جائے گا یا پھر پہلے حالت عذر کی وجہ سے ٹوٹ جانے والے احرام کی قضاء؟ بہر صورت تفصیل وحوالے کے ساتھ جواب سے نوازیں۔
(المستفتی : ابوعبدالله، جلگاؤں)
-----------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : عمرہ کے لئے روانگی سے پہلے اگر کسی عورت کو حیض آجائے تو وہ حیض کی حالت میں  احرام  باندھ سکتی ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ غسل کرکے عمرہ  کی  نیت کرلے، اور تلبیہ پڑھ لے۔ ملحوظ رہے کہ یہ غسل غسلِ نظافت ہے جو احرام  باندھتے وقت  حالتِ  حیض  و نفاس  میں  بھی مستحب ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کو غسل کرنے کے لئے فرمایا تھا جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ  کی  حدیث شریف  میں  ہے۔ لیکن اگر غسل کرنے کا موقع نہ ہو تو صرف وضو کرلے۔ غسل نہ کرنے  کی  وجہ سے کوئی گناہ نہ ہوگا۔ اسی طرح اگر کسی عورت کو احرام باندھنے کے بعد حیض آجائے تو ایسی عورت بھی مکہ مکرمہ پہنچ کر اپنی قیام گاہ پر رہے اور ممنوعات احرام سے بچتی رہے، جب ایام پورے ہوجائیں تب غسل کرکے قیام گاہ سے ہی ارکانِ عمرہ ادا کرنے کے لیے چلی جائے اس کے لیے مسجد عائشہ جانے کی ضرورت نہیں، کیونکہ اس کا احرام باقی ہے اور یہی اس کا اصل احرام ہے۔ لہٰذا قضا اور دم کی بھی ضرورت نہیں۔

حتی اتینا ذا الحلیفة ولدت اسماء بنت عمیس محمد ابن أبی بکر فارسلت الی رسول الله صلی الله علیه وسلم کیف اصنع قال اغتسلی واستثفری بثوب و احرمی. (مسلم، رقم۲۱۳۴/ کتاب الحج فی باب حجة النبي صلی الله علیه وسلم)

فلو حاضت قبل الإحرام  اغتسلت و أحرمت، و شهدت جمیع المناسک إلا الطواف و السعي۔ ( غنیۃ الناسک ص ۹۴)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
28 ربیع الاول 1441

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں