جمعہ، 29 اکتوبر، 2021

ولادت پر ہونے والا خرچ شوہر یا والدین پر؟

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ شادی کے بعد پہلی ولادت کے لئے لڑکی کا اپنے والدین کے گھر جانے کا جو رواج ہے اسکی کیا شرعی حیثیت ہے؟ نیز اگر وہ چلی جاتی ہے یا اسکو بھیجا جاتا ہے تو کیا اس ولادت کا سارا خرچ لڑکی کے والدین کے ذمہ واجب ہے یا اسکے شوہر کی ذمہ داری رہے گی؟
(المستفتی : مولوی اویس، پونے)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : پہلے بچے کی ولادت کے وقت حاملہ کا میکہ جانا ایک تکلیف دہ رسم ہے۔ جس کا قرآن و حدیث سے کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اگر والدین برضا ورغبت اپنی بچی کی ولادت کا خرچ خود برداشت کرلیں تو شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ لیکن عوام کے ایک طبقہ میں اس رسم کو ضروری سمجھ لیا گیا ہے، والدین کی استطاعت ہو یا نہ ہو وہ اس رسم کو ادا کرنے کے لیے قرض بھی لے لیتے ہیں، اور لڑکے والے بھی یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ہماری ذمہ داری نہیں ہے۔ جبکہ شرعاً ولادت کے وقت اور اس کے بعد ہونے والے اخراجات کی ذمہ داری شوہر پر ہی ہے نہ کہ بچی کے والدین پر۔ لہٰذا شوہر کو اپنی ذمہ داری ادا کرنا چاہیے۔ اور معاشرہ سے اس قبیح رسم کو ختم کرنا چاہیے۔ 

وَفِيهِ أُجْرَةُ الْقَابِلَةِ عَلَى مَنْ اسْتَأْجَرَهَا مِنْ زَوْجَةٍ وَزَوْجٍ وَلَوْ جَاءَتْ بِلَا اسْتِئْجَارٍ، قِيلَ عَلَيْهِ وَقِيلَ عَلَيْهَا. (قَوْلُهُ قِيلَ عَلَيْهِ إلَخْ) عِبَارَةُ الْبَحْرِ عَنْ الْخُلَاصَةِ: فَلِقَائِلٍ أَنْ يَقُولَ عَلَيْهِ؛ لِأَنَّهُ مُؤْنَةُ الْجِمَاعِ، وَلِقَائِلٍ أَنْ يَقُولَ عَلَيْهَا كَأُجْرَةِ الطَّبِيبِ .... وَيَظْهَرُ لِي تَرْجِيحُ الْأَوَّلِ؛ لِأَنَّ نَفْعَ الْقَابِلَةِ مُعْظَمَهُ يَعُودُ إلَى الْوَلَدِ فَيَكُونُ عَلَى أَبِيهِ تَأَمَّلْ۔ (شامی : ٣/٥٧٩)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
22 ربیع الاول 1443

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں