منگل، 21 جنوری، 2020

سودی رقم دینی یا دنیاوی جلسہ کے اخراجات میں صَرف کرنا

*سودی رقم دینی یا دنیاوی جلسہ کے اخراجات میں صَرف کرنا*

سوال :

مفتی صاحب ایک مسئلہ ہے کہ سود کی رقم جلسے میں اخراجات کی مد میں (اسٹیج وغیرہ کے اخراجات میں) استعمال کرسکتے ہیں یا نہیں؟ اگر جلسہ دینی ہو یا دنیاوی دونوں کیلئے کیا حکم ہے رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : حافظ فہد، مالیگاؤں)
--------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مسئلہ ھذا میں اصولی بات اچھی طرح سمجھ لی جائے کہ بینک اکاؤنٹ میں جمع شدہ رقم سے ملنے والی سود کی رقم کو اس کے مالک کو لوٹانا ضروری ہے، یہ ممکن نہ ہوتو بلا نیت ثواب فقراء اور مساکین میں تقسیم کرنا چاہئے۔

اسی طرح بینک کے سود کی رقم سے خود کے انکم ٹیکس اور جی ایس ٹی کی ادائیگی کرنے کی علماء نے اجازت دی ہے۔ اس لئے کہ یہ دونوں غیرواجبی اور ظالمانہ ٹیکس ہیں، اور چونکہ بینکوں کا تعلق حکومت سے ہوتا ہے، جب سود کی رقم انکم ٹیکس جیسے ظالمانہ ٹیکس میں دی جائے گی تو وہ اسی کے رب المال کی طرف لوٹے گی، ان کے علاوہ سودی رقم کا اور کوئی مصرف نہیں ہے۔

درج بالا تفصیل سے اس بات کا بخوبی علم ہوگیا ہوگا کہ جلسہ خواہ دینی ہو یا دنیاوی اس کے اخراجات میں سودی رقم خرچ کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ سودی رقم کا مصرف نہیں ہیں، لہٰذا جلسہ کے اخراجات میں خالص حلال رقم استعمال کی جائے گی۔

ویردونہا علی أربابہا إن عرفوہم وإلا تصدقوا بہا؛ لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ۔ (شامي، کتاب الحظر والإباحۃ / باب الاستبراء، فصل في البیع، ۹؍۵۵۳)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
26 جمادی الاول 1441

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں