بدھ، 15 دسمبر، 2021

کرایہ کی کوکھ Surrogate mother کا شرعی حکم

سوال :

عرض گذارش یہ ہے ایک شخص جس کے اولاد نہیں ہو رہی کیا اس شخص کا نطفہ لیکر کسی اجنبی (غیر محرم) عورت کے رحم میں ڈال کر بچہ پیدا کیا جائے تو کیا یہ حلال اور جائز ہے؟ اور اگر ایسا کرلیا گیا اور مذکورہ طریقے سے بچہ پیدا ہو گیا تو وہ بچہ کیا کہلائے گا؟ اس بچے کو ولدالزنا تو نہیں کہا جائے گا؟ برائے کرم وضاحت سے مدلل جواب مرحمت فرمائیں عین نوازش ہوگی۔
(المستفتی : محمد ایوب، واسکو، گوا)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : بوقتِ ضرورت چند شرائط کے ساتھ بیوی کے رحم میں شوہر کا نطفہ ٹیسٹ ٹیوب کے طریقہ کار کے ذریعہ رکھنا جائز ہے۔ لیکن کسی مرد کا نطفہ اس کی بیوی کے علاوہ کسی اور عورت میں رکھنا ناجائز اور حرام ہے۔ اس پر اگرچہ زنا کی حد جاری نہیں ہوگی لیکن بقیہ احکام زنا کے ہی لاگو ہوں گے۔ لہٰذا اگر یہ عورت کسی کے نکاح میں نہ ہوتو یہ بچہ ولد الزنا ہوگا اور ماں سے منسوب ہوگا۔ اور اگر یہ عورت کسی کے نکاح میں ہوتو حدیث شریف الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ کے تحت بچہ صاحب فراش یعنی اس کے حقیقی شوہر سے منسوب ہوگا۔ ہر دو صورت میں جس آدمی کے مادہ منویہ سے استفادہ کیا گیا ہے اس کا اس بچہ سے کوئی تعلق نہیں ہوگا، نہ ہی بچہ اس سے منسوب ہوگا اور نہ ہی اس کی وراثت میں اس کا حصہ ہوگا۔

عَنْ رُوَيْفِعِ بْنِ ثَابِتٍ الْأَنْصَارِيِّ قَالَ : قَامَ فِينَا خَطِيبًا، قَالَ : أَمَا إِنِّي لَا أَقُولُ لَكُمْ إِلَّا مَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ يَوْمَ حُنَيْنٍ، قَالَ : لَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَسْقِيَ مَاءَهُ زَرْعَ غَيْرِهِ۔ (سنن ابی داؤد، رقم : ٢١٥٨)

عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ قَالَ : قَامَ رَجُلٌ فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ فُلَانًا ابْنِي عَاهَرْتُ بِأُمِّهِ فِي الْجَاهِلِيَّةِ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَا دِعْوَةَ فِي الْإِسْلَامِ، ذَهَبَ أَمْرُ الْجَاهِلِيَّةِ، الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ۔ (سنن ابی داؤد، رقم : ٢٢٧٤)

(التلقیح الصناعی) ھو استدخال المنی لرحم المرأۃ بدون الجماع فأن کان بماء الرجل لزوجتہ جاز شرعاً اذ لا محذور فیہ بل قد یندب اذا کان ھناک مانع شرعی من الاتصال الجنسی. وأما ان کان بماء رجل اجنبی عن المرأۃ لا زواج بینھما فھو حرام، لأنہ بمعنی الزنا الذی ھو القاء ماء رجل فی رحم اِمرأۃ لیس بینھما رابطۃ زوجیۃ، و یعد ھٰذا العمل أیضاً منافیاً للمستوی الاِنسانی ومضارعاً للتلقیح فی دائرۃ النبات والحیوان۔ (الفقہ السلامی وادلتہ : ٤/٢٦٤٩)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
10 جمادی الاول 1443

1 تبصرہ: