ہفتہ، 14 ستمبر، 2019

بھائی بہنوں کا حصہ طے کرکے طویل عرصے بعد دینا

*بھائی بہنوں کا حصہ طے کرکے طویل عرصے بعد دینا*

سوال :

محترم جناب مفتی صاحب! ایک مسئلہ پیش خدمت ہے جس کا حل دریافت طلب ہے، امید ہے کہ آپ جواب سے نوازیں تاکہ معاشرے میں پھیلی ہوئی اس بڑی برائی کا خاتمہ ہو سکے۔

والد کے انتقال کے بعد جس بھائی کے ہاتھ میں پراپرٹی رہتی ہے وہ عموماً کرتا یہ ہے کہ (اگر اللہ اسے توفیق دیتا ہے تو) تمام بھائی بہنوں کو جمع کرکے ساری پراپرٹی کا حساب کتاب لگا کر ہر ایک کو بتا دیتا ہے کہ مجھے تجھ کو اتنا دینا ہے اور تجھے اتنا اور ایسے کیس میں عموماً یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ پندرہ بیس سال قبل جو حصہ ٹھہرایا گیا تھا (مان لو کسی مکان کی قیمت میں سے ایک بہن یا بھائی کو دس لاکھ ملنا تھا) تو، وہ پراپرٹی ہولڈر بھائی اتنے سالوں کے بعد آج اتنی ہی قیمت (دس لاکھ) دینا چاہتا ہے جبکہ آج اسکی قیمت کروڑ روپے ہوچکی ہے، اور یہ بتاتا ہے کہ ہماری بات تو پنچوں میں بھی ہو گئی تھی یہ دیکھو اس کا ثبوت (اسٹامپ پیپر وغیرہ) تب کچھ بہن بھائی مجبوراً لینے پر راضی رہتے ہیں اور کچھ کورٹ کچہری کے ذریعے اپنا حق طلب کرتے ہیں۔ یہ مسئلہ گھروں گھر ہے، چاہے چھوٹا خاندان ہو یا بڑا بھرا پرا پیسے والا خاندان ہو۔ کیا ایسا کرنا شرعاً درست ہے؟ دین و شریعت کی روشنی میں مکمل رہنمائی فرما کر ثواب دارین کے مستحق ہو کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : عمران الحسن، مالیگاؤں)
-------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : تقسیمِ ترکہ کا محفوظ مامون اور بہتر طریقہ یہ ہے کہ کُل جائداد فروخت کرکے اس کی قیمت شریعت کے ضابطہ کے مطابق وارثین میں تقسیم کردی جائے یا پھر غیرمنقولہ جائداد یعنی پلاٹ، کارخانہ، گھر وغیرہ وارثین کے نام کردیا جائے۔

سوال نامہ میں جو طریقہ بیان کیا گیا ہے وہ اگرچہ صحیح ہے، لیکن اس کا غلط فائدہ اٹھایا گیا ہے، مطلب یہ کہ جس بھائی کے ہاتھ میں پراپرٹی ہے اگر وہ یہ کہہ دے کہ تمام جائداد وہ خود رکھ کر اور تمام وارثین کو ان کے حصہ کی رقم دے دے گا اور وارثین اس پر راضی ہیں تو یہ طریقہ درست ہی ہے۔ اسے قرض کا معاملہ کہا جائے گا، اور قرض کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ وہ جس صورت میں لیا گیا ہے اسی کا اعتبار کرتے ہوئے ادا کیا جائے گا، مثلاً سونا چاندی کی صورت میں قرض لیا گیا ہے تو ادائیگی کے وقت اتنی ہی مقدار سونا چاندی یا اس کی قیمت کا ادا کرنا ضروری ہے، اور روپے کی شکل میں قرض لیا گیا ہے تو اتنی ہی مقدار میں روپے کا واپس کرنا ضروری ہے۔ اس صورت میں چونکہ جائداد کے بدلے متعینہ رقم دینا طے ہوا ہے، اس لئے پراپرٹی خریدنے والا بھائی اس رقم کا مقروض ہوا، لہٰذا جب بھی وہ قرض کی رقم ادا کرے گا اُتنی ہی ادا کرے گا جتنی طے ہوئی ہے۔ البتہ اس کا ناجائز فائدہ یہ اٹھایا گیا ہے کہ اس صورت میں عموماً پراپرٹی ہولڈر بھائی جان بوجھ کر بہن بھائیوں کو ان کے حصے کی رقم دینے میں تاخیر اور ٹال مٹول کرتا ہے، جو سخت گناہ اور دنیا و آخرت میں خسارہ کا سبب ہے، چنانچہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا مالدار شخص کا قرضہ ادا کرنے میں تاخیر کرنا ظلم ہے۔ (بخاری ومسلم)

حضرت شرید کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا مستطیع شخص کا ادائیگی قرض میں تاخیر کرنا اس کی بے آبروئی اور اسے سزا دینے کو حلال کرنا ہے ابن مبارک فرماتے ہیں کہ ایسے شخص کی بے آبروئی کا حلال ہونا یہ ہے کہ اسے ملامت کی جائے اور اسے سزا دینا یہ ہے کہ اس کو قید کر دیا جائے۔(ابوداؤد، نسائی)

مطلب یہ ہے کہ جو شخص صاحب استطاعت اور مالدار ہونے کے باوجود بلاعذر اپنے قرض خواہ کا قرض ادا نہ کرے تو اس کی آبروریزی بھی مباح ہے، اور اس کو سزا دینا بھی درست ہے کیونکہ اس کی طرف سے بلاعذر ادائیگی قرض میں ٹال مٹول اور تاخیر ایک طرح کا ظلم ہے۔ آبروریزی کا مطلب تو یہ ہے کہ اسے سرزنش کی جائے اور اسے برا بھلا کہا جائے اور اس کو سزا دینے کا مطلب یہ ہے کہ حاکم وعدالت سے چارہ جوئی کر کے اسے قید خانہ میں ڈلوا دیا جائے۔ (مشکوٰۃ مترجم)

پھر ایسے لوگوں کو اس بات کا بھی خیال رہنا چاہیے کہ زندگی کا کیا بھروسہ؟ کب اللہ تعالیٰ کی طرف سے بلاوا آجائے اور تمام مال و اسباب چھوڑ کر ایک لمحے کی تاخیر کے بغیر اس دارِ فانی سے دارِ بقا کی طرف کوچ کرجانا پڑے۔ اور اگر قرضدار ہونے کی حالت میں انتقال ہوجائے تو پھر آخرت میں بڑے سخت حالات سے دوچار ہونا پڑے گا، جس پر متعدد احادیثِ مبارکہ میں بڑی سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔

حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ جب رسول کریم ﷺ کے سامنے کسی ایسے شخص کا جنازہ لایا جاتا جس پر قرض ہوتا تو آپ ﷺ پہلے پوچھتے کہ کیا یہ شخص اپنا قرض ادا کرنے کے لئے کچھ مال چھوڑ کر مرا ہے؟ اگر یہ بتایا جاتا کہ یہ شخص اتنا مال چھوڑ کر مرا ہے جس سے اس کا قرض ادا ہو سکتا ہے تو آپ ﷺ اس کی نماز جناہ پڑھ لیتے اور اگر یہ معلوم ہوتا کہ کچھ بھی چھوڑ کر نہیں مرا ہے تو پھر (آپ ﷺ اس کی نماز جنازہ خود نہ پڑھتے بلکہ) مسلمانوں سے فرماتے کہ تم اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھ لو پھر جب اللہ تعالیٰ نے فتوحات کے دروازے کھول دئیے اور مشرکین وکفار سے جنگ کے بعد غنیمت کی صورت میں مال و زر میں وسعت و کشادگی نصیب ہوئی ) تو آپ ﷺ ایک دن خطبہ کے لئے کھڑے ہوئے اور مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ میں دین ودنیا کے تمام امور میں مسلمانوں پر ان کی جانوں سے زیادہ حق رکھتا ہوں لہذا جو مسلمان اس حالت میں مرے کہ اس پر قرض ہو ( اور اس نے اتنا مال نہ چھوڑا ہو جس سے اس کا قرض ادا ہو سکے) تو اس کے قرض کو ادا کرنے میں، میں ذمہ دار ہوں اور جو مسلمان مال چھوڑ کر مرے تو اس مال سے اس کا قرض ادا کرنے کے بعد جو کچھ بچے وہ اس کے وارثوں کا حق ہے۔ (بخاری ومسلم)

حضرت ابوقتادہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! مجھے بتائیے اگر میں اللہ کی راہ میں مارا جاؤں اس حال میں کہ میں صبر کرنیوالا اور ثواب کا خواہش مند ہوں (یعنی میں دکھانے سنانے کی غرض سے نہیں بلکہ محض اللہ تعالیٰ کی رضا وخوشنودی کی خاطر اور ثواب کی طلب میں جہاد کروں) اور اس طرح جہاد کروں کہ میدان جنگ میں دشمن کو پیٹھ نہ دکھاؤں بلکہ ان کے سامنے سینہ سپر رہوں (یہاں تک کہ میں لڑتے لڑتے مارا جاؤں) تو کیا اللہ تعالیٰ میرے گناہوں کو معاف کر دے گا؟ رسول اللہ ﷺ نے جواب دیا کہ ہاں ! پھر جب وہ شخص اپنے سوال کا جواب پا کر واپس ہوا تو آپ ﷺ نے اسے آواز دی اور فرمایا کہ ہاں اللہ تعالیٰ تمہارے گناہ یقینًا معاف کر دے گا مگر قرض کو معاف نہیں کرے گا مجھ سے جبرائیل نے یہی کہا ہے۔ (مسلم)

حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا مؤمن کی روح اپنے قرض کی وجہ سے اس وقت تک معلق رہتی ہے جب تک کہ اس کا قرض ادا نہ ہو جائے (یعنی جب کوئی شخص قرضدار مرتا ہے تو اس کی روح اس وقت تک بندگان صالح کی جماعت میں داخل نہیں ہوتی جب تک کہ اس کا قرض ادا نہ ہو جائے۔ (ترمذی، ابن ماجہ)

حضرت ابوموسی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کبیرہ گناہ جن سے اللہ نے منع فرمایا ہے اللہ کے نزدیک ان کے بعد عظیم ترین گناہ کہ جس کا مرتکب ہو کر بندہ اللہ سے ملے یہ ہے کہ کوئی شخص اس حالت میں مرے کہ اس پر قرض کا بوجھ ہو اور اس نے اپنے پیچھے اتنا مال نہ چھوڑا ہو جس سے اس کا قرض ادا ہو جائے۔ (ابوداؤد)

حضرت براء بن عازب کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا قرض دار اپنے قرض کی وجہ سے محبوس کر دیا جائے گا ( یعنی جنت میں داخل ہونے اور بندگان صالح کی صحبت میں پہنچنے سے روک دیا جائے گا) چنانچہ وہ قیامت کے دن اپنے پروردگار سے اپنی تنہائی کی شکایت کرے گا۔ (شرح السنۃ)

لہٰذا جو لوگ بہن بھائیوں کا حصہ دینے میں بلا عذر تاخیر اور ٹال مٹول کررہے ہیں، انہیں چاہیے کہ درج بالا احادیث سے عبرت حاصل کرکے اس حرکت سے باز آجائیں، اور جلد از جلد ان کا حصہ دے کر عنداللہ ماجور ہوں۔ ورنہ بروزِ حشر ان کی گرفت طے ہے۔

استقرض من الفلوس الرائجۃ فعلیہ مثلہا کاسدۃ ولا یغرم قیمتہا۔ قال الشامي: أي إذا ہلک وإلا فیرد عینہا اتفاقاً۔ (درمختار مع الشامي، کتاب البیوع، باب المرابحۃ والتولیۃ، فصل في القرض، ۷/۳۹۰)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
14 محرم الحرام 1441

1 تبصرہ: