اتوار، 31 مارچ، 2019

کرایہ سے دئیے گئے مکان اور خالی زمین پر زکوٰۃ کا حکم

*کرایہ سے دئیے گئے مکان اور خالی زمین پر زکوٰۃ کا حکم*

سوال :

مفتی محترم! زید صاحب نصاب ہے، اسکے دو پلاٹ ہیں جس میں سے ایک پلاٹ پر پترے کا شیڈ ہے جو کرایہ سے دیا گیا ہے اور دوسرے پلاٹ پر کوئی تعمیر نہیں ہے، یہ خالی پڑا ہوا ہے۔ کیا زید پر دونوں پلاٹ کی زکوٰۃ واجب ہے؟ رہنمائی فرمائیں ۔
(المستفتی : محمد زاہد، مالیگاؤں)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفیق : اموال میں زکوٰۃ واجب ہونے کے لئے اس میں دو صفتوں میں سے ایک صفت کا پایا جانا ضروری ہے۔

١) اس مال کا مالِ نامی ہونا۔ یعنی اس میں نمو وبڑھوتری کا پایا جانا، اور شریعت مطھرہ نے صرف سونا، چاندی، اور نقد رقم کو مالِ نامی تسلیم کیا ہے، اس کے علاوہ اور کوئی بھی مال خواہ کتنا ہی قیمتی کیوں نہ ہو وہ مالِ نامی نہیں ہے۔

٢) اس مال کا مالِ تجارت ہونا۔ تجارت کی نیت سے خریدے گئے ہر مال پر زکوٰۃ واجب ہوگی۔

صورت مسئولہ میں کرایہ سے دئیے گئے پلاٹ میں یہ دونوں صفتیں نہیں پائی جاتی، لہٰذا اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔

خالی پڑا ہوا پلاٹ تجارت کی نیت سے خریدا گیا ہے تو اس پر زکوٰۃ ہوگی، اور اگر گھر وغیرہ بنانے کی نیت سے خریدا گیا ہے تو اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔

وینقسم کل واحد منہما إلی قسمین : خلقی وفعلی، ہٰکذا فی التبیین۔ فالخلقی الذہب والفضۃ …، والفعلی ما سواہما ویکون الاستنماء فیہ بنیۃ التجارۃ الخ۔ (بدائع الصنائع : ۲؍۹۲)

عن ابن عمر ؒؓ قال: لیس فی العروض زکاۃ ، إلا ماکان للتجارۃ ۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی، کتاب الزکاۃ، باب زکاۃ التجارۃ، ۶/۶۴، رقم: ۷۶۹۸)

ولیس في دور السکنیٰ وثیاب البدن وأثاث المنازل ودواب الرکوب وعبید الخدمۃ وسلاح الاستعمال زکاۃ؛ لأنہا مشغولۃ بحاجتہ الأصلیۃ۔ (شامی : ۳؍۱۷۸)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
24 رجب المرجب 1440

2 تبصرے:

  1. اورجوپاورلوم کرایہ پر دیا جاتا ہے کیا اسپر زکوۃ ہوگی؟

    جواب دیںحذف کریں