جمعہ، 9 اپریل، 2021

ستونوں کے درمیان میں صف بنانا

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ مسجد کے صحن میں تین ستون ہیں، فی الحال ان ستونوں کے پیچھے صف لگائی جاتی ہے۔ رمضان المبارک میں خاص طور پر مغرب کی جماعت کے وقت نمازیوں کی کثرت کی وجہ سے جگہ کی تنگی محسوس ہوتی ہے۔ اس مسئلہ کے حل کے لیے ان ستونون کے درمیان میں اگر صف لگائی جائے تو ایک اضافی صف لگائی جاسکتی ہے۔ لیکن ستونوں کے درمیان صف لگانے کی صورت میں صف کے درمیان دو جگہ ایک ایک آدمی کی جگہ خالی رہ جائے گی۔ تو کیا جگہ کی قلت کے مدنظر ایک اضافی صف لگانے کے لیے کیا ستونوں کے درمیان ایک ایک آدمی کی جگہ خالی رکھی جاسکتی ہے؟ اور ان مصلیوں کو جو ستون کے بیچ میں صف میں ہیں، ان کو جماعت میں شرکت کا ثواب ملے گا؟ بینوا توجرا۔
(المستفتی : انصاری رئیس احمد محمد صابر، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : دوران نماز جب کہ نمازیوں کی صفیں دروں تک پہنچ جائیں تو ان میں نماز بلا کراہت درست ہے، اور جن بعض روایتوں میں ستونوں کے درمیان نماز پڑھنے کی ممانعت وارد ہوئی ہے وہ اولاً تو ضعیف اور ناقابلِ استدلال ہیں اور اگر ان کو صحیح بھی مان لیا جائے، تو ان کا محمل یہ ہے کہ ستون بے ترتیب بنے ہوئے ہوں جس کی وجہ سے صفیں ٹیڑھی ہونے کا خطرہ ہو، تو اس طرح کے ستون  کے ما بین ٹیڑھی صف بناکر کھڑا ہونا مکروہ ہوگا، اور اگر صفیں ٹیڑھی نہ ہوتی ہوں تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں ان تین ستونوں کے درمیان جگہ کی تنگی کے وقت صف لگانا بلاکراہت درست ہے۔ ستونوں کی وجہ سے دو آدمیوں کی جگہ خالی رہ جانا اصلاً وہ خلا نہیں ہے جس پر حدیث شریف میں وعید آئی ہے۔ اور اس جگہ نماز پڑھنے والے مصلیان کو بلاشبہ جماعت میں شرکت کا ثواب بھی ملے گا۔ البتہ جب جگہ کی تنگی نہ ہوتو پھر اس جگہ صف لگانا بہتر نہیں۔

عن عبد الحمید ابن محمود قال : صلینا خلف أمیرمن الأمراء فاضطرنا الناس فصلینا بین الساریتین، فلما صلینا قال أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ: کنا نتقی ہذا علی عہد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ (سنن الترمذي : ۱؍۵۳-۵۴)

والجواب عنہ بأن حدیث معاویۃ بن مرۃ الذي علیہ مدارُ استدلالہم ضعیف؛ لأن في إسنادہ ہارون بن مسلم البصري وہو مجہول کما نقلہ الشوکاني عن أبي حاتم، فالقید لا یمکن أن یثبت إلا بہذا الحدیث، وہٰذا الحدیث لایحتج بہ؛ فلا یثبت القید فلا یحمل المطلق علی المقید، وأما حدیثا أنس فقد سقط بما صح عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ صلی في الکعبۃ بین الساریتین، فعلی ہٰذا لم یبق إلا جواز الصلاۃ بین السواري، وہٰذا أعدل الأقوال وأقواہا في ہٰذا الباب۔ (بذل المجہود : دار البشائر الإسلامیۃ ۳؍۹۷ بیروت، درس ترمذي : ۱؍۴۸۷)

والاصطفاف بین الأسطوانتین غیر مکروہ؛ لأنہ صف في حق کل فریق، وإن لم یکن طویلا، وتخلل الأسطوانۃ بین الصف کتخلل متاع موضوع أو کفرجۃ بین رجلین وذٰلک لا یمنع صحۃ الإقتداء ولا یوجب الکراہۃ۔ (المبسوط للسرخسي / باب صلاۃ الجمعۃ ۲؍۵۴ کوئٹہ۲؍۳۵، الفتاویٰ الولوالجیۃ ۱؍۵۵/ بحوالہ کتاب النوازل)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
26 شعبان المعظم 1442

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں