جمعہ، 2 دسمبر، 2022

بیوی کو بیٹا یا میرا بچہ کہہ کر پکارنا

سوال :

حضرت میرا سوال یہ ہے کہ بیوی کو بیٹا یا میرا بچہ کہہ کر پکارنا کیسا ہے؟ اور اگر کوئی شخص اسی طرح پکارتا ہو تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ شریعت کی روشنی میں اس مسئلہ کی رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد مصدق، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : بیوی کو بیٹا یا میرا بچہ کہنا ایک بے وقوفانہ اور شرعاً مکروہ عمل ہے۔

حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
بیوی کو بیٹا کہنا لغو اور بیہودہ حرکت ہے، مگر اس سے نکاح نہیں ٹوٹا۔ (آپ کے مسائل اور ان کا حل : ٦/٦٧٠)

اور اگر اس طرح کی احمقانہ حرکت غیروں کی نقالی میں ہورہی ہے تو پھر یہ عمل حدیث شریف ( "مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ" جس نے جس قوم کے ساتھ مشابہت اختیار کی وہ (قیامت کے دن) اُسی کے ساتھ ہوگا۔) کی وعید میں داخل ہوجائے گا اور اس کی قباحت شناعت مزید بڑھ جائے گی۔ تاہم اس کی وجہ سے نکاح پر کوئی اثر نہیں ہوگا، دونوں بدستور میاں بیوی باقی رہیں گے۔ البتہ آئندہ اس حماقت، بے وقوفی اور شرعاً ناجائز عمل سے اجتناب ضروری ہے۔

وَيُكْرَهُ قَوْلُهُ أَنْتِ أُمِّي وَيَا ابْنَتِي وَيَا أُخْتِي وَنَحْوَهُ۔ (شامی : ٣/٤٧٠)

عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال : قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من تشبہ بقوم فہو منہم۔ (سنن أبي داؤد، رقم : ۴۰۳۱)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
07 جمادی الاول 1444

3 تبصرے: