جمعرات، 2 جنوری، 2020

مردوں کے مہندی اور ہلدی لگانے کا حکم

سوال :

مرد حضرات کا مہندی لگانا یا مہندی کے ڈیزائن بنانا کیسا ہے؟ ہمارے یہاں شادی کے موقع پر بہت سے مرد مہندی اور ہلدی وغیرہ  لگاتے ہیں شریعت میں کیا حکم ہے رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : لئیق احمد، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مہندی  لگانا عورتوں کا شعار ہے، اور شرعاً پسندیدہ عمل ہے، خواہ ہاتھ پر ہو یا سر پر۔ مردوں کے لئے عام حالات میں صرف سر اور داڑھی میں  مہندی  لگانے کی اجازت ہے، وہ بھی کالے رنگ کو چھوڑ کر۔ ہاتھ پیر پر مہندی  لگانا خواہ ڈیزائن والی ہو یا بغیر ڈیزائن کے، شرعاً درست نہیں ہے، کیونکہ اس میں عورتوں کے ساتھ تشبہ پایا جاتا ہے۔ البتہ بطور علاج مردوں کے لئے تلووں اور جہاں ضرورت ہو ایسی جگہوں پر مہندی لگانے کی گنجائش ہے۔

شادی بیاہ کے موقع پر مردوں کا ہلدی لگانا ایک فضول رسم ہے، اور اگر اس کے لگانے میں غیرمحرم عورتوں کا سہارا لیا جائے یا غیرمحرم مرد وعورت کا ایک دوسرے کو ہلدی لگانا اور دھینگا مستی کرنا بلاشبہ ناجائز اور گناہ کی بات ہے، جس سے بچنا انتہائی ضروری ہے۔ البتہ اگر شادی کے علاوہ موقع پر اگر کسی ضرورت کی وجہ سے ہو تو ہلدی لگانے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں۔

عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا قالت : أومت امرأۃ من وراء ستر بیدہا کتاب إلی رسول اللّٰہ ا فقبض النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یدہ - إلی قولہ - لو کنت امرأۃ لغیرک أظفارک یعني بالحناء۔ (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح ۸؍۳۱۲)

أما خضب الیدین والرجلین فیستحب في حق النساء ویحرم في حق الرجال إلا للتداوی۔ (مرقاۃ المفاتیح، کتاب اللباس، ۸؍۲۳۳)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
6 جمادی الاول 1441

3 تبصرے:

  1. یہ ہندوستان میں رہنے کے کچھ سائڈ ایفیکٹس میں سے ایک ہے۔ ہلدی، مہندی، ابٹن، کٹیار، منگنی فلانا ڈھماکہ یہ سب ہندوؤں کی دین ہے اور سب کو پتہ ہے کے یہ ساری رسمیں کون کرتا ہے مسلمانوں میں

    جواب دیںحذف کریں




  2. *(زِنا ایک قرض ہے)....؟*
    *•زنا ایک قرض ہے کیا یہ کسی حدیث میں آیا ہے؟*

    اس بات میں کوئی شک نہیں کہ زنا کبیرہ گناہوں میں سے ایک بہت بڑا گناہ ہے اور اس کی برائی کیلئے یہ بات کافی ہے کہ قرآن مجید نے اس قبیح عمل کیلئے
    *انه كان فاحشة ومقتا وساء سبيلا* ۔۔ کہاں ہے،
    فرمایا کہ یہ عمل بےحیائی اور غلط روش کا مجموعہ ہے اور قرآن نے اس عمل کو روکنے کیلئے اس عمل کے دواعی (یعنی اسکی طرف لے جانے والے افعال) بدنظری اور بے پردگی تک کو منع فرما دیا،
    یاد رہے یہ کوئی حدیث نہیں ہے، بلکہ امام شافعی رحمہ اللّٰہ کا ایک شعر ہے، جو کچھ یوں ہے؛
    *(إن الزنى دين فإن أقرضته*
    *كان الوفاء بأهل بيتك فأعلم*
    *• دیوان الشافعی ص ٨٤*
    زنا ایک قرض ہے ،اگر تو یہ قرض لے گا تو اس کی ادائیگی تیرے گھر والوں سے ہوگی)

    لیکن یاد رکھیں کہ شرعی اعتبار سے ہر شخص اپنے گناہ کا خود ذمہ دار ہے، اور کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا، یعنی کسی کے زنا کا بدلہ کسی دوسرے(ماں ،بہن یا بیٹی) سے نہیں لیا جائے گا، اس گناہ کا بوجھ اُسی پر ہو گا جس نے کیا ہے،
    ارشاد باری تعالیٰ ہے،
    • أَلّا تَزِرُ‌ وازِرَ‌ةٌ وِزرَ‌ أُخر‌ىٰ {٣٨} سورة النجم
    *کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا (القرآن)*
    بلاشبہ یہی حقیقت ہے کہ ایک آدمی گناہ کرے تو اس کے گناہ کی سزا کسی دوسرے کو نہیں ملے گی، اور اللّٰه ربّ العزّت ظلم نہیں کرتا، نہ ہی کسی ایک شخص کے گناہوں کی سزا دوسروں کو دے گا،

    *امام شافعی رحمہ اللہ کا یہ قول سمجھانے کی غرض سے تھا، جیسے ہم کہتے ہیں "جیسا کرو گے ویسا بھرو گے"*

    معلوم ہوا کہ زنا کا قرض ہونا حدیث میں مذکور نہیں ہے اور نہ ہی یہ لازم ہے کہ ایک شخص کے گناہ میں مبتلا ہونے کی نحوست سے اس کے گھر کی عورتیں بھی اس میں مبتلا ہوں،
    اللّٰه پاک ہم سب کو اِس کبیرہ گناہ سے محفوظ فرمائے آمین۔۔!!!!

    کیایہ سب درست ہے ؟؟؟؟

    جواب دیںحذف کریں