جمعرات، 8 نومبر، 2018

مصنوعی بال لگوانے اور اس پر وضو اور غسل کا حکم

*مصنوعی بال لگوانے اور اس پر وضو اور غسل کا حکم*

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید کے سر پر بال بہت کم ہے  نہیں کہ برابر ہے بلکہ وہ گنجہ ہے زید نے اسکا بہت علاج کروایا کہ سر پر زیادہ ہو جائے لیکن ایسا نہیں ہوا اب زید نے اپنے گنجے پن کو دور کرنے کیلئے مصنوعی بال (نقلی) بال لگوالئے اب وہ کسی طرح سے گنجہ معلوم نہیں ہوتا پوچھنا یہ ہیکہ کیا مصنوعی بال (نقلی)  بال لگوانا جائز ہے ؟ کیا مصنوعی بال پر مسح کرنے سے مسح ہوجائے گا؟ کیا غسل کرتے وقت بال کی جڑوں تک پانی پہنچ جائے گا یا نہیں پہنچاتو غسل ہو جائے گا؟
قرآن و حدیث کی روشنی میں مفصل جواب تحریر فرمائیں عین نوازش ہوگی۔ اللہ تعالی آپ کو خوب جزائے خیر عطا فرمائے آمین
(المستفتی : مدثر سالک ملی، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورت مسئولہ میں اگر سر پر لگوائے جانے والے بال اگر اسی کے ہوں یا خنزیر کے علاوہ کسی اور جانورکے ہوں یا کیمیکل وغیرہ سے بنے ہوئے  مصنوعی بال ہوں تو اس کو سر پر کھال میں بذریعہ آپریشن پیوست کردینے کی اگرچہ گنجائش ہے ۔ ( لیکن مردوں کے لئے محض اپنی خوبصورتی کو بر قرار رکھنے کی خاطر مصنوعی بالوں کا استعمال خواہ انسان کے ہوں یا کسی جانور کے شرعاً پسندیدہ نہیں ہے، لہٰذا اس سے اجتناب بہرحال بہتر ہے) یا اس طرح کھال پر چسپاں کردینا کہ اس کا آسانی سے الگ کرنا ممکن نہ ہو۔ اور اس صورت میں چونکہ یہ بال بدن کا حصہ بن جاتے ہیں تو ان پرمسح کرنا اور غسل کرنا بھی جائز ہے۔ البتہ اگر وگ ایسا ہو جسے باآسانی لگایا اور اتارا جاسکتا ہو، وہ ٹوپی کے حکم میں ہے، وضو میں اس کو اتار کر سر کا مسح کرنا ضروری ہے۔

ملحوظ رہے کہ کسی دوسرے انسان کے بال لگوانا شرعاً ناجائز اور حرام ہے، خواہ وگ ایسا ہو، جسے بآسانی اتارا جاسکتا ہو یا آپریشن کے ذریعے سر میں فٹ کردیا گیا ہو۔

وَالثَّانِي أَنَّ اسْتِعْمَالَ جُزْءٍ مُنْفَصِلٍ عَنْ غَيْرِهِ مِنْ بَنِي آدَمَ إهَانَةٌ بِذَلِكَ الْغَيْرِ وَالْآدَمِيُّ بِجَمِيعِ أَجْزَائِهِ مُكَرَّمٌ وَلَا إهَانَةَ فِي اسْتِعْمَالِ جُزْءِ نَفْسِهِ فِي الْإِعَادَةِ إلَى مَكَانِهِ۔ (بدائع الصنائع : ٥/١٣٣)

وَلَا بَأْسَ بِذَلِكَ مِنْ شَعْرِ الْبَهِيمَةِ وَصُوفِهَا لِأَنَّهُ انْتِفَاعٌ بِطَرِيقِ التَّزَيُّنِ بِمَا يَحْتَمِلُ ذَلِكَ۔ (بدائع الصنائع : ٥/١٢٦)

العضوالمنفصل من الحی کمیتتہ کالاذن المقطوعۃ والسن الساقطۃ الافی حق صاحبہ فطاہروان کثر قال الشامی السن الساقطۃ تقدم فی الطہارۃ ان المذہب طہارۃ السن وان کثرای زادعلی وزن الدرھم فلوصلی بہ وہومعہ تصح صلاتہ۔ (الدر مع الرد : ۵ ؍ ۲۱۸)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
30 صفر المظفر 1440

2 تبصرے: