جمعہ، 2 اگست، 2019

مکہ مکرمہ میں مقیم کا مسجدِ عائشہ سے عمرہ کرنا

*مکہ مکرمہ میں مقیم کا مسجدِ عائشہ سے عمرہ کرنا*

سوال :

کیا انڈیا والے حرم کے قیام میں ( تقریباً آٹھ/ دس دن) دوبارہ عمرہ کرنے کے لئے مسجد عائشہ سے احرام باندھ کر عمرہ کرسکتے ہیں؟ کیا مسجد عائشہ میقات ہے؟ یا پھر جو چار میقات ہے وہاں سے احرام باندھنا ضروری ہے؟
براہ کرم رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : سید اظہرالدین، مالیگاؤں)
------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ایک عمرہ کرلینے کے بعد دوبارہ  عمرہ  کرنے کے لیے از سرِنو احرام باندھنے کے واسطے  تنعیم، جعرانہ یا حِلّ کے کسی اور مقام پر جانا ضروری ہے۔ (میقات کے اندر اور حدودِ حرم  سے  باہر کے علاقے کو ”حِلّ“  کہتے ہیں) کیونکہ جو آفاقی (میقات سے باہر رہنے والا)  مکہ مکرمہ میں شرعی طریقہ  سے آیا ہو وہ مکی کے حکم میں ہوجاتا ہے اور اہل مکہ کا احرام  عمرہ  کے لیے حِلّ ہے، اور حِل کی سب  سے  قریبی جگہ تنعیم ہے (جس کو مسجد  عائشہ بھی کہا جاتا ہے) خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت  عائشہ  رضی اللہ عنہا کو ان کے بھائی حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کے ہمراہ اسی مقام پر بھیج کر احرام باندھنے کا حکم دیا تھا۔ نیز دیگر مقاماتِ حِل کے بجائے مسجدِ عائشہ سے احرام باندھنا افضل ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں ہندوستانیوں کو حرم کے قیام میں دوبارہ عمرہ کرنے کے لیے مسجد عائشہ سے احرام باندھ لینا کافی ہے، میقات جانے کی ضرورت نہیں۔ اور مسجد عائشہ حِلّ ہے، میقات نہیں۔

وکذٰلک أي مثل حکم أہل الحرم کل من دخل الحرم من غیر العلۃ، وإن لم ینو الإقامۃ بہ کالمفرد بالعمرۃ والمتمتع أي من أہل الاٰفاق۔ (شامي : ٣/٤٨٤)

ولا یکرہ الاکثار منہا ای من العمرۃ  فی جمیع السنۃ بل یستحب ای الاکثار منہا، وأفضل مواقیتہا لمن بمکۃ التنعیم والجعرانۃ والاول افضل عندنا۔ (مناسک ملا علی قاری ۴۶۷/بحوالہ کتاب النوازل)

والمیقات لمن بمکة للحج الحرم وللعمرة الحل ۔۔۔ والتنعیم أفضل وفي الشامیة: قولہ والتنعیم أفضل ھوموضع قریب من مکة عند مسجد عائشة۔ (در مختار مع الشامي : ٣/٤٨٤)

ومن کان بمکۃ فوقتہ فی الحج الحرم وفی العمرۃ الحل۔ (ہدایۃ : ۱؍۲۵۴)

وإذا أراد العمرۃ الحل فإذا أحرم بہا من الحرم لزمہ دم، لأنہ ترک میقاتہ۔ (البحرالرائق:۲؍۵۶۰)

عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا إلی قولہ قلت: یا رسول اللّٰہ! إني لم أکن حللت، قال: فاعتمري من التنعیم فخرج معہا أخوہا، فلقیناہ مدلجًا، فقال : موعدک مکان کذا وکذا۔ (صحیح البخاري ۱؍۲۳۸)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
29 ذی القعدہ 1440

2 تبصرے:

  1. اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎
    کیا فرماتے ہیں مفتیان عظام مندرجہ ذیل مسٸلہ کے تعلق سے کہ
    ایک مطلقہ عورت نے دوسرا نکاح کیا اور اس عورت کو پہلے شوہر سے ایک ایک ٨ سالہ لڑکا بھی ہے تو کیا موجودہ شوہر اس لڑکے کے آگے اپنا نام لگاسکتا ہے؟
    اگر بالفرض موجودہ شوہرنے اس لڑکے کے آگے اپنا نام لگایا لیا تووہ شوہر شریعت کی نظر میں گنہگار ٹھریگا ؟
    مکتوب کردہ مسٸلہ کی قرآن وحدیث کی روشنی میں وضاحت فرماۓ
    کتب فقہ میں اس تعلق سے کچھ علمی بحث ہوتو قرآن کریم اوراحادیث نبویہ کے دلاٸل پیش کرنے کے بعد وہ بھی ذکر فرماۓ تو بہتر ہوگا

    فقط والسلام

    جواب دیںحذف کریں
  2. اس پر ہمارا جواب لکھا ہوا ہے، آپ سرچ باکس میں متنبی سرچ کریں یا ہمارے واٹس اپ نمبر 9270121798 پر رابطہ کریں۔

    جواب دیںحذف کریں