جمعرات، 19 ستمبر، 2019

سیدنا حضرت معاویہ ؓ کی شان میں گستاخی کا حکم

*سیدنا حضرت معاویہ ؓ  کی شان میں گستاخی کا حکم*

سوال :

مفتی صاحب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شان میں گستاخی کرنے والا اور ان کو باغی و ظالم کہنے والاشخص کیسا ہے؟
(المستفتی : حافظ اویس، مالیگاؤں)
---------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مسئلہ ھذا کا حکم کما حقہ سمجھنے کے لیے سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ حضرت امیر معاویہ کون ہیں اور اسلام میں ان کا کیا مقام ومرتبہ ہے؟ اس لیے ان کے مختصر اور ضروری حالات یہاں ذکر کیے جائیں گے، اس کے علاوہ بھی دیگر متعلقات کا ذکر ہوگا جس کی وجہ سے جواب طویل ہوجائے گا لیکن اس مسئلے سے متعلق ان تمام باتوں کا ذکر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے تاکہ عوام الناس بھی بآسانی اس مسئلے کو سمجھ سکے۔

آپ کا نام معاویہ اور کنیت ابو عبد الرحمن ہے، آپ کی پیدائش نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت سے تقریباً ۵ سال قبل ہوئی۔ آپ کے والد حضرت ابو سفیان جو قریش کے سردار تھے جنہوں نے بعد میں اسلام قبول کیا اور اسلام پر وفات پائی، آپ کا سلسلۂ نسب پانچویں پشت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ سے ملتا ہے۔ اور آپ کا شمار قریش کے ان چند افراد میں ہوتا تھا جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے قبولِ اسلام کا اعلان اگرچہ 8 ہجری میں فتح  مکہ کے موقع پر فرمایا، لیکن اس سے کافی عرصے پہلے ہی آپ رضی اللہ عنہ کا دل اسلام کے نور سے منور ہوچکا تھا، جس کی ایک اہم اور واضح دلیل آپ رضی اللہ عنہ کی غزوہ بدر، احد، خندق اور صلح حدیبیہ میں عدم شرکت ہے، جبکہ آپ رضی اللہ عنہ جوان طاقتور اور جنگی لوازمات کے ماہر تھے۔

اسلام ظاہر نہ کرنے کی وجہ آپ رضی اللہ عنہ خود بیان کرتے ہیں کہ میں عمرة القضا سے بھی پہلے اسلام لاچکا تھا، مگر مدینہ جانے سے ڈرتا تھا، جس کی وجہ یہ تھی کہ میری والدہ نے مجھے صاف کہہ دیا تھا کہ اگر تم مسلمان ہوکر مدینہ چلے گئے تو ہم تمہارے ضروری اخراجات زندگی بھی بند کردیں گے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے شب وروز خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم میں بسر ہونے لگے۔ (طبقات ابن سعد)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں آپ ملک شام کے امیر بنائے گئے اور عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں بھی آپ شام کے امیر رہے، پھر حضرت علی رضی اللہ کی وفات کے بعد حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی مختصر خلافت کے بعد بالاتفاق پوری امت کے امیر منتخب ہوئے۔ امیر المومنین منتخب ہونے سے قبل ۲۰ سال تک عہدہ امارت پر فائز رہے اور بیس سال تک پوری مملکت اسلامیہ پر امارت کی گویا چالیس ۴۰ سال تک امارت کے فرائض بحسن خوبی انجام دیئے۔ آپ رضی اللہ عنہ کے دور میں سجستان، خراسان، ترکستان سمرقند وغیرہ فتح ہوئے جبکہ روم کا علاقہ اور قسطنطنیہ کا علاقہ بھی آپ کے دور حکومت میں فتح ہوا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے بری جنگوں کو کافی وسعت دی۔

آپ رضی اللہ عنہ کی وفات دمشق میں 22 رجب بروز جمعرات 60 ہجری میں ہوئی، آپ کی خلافت 19 سال 4 ماہ سے ایک دن کم تھی اور اس وقت آپ کی عمر مبارک 78 سال تھی۔ (صحيح ابن حبان،15/39، حدیث نمبر : 6657/بحوالہ : اربعین فی مناقب امیرالمومنین)

حضرت معاویہ رضی اللہ کے مختصر حالات کے بعد اب یہ بھی سمجھ لیا جائے کہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کسے کہتے ہیں؟ معلوم ہونا چاہیے کہ علماء امت نے صحابی کی تعریف میں جو کچھ لکھا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ صحابی اُس شخصیت کو کہا جاتا ہے کہ جس نے ایمان کی حالت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی ہو اور ایمان ہی کی حالت میں وفات پائی ہو۔ (1)

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حالات اور صحابی رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی تعریف سے بالکل واضح ہوگیا کہ آپ رضی اللہ عنہ صحابی رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہیں۔

اسی کے ساتھ اس بات کا علم بھی ضروری ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے بارے میں قرآن و احادیث نبویہ کیا کہتے ہیں؟ تاکہ ہمیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مقام ومرتبہ اور ان کی اہمیت کا ہمیشہ استحضار رہے۔

چنانچہ قرآن کریم کی سورہ حجرات میں اللہ تعالیٰ نے انہیں کفر و شرک بے زار قرار دیا ہے۔

وَاعْلَمُوْا اَنَّ فِیْکُمْ رَسُولُ اللّٰہِ لَو یُطِیعُکم فِی کَثیرٍ مِنَ الْاَمْرِ لَعَنِتُّمْ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِلَیْکُم الاِیْمَانَ وَزَیَّنَہ فِی قُلُوْبِکُمْ وکَرَّہَ اِلَیْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالعِصْیَانَ اُوْلٰئِکَ ہُمُ الرَّاشِدُوْنَ۔ (سورة الحجرات، آیت : ۷)
ترجمہ : اور جان رکھو کہ تم میں رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم ہیں اگر بہت سے کاموں میں تمہاری بات مان لیا کریں تو تم پر مشکل پڑے لیکن اللہ تعالیٰ نے تم کو ایمان کی محبت دی اوراس کی (تحصیل) کو تمہارے دلوں میں مرغوب کردیا اور کفر وفسق اور عصیان سے تم کو نفرت دیدی ایسے ہی لوگ اللہ کے فضل اور انعام سے راہ راست پر ہیں۔

دوسری جگہ اللہ تعالیٰ ان کے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے تئیں ادب و احترام کا ذکر فرما رہے ہیں۔
اِنَّ الذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْواتَہم عِندَ رَسُولِ اللّٰہِ اُولٰئِکَ الَّذِیْنَ اِمْتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوبَہُم لِلتَّقْویٰ لَہُم مَغْفِرةٌ وَاَجْرٌ عَظِیْمٌ۔ (سورہ الحجرات، آیت : ۳)
ترجمہ : بیشک جو لوگ اپنی آوازوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پست رکھتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کے قلوب کو اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کیلئے خالص کردیا ہے ان لوگوں کیلئے مغفرت اوراجر عظیم ہے۔

سورۃ فتح میں صحابہ کرام کی عبادت اور ان کے آپس میں اور کفار کے ساتھ رویے کا ذکر ہے۔
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہ اَشِدَّاءُ عَلَی الکُفَّارِ رُحَمَاءُ بَیْنَہُمْ تَراہُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَبْتَغُوْنَ فَضْلاً مِنَ اللّٰہِ وَرِضْواناً سِیْمَاہُم فِی وُجُوْہِہِمْ مِنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ (سورہ فتح، آیت : ۲۹)
ترجمہ : محمد اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں کے مقابلہ میں تیز ہیں اور آپس میں مہربان ہیں اے مخاطب تو ان کو دیکھے گا کہ کبھی رکوع کررہے ہیں کبھی سجدہ کررہے ہیں اور اللہ کے فضل اور رضامندی کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں ان کی (عبدیت) کے آثار سجدوں کی تاثیر سے ان کے چہروں پر نمایاں ہیں۔

مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع صاحب سورہ فتح کی تفسیر کرتے ہوئے معارف القرآن جلد۸ میں تحریر کرتے ہیں :

قرآن مجید کی بہت سی آیتوں میں اس کی تصریحات ہیں جن میں چند آیات اسی سورة میں آچکی ہیں: لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ مِنَ الْمُوٴْمِنِیْنَ، اور، اَلْزَمَہُمْ کَلِمَةَ التَقْوٰی وَکَانُوا اَحَقَّ بِہا وَاَہْلَہا، انکے علاوہ بہت سی آیات میں یہ مضمون مذکور ہے، یَومَ لاَ یُخْزِ اللّٰہُ النَّبِیَ وَالَّذِیْنَ آمَنُوْ مَعَہ وَالسَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ المُہَاجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِیْنَ اِتَّبَعَہُمْ بِاِحْسَانٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ وَاَعَّدَ لَہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحتَہَا الْاَنْہٰرَ اور سورہ حدید میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کے بارے میں فرمایا ہے: وَکُلاَّ وَعَدَ اللّٰہُ الحُسْنٰی۔ یعنی ان سب سے اللہ تعالیٰ نے حسنیٰ کا وعدہ کیا ہے پھر سورہ انبیاء میں حسنیٰ کے متعلق فرمایا انَّ الَّذِیْنَ سَبَقَتْ لَہُمْ مِنا الحُسْنٰی اولئک عَنہَا مُبْعَدُوْنَ یعنی جن لوگوں کیلئے ہماری طرف سے حسنیٰ کا فیصلہ پہلے ہوچکا ہے وہ جہنم کی آگ سے دور رکھے جائیں گے۔ (معارف القرآن/بحوالہ مقام صحابہ قرآن کریم کی روشنی میں)

متعدد احادیث مبارکہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل بیان کیے گئے ہیں، ان سے محبت رکھنے کا حکم دیا گیا ہے اور ان سے بغض رکھنے کو اللہ اور اس کے رسول سے بغض رکھنے سے تعبیر کیا گیا ہے۔

حضرت جابر رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا : اس مسلمان کو (دوزخ کی) آگ نہ چھوئے گی جس نے مجھ کو دیکھا ہو یا اس شخص کو دیکھا ہو جس نے مجھ کو دیکھا۔ (ترمذی )

مطلب یہ کہ جس شخص نے آنحضرت ﷺ کو دیکھا یا آنحضرت ﷺ کو دیکھنے والے یعنی صحابی کو دیکھا وہ جنت میں جائے گا بشرطیکہ اس کا خاتمہ ایمان واسلام پر ہوا ہو۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں (پس تم ان کی پیروی کرو) ان میں سے تم جس کی بھی پیروی کرو گے ہدایت پاؤ گے۔ (رزین)

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کو برا نہ کہو میرے صحابہ کو برا نہ کہو اور قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ و قدرت میں میری جان ہے اگر تم میں سے کوئی آدمی احد پہاڑ کے برابر سونا خیرات کرے گا تو وہ صحابہ کے ایک مد خیرات کو بھی نہیں پہنچ سکے گا اور نہ ہی صحابہ کے آدھے مد کا صدقہ کرنے کو پہنچ سکتا ہے۔ (ترمذی)

حضرت عبداللہ ابن مغفل کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ ( پوری امت کو خطاب کر کے) فرمایا : اللہ سے ڈرو، پھر اللہ سے ڈرو میرے صحابہ کے حق میں، میرے بعد تم ان (صحابہ ) کو نشانہ ملامت نہ بنانا (یاد رکھو) جو شخص ان کو دوست رکھتا ہے، تو میری وجہ سے ان کو دوست رکھتا ہے اور جو شخص ان سے دشمنی رکھتا ہے، تو وہ مجھ سے دشمنی رکھنے کے سبب ان کو دشمن رکھتا ہے۔ اور جس شخص نے ان کو اذیت پہنچائی اس نے گویا مجھ کو اذیت پہنچائی اور جس شخص نے مجھ کو اذیت پہنچائی اس نے گویا اللہ کو اذیت پہنچائی اور جس شخص نے اللہ کو اذیت پہنچائی تو وہ دن دور نہیں جب اللہ اس کو پکڑے گا۔ (ترمذی)

حضرت ابن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا : جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہ کو برا کہتے ہیں تو تم کہو اللہ کی لعنت ہو تمہاری بری حرکت پر۔ (ترمذی)

حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کے فضائل کے ذکر کے بعد اب ان متعدد احادیث مبارکہ میں سے چند اہم احادیث ذکر کی جاتی ہیں جن میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل وارد ہوئے ہیں۔

حضرت عرباض بن ساریہ ؓ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا اے اللہ! معاویہ کو حساب اور کتاب کا علم عطاء فرما اور اسے عذاب سے محفوظ فرما۔ (مسنداحمد)

امِّ حرام رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ میری اُمت میں سے سب سے پہلے جس نے بحری جنگ لڑی، اُس پر جنت واجب کر دی گئی ہے۔اُم حرام کہتی ہیں کہ میں نے پوچھا کہ کیا میں بھی اس میں شامل ہوں گی؟ فرمایا : ’ہاں! تو ان میں ہوگی۔ (بخاری)

شارحین حدیث لکھتے ہیں کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ہی وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے بحری جہاد کیا۔

حضرت عبد الرحمن بن ابی عمیرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو دعا دیتے ہوئے فرمایا کہ یا اللہ معاویہ کو ہدایت دہندہ اور ہدایت یافتہ بنا اور اس کے ذریعہ لوگوں کو ہدایت عطا فرما۔ (ترمذی)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ مسلمان نہ تو ابوسفیان کی طرف دیکھتے تھے اور نہ ہی ان کے پاس بیٹھتے تھے۔ تو ابوسفیان ؓ نے نبی ﷺ سے عرض کیا اے اللہ کے نبی تین باتیں مجھے عطا فرمائیں آپ نے فرمایا :جی ہاں! بتاؤ۔ عرض کیا: میری بیٹی ام حبیبہ بنت ابوسفیان اہل عرب سے حسین و جمیل ہیں میں اس کا نکاح آپ ﷺ سے کرتا ہوں آپ ﷺ نے فرمایا: بہتر عرض کیا اور معاویہ ؓ کو اپنے لئے کاتب مقرر کر لیں آپ ﷺ نے فرمایا: بہتر آپ ﷺ مجھے حکم دیں کہ میں کفار سے لڑتا رہوں جیسا کہ میں مسلمانوں سے لڑتا تھا آپ ﷺ نے فرمایا بہتر۔ (مسلم)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو نہ صرف کاتبین وحی صحابہ رضی اللہ عنہم میں شامل فرمالیا تھا بلکہ آپ وہ خطوط و فرامین بھی لکھا کرتے تھے جو دربار رسالت ﷺ سے جاری ہوتے تھے، آپ رضی اللہ عنہ "کاتبینِ وحی" صحابہ کی فہرست میں چھٹے نمبر پر تھے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو کاتب وحی بنایا تھا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی کو کاتب وحی بناتے تھے جو ذی عدالت اور امانت دار ہوتا تھا۔ (ازالۃ الخفا)

حضرت ملاعلی قاری حنفی رحمہ الله اس حدیث شریف کی تشریح میں فرماتے ہیں :
حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی دعا یقیناً مستجاب ہے سو جس شخص کی یہ حالت ہو، اس کے بارے میں شک کئے جانے کی کیا گنجائش رہ جاتی ہے؟ (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابیح،ج:۱۱،ص:۳۸۰، مكتبه رشیده کوئیٹه)

لہٰذا جب یہ بات مسلّم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم مستجاب الدعوات ہیں، اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کے حق میں هاديا مهديا کی دعا فرمائی تو کیا یہ دعا مقبول نہ ہوئی ہوگی؟ ضرور اللہ کی بارگاہ میں یہ دعا مقبول ہے، تو جسے ہدایت کی سند نبی کریم نے دے دی ہو ایسے صحابی کی شان میں گستاخی کرنے والے کیا خدا کے غضب کو دعوت نہیں دے رہے ہیں؟

ذکر کردہ تفصیلات سے بالکل وضاحت کے ساتھ معلوم ہوگیا کہ کسی بھی صحابی رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے بغض اور ان کی شان میں گستاخی دنیا و آخرت میں سخت خسارے کا سبب ہے، پھر اگر کوئی فاتح عرب وعجم، نبی اکرم کے برادرِ نسبتی، خال المؤمنين، امیرالمومنین سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ جیسے صحابی جو کاتبِ وحی کے جلیل القدر اور انتہائی اہمیت کے حامل عہدہ پر بھی فائز تھے ان کی شان میں گستاخی کرے اور انہیں معاذاللہ ظالم اور باغی کہے، ایسا شخص بدعتی، فاسق اور بڑی ضلالت اور گمراہی میں ہے، اسے اپنے ایمان کی خیر منانے کی ضرورت ہے۔(2)

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہمارے چند اکابر علماء اور دیگر مسالک کے علماء کے اقوال بھی ذکر کیے جاتے ہیں تاکہ اس مسئلے کو اختلافی نہ سمجھا جائے۔

ربیع ابن نافع رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اصحاب رسول صلی الله علیہ وسلم کے درمیان پردہ ہیں، جو یہ پردہ چاک کرے گا، وہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہ پر لعن طعن کی جرات کر سکے گا۔ (مختصرتاریخ دمشق، 25/74)

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ رقم فرماتے ہیں :
معلوم ہونا چاہیے کہ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ جناب نبی کریم ﷺ کے اصحاب میں سے ہیں اور فضیلت جلیلہ کے حامل اصحاب میں شامل ہیں، خبردار ! معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں بدگمانی نہ کرنا اور سب و طعن میں پڑ کر حرام فعل کا ارتکاب نہ کرنا۔ (ازالۃ الخفا، ص۱۴۶)

علماء دیوبند کے سرخیل حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی فرماتے ہیں : سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا شمار ان عظیم المرتبت صحابہ رضی اللہ عنہم میں ہوتا ہے، جنہوں نے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی خدمت سے منفرد حصہ پایا۔

غیرمقلد عالم حضرت سید نذیر حسین دہلوی فرماتے ہیں : سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے کفر کی حالت میں بھی کبھی اسلام کے خلاف تلوار نہیں اٹھائی، قبول اسلام کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے اسلام کی بے مثال خدمت کی۔

امین احسن اصلاحی کی طرف منسوب ایک عبارت :
جب سیدنا عثمان غنی ،سیدنا امیر معاویہ اور اکابر بنی امیہ سے متعلق تاریخی کتابوں میں یہ پاکیزہ مواد بھی موجود ہے تو آخر اس کو نظر انداز کر کے بعض لوگوں نے صرف اس مواد کو جمع کرنے کی کوشش کیوں فرمائی جس سے ان جلیل القدر صحابیوں کی تنقیص ہو سکے، آخر یہ مطالعہ تاریخ کا کون سا انداز ہے کہ غلاظت پسند مکھی کی طرح صرف انہی گندے چھینٹوں پر آدمی کی نظر پڑے جو کسی مفتری نے ہمارے پاکیزہ خصائل اسلاف کے دامن پر اڑائے ہوں۔ (سیدنا معاویہ شخصیت اور کردار، از حکیم محمود احمد ظفرسیالکوٹی ،ج:۲، ص:۱۰)

احمد رضا خان بریلوی اپنے مخصوص انداز میں لکھتے ہیں :
جو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ پر طعن کرے، وہ جہنمی کتوں میں سے ایک کتا ہے، ایسے شخص کے پیچھے نماز حرام ہے۔ (احکام شریعت،1/69,91)

اخیر میں وہ عبارات نقل کرکے جواب مکمل کیا جارہا ہے جس میں اس بات کی طرف رہنمائی کی گئی ہے کہ ہمیں مشاجرات و اختلافات صحابہ کے بارے میں کیا موقف رکھنا چاہیے، کیونکہ مشاجراتِ صحابہ کو ہی بنیاد بناکر ایک طبقہ صحابہ کرام کی شان میں گستاخی کرکے اپنی بدبختی اور شقاوت کا مظاہرہ کرتا ہے۔

امام المفسرین علامہ قرطبی اپنی مشہور ومعروف تفسیر قرطبی جلد نمبر ۱۶، ص:۳۲۲ پر رقم طراز ہیں : یہ جائز نہیں کہ کسی بھی صحابی کی طرف قطعی اور یقینی طور پر غلطی منسوب کی جائے اس لئے کہ ان سب حضرات نے اپنے اپنے طرز عمل میں اجتہاد سے کام لیا تھا اور ان سب کا مقصد اللہ کی خوشنودی تھی یہ سب حضرات ہمارے پیشوا ہیں اور ہمیں حکم ہے ان کے باہمی اختلافات میں کف لسان کریں اورہمیشہ ان کا ذکر بہتر طریقہ پر کریں، کیونکہ صحابیت بڑی حرمت (وعظمت) کی چیز ہے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو برا کہنے سے منع فرمایا ہے اور یہ خبر دی ہے کہ اللہ نے انہیں معاف کررکھا ہے اور ان سے راضی ہے۔ (معارف القرآن/بحوالہ مقام صحابہ قرآن کریم کی روشنی میں)

شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی دامت فیوضھم لکھتے ہیں :
اہلِ سنت کا جو عقیدہ ہے کہ مشاجرات صحابہ کی تحقیق میں پڑنا درست نہیں بلکہ اس معاملے میں سکوت اختیار کیا جائے، یہ کوئی تلخ حقائق سے فرار نہیں بلکہ اس کی وجہ یہی ہے کہ تاریخی روایات میں سے صحیح اور غلط اور سچی اور جھوٹی کا امتیاز ہر انسان کا کام نہیں ہے اس لئے جو شخص جرح و تعدیل کے اصولوں سے ناواقف رہ کر ان روایات کو پڑھے گا وہ ہرگز کسی صحیح نتیجہ تک نہیں پہنچ سکتا صحیح روایات میں  مشاجرات  صحابہؓ سے متعلق جو مواد آیا ہے اسے سامنے رکھ کر اہلِ سنت کے تمام مرکزی علماء نے متفقہ طور پر یہ عقیدہ اختیار کیا ہے کہ اگرچہ صفین و جمل کی جنگوں میں حق حضرت علیؓ کے ساتھ تھا لیکن ان کے مقابل حضرت عائشہؓ، حضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ، حضرت معاویہؓ و غیرہم کا موقف بھی سراسر بے بنیاد نہیں تھا یہ حضرات بھی اپنے ساتھ شرعی دلائل رکھتے تھے اور ان سے جو غلط فہمی صادر ہوئی وہ خالص اجتہادی نوعیت کی تھی۔ (فتاوی عثمانی، 1/106)

اللہ تعالٰی ہم سب کو امت کے بہترین طبقہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا کماحقہ احترام اور ان کی عزت و ناموس کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

1) من لقي النبي صلی اللہ علیہ وسلم موٴمنا بہ ومات علی الإیمان (قواعد الفقہ: ۳۴۶)

2) والصحابۃ کلہم عدول مطلقاً لظواہر الکتاب وسنۃ وإجماع من یعتد بہ۔ (مرقاۃ المفاتیح ۵؍۵۱۷)

وقولہ ونحب اصحاب رسول اللہ ولانفرط فی حب احد منہم ولانتبرأ من احدمنہم ونبغض من یبغضہم وبغیر الخیرلا نذکرہم ونری حبہم دینا وایمانا واحسانا وبغضہم کفرا وشقاقا ونفاقاوظغیانا۔ (شرح عقیدہ طحاویہ : ٤٦٧)

قال أبو زرعۃ الرازی: إذا رأیت الرجل ینتقص أحدا من أصحاب رسول اللّٰہ ا فاعلم أنہ زندیق، وذٰلک أن الرسول حق، والقرآن حق، وماجاء بہ حق، وإنما أدی ذٰلک کلہ إلینا الصحابۃ، وہؤلاء الزنادقۃ یریدون أن یجرحوا شہودنا لیبطلوا الکتاب والسنۃ فالجرح بہم أولی۔ (الأصابۃ ۱؍۲۲)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
19 محرم الحرام 1441

8 تبصرے:

  1. ماشاءاللہ بہت ہی عمدہ تحریر ہے اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے

    جواب دیںحذف کریں
  2. ماشاء اللہ، بہترین اور مدلل تحریر۔
    کافی اچھے انداز میں شکوک کا اضلاع کیا گیا۔
    ایک التجا تھی کے جو حدیث بیان کی گئی ہے " میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں۔۔۔" براہ کرم اسکے تحقیق درکار ہے۔؟
    کیونکہ بہت سے غیر مقلد حضرت اسکو قابل ترک سمجھتے ہیں۔..

    جواب دیںحذف کریں
  3. ماشاء اللہ
    بہت ہی زبردست تحریر
    ابو سفیان رض کی پیشکش سے پہلے ہی آپ صل اللہ علیہ وسلم کا ام حبیبہ رض سے نکاح ہوچکا تھا یا بعد میں ہوا.؟

    جواب دیںحذف کریں