منگل، 20 اگست، 2019

زمین کی مکمل قیمت ادا کرنے سے پہلے دوسرے کو فروخت کرنا

*زمین کی مکمل قیمت ادا کرنے سے پہلے دوسرے کو فروخت کرنا*

سوال :

اگر کسی شخص نے کوئی چیز خریدی، لیکن اب تک مکمل ثمن ادا نہیں کرسکا تو وہ چیز دوسروں کو بیچ سکتا ہے یا نہیں؟ مثال کے طور پر ہمارے شہر میں پلاٹ زمین وغیرہ کی خریدی کرنے کے بعد جزوی طور پر ثمن ادا کردیا جاتا ہے اور سودا تیسرے آدمی کو پلٹا دیا جاتا ہے، تو کیا یہ درست ہے؟
(المستفتی : امتیاز احمد، مالیگاؤں)
------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں زمین کی مکمل قیمت ادا کرنے اور قبضہ سے پہلے زمین کو فروخت کر دینا جائز اور درست ہے، اس لئے کہ زمین مکان وغیرہ اشیائے غیر منقولہ ہیں اور ایسی اشیاء اور جائیداد کی خرید وفروخت مکمل ہونے کے لئے ایجاب وقبول کے ساتھ سودا اور معاملہ طے کر لینا کافی ہے، باقاعدہ زمین پر جاکر اپنا سامان ڈال دینا، یا چہار دیواری وغیرہ بنا دینا یا رجسٹری وغیرہ کرانا لازم نہیں۔ لہٰذا معاملہ طے ہوجانے کے بعد خریدار کے لئے دوسرے کے ہاتھ فروخت کرنا اور اس پر نفع حاصل کرنا جائز اور درست ہے۔ اسے بیع قبل القبض سمجھنا غلطی ہے، اس لئے کہ زمین کی خرید و فروخت میں حکماً قبضہ موجود ہے۔

ویجوز بیع العقار قبل القبض۔ (ہدایۃ، کتاب البیوع، باب المرابحۃ والتولیۃ، اشرفي دیوبند ۳/ ۷۴، تاتارخانیۃ زکریا ۸/ ۲۶۶، رقم: ۱۱۸۶۲)

أما بیع الأعیان غیر المنقولۃ قبل قبضہا کبیع الأرض، والضیاع والنخیل، والدور، ونحو ذلک من الأشیاء الثابتۃ التي لا یخشی ہلاکہا، فإنہ یصح۔ (الفقہ علی المذاہب الأربعۃ، کتاب البیع، مبحث التصرف في المبیع قبل قبضہ، دارالفکر بیروت ۲/ ۲۳۴)

وإذا حصل الإیجاب والقبول لزم البیع، ولا خیار لواحد منہما إلامن عیب أو عدم رؤیۃ۔ (تاتارخانیۃ، زکریا دیوبند ۸/ ۲۲۲، رقم: ۱۱۷۱۴، ہدایۃ، کتاب البیوع، اشرفي دیوبند ۳/ ۲۰/ الجوہرۃ النیرۃ، إمدادیہ ملتان ۱/ ۲۲۶، دارالکتاب دیوبند ۱/ ۲۲۰، ملتقی الأبحر، دارالکتب العلمیۃ بیروت ۳/ ۱۰)
مستفاد : فتاویٰ قاسمیہ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
18 ذی الحجہ 1440

3 تبصرے: